Column

سیاسی بیانیہ یا ذاتی مفادات: موجودہ پی ٹی آئی قیادت کے ترجیحات کیا؟

تحریر : راؤ بلال

 

وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ جیل میں بیٹھے وہ لوگ جو کل تک پارٹی کے ستون تھے، آج نشانِ عبرت بنائے جا رہے ہیں۔ ان چہروں سے وفاداری کے دعوے تو بہت کیے گئے، مگر وقت آنے پر وفاداری کی قیمت ادا نہ کر سکے۔ ” شاہ محمود قریشی ” ایک ایسا سیاسی کردار جو ہمیشہ پارٹی کے فیصلوں میں شریک رہے، ایک وقت میں خارجہ پالیسی کا چہرہ مانے گئے، آج عدالت سے بری ہو جاتے ہیں، مگر پارٹی کا کوئی نمائندہ نہ اس کا خیرمقدم کرتا ہے، نہ اسے سیاسی بیانیے میں جگہ دی جاتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سلمان اکرم راجہ نے کہا شاہ محمود بالکل پارٹی کی۔لیڈ نہیں کریں گے پارٹی کو لیڈ صرف عمران خان کریں گے۔ لیکن انہیں یہ بیان کیوں دینا پڑا جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے نہیں اور شاہ محمود پر سوال اٹھا رہے ہیں اتنا ٹائم آپکو پارٹی میں آئے نہیں ہوا جتنا انہیں جیل میں قید ہوئے ہو گیا ہے۔

 

9 مئی میانوالی کیس کے فیصلے کی تلخی ابھی مدھم نہیں ہوئی تھی جس میں ملک احمد خان بھچر، اعجاز چوہدری اور احمد چھٹہ کو 10 سال سزا ہوئی تھی اور لاہور شیر پاؤ پل کیس می یاسمین راشد، اعجاز چوہدری، میاں محمود الرشید اور عمر سرفراز چیمہ کو 10، 10 سال کی سزائیں سنائی گئیں تھیں اور شاہ محمود بری ہو گئے تھے۔ فیصل آباد اور راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالتوں کے فیصلے پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت پر ایک قہر بن کر ٹوٹے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو خان صاحب کے بیانیے کے لیے خود کو جھونکتے رہے ہیں ۔

 

یہ سزا قانون کی عملداری تھی یا سیاسی مفاہمت کی ناکامی؟

 

اس کا جواب عدالتوں سے زیادہ ان دروازوں کے پیچھے چھپا ہے جہاں مختلف جماعتوں کے لیڈر یہ فیصلہ کرتے کہ انہوں نے اپنا، اپنے کارکنوں اور پارٹی کا مستقبل کیا سوچا ہے؟ موجودہ حالات میں یہ نظر آتا ہے پیٹرن انچیف نے گہرے اندھیروں کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کیونکہ مفاہمت کی خوشبو ان فیصلوں سے نہیں آتی اور آئے گی بھی کیوں؟ جب ایک جماعت فوجی تنصیبات اور شہداء کی نشانیوں کی بے حرمتی کرے اور اس پر ڈٹ جائے تو ریاست اور ریاستی ادارے کیونکر مفاہمت کا سوچیں گے۔

 

دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو اس سارے معاملے میں نسبتاً خاموش رہے یا پس پردہ "بیانیہ چینج” کی پالیسی پر عمل کرتے رہے، وہ یا تو بری ہو گئے یا پھر اُن کے وارنٹ جاری ہوئے مگر گرفتاری عمل میں نہ آئی۔ مثال کے طور پر علی امین گنڈاپور، عمر ایوب، حماد اظہر، شبلی فراز کے خلاف وارنٹ تو جاری ہوئے، مگر اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ یہی وہ حکمت عملی ہے جو آج عمران خان کی تحریک کو دو دھڑوں میں تقسیم کر چکی ہے۔

 

یہ تمام قابل احترام لوگ جنکا نام میں نے لیا ہے اسکی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ انکی سزا کے خلاف اپیل ہوگی اور یہ لوگ شک کی بنا پر یا تو رہا ہو جائیں گے یا انہیں دس دس سال کی سزا سے بچا لیا جائے گا کیونکہ یہ لوگ عمران خان کے بیانیے کے ساتھ کھڑے نظرنہیں آتے کیونکہ نہ تو انکی گرفتاری نظر آتی ہے اور یہ لوگ تمام معاملات میں نظر بھی نہیں آتے مثلا احتجاجی تحریک۔

 

خان صاحب کی کال پر 5 اگست کا جلسہ تو اعلان ہو چکا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ جلسہ اُن اسیرانِ وفا کے لیے بھی آواز اٹھائے گا جنہوں نے مزاحمت کا علم تھام رکھا ہے؟ یا پھر یہ صرف اُن لوگوں کا مظاہرہ ہوگا جنہوں نے بیانیے کے ساتھ اپنی ترجیحات بھی تبدیل کر لیں؟

یا صرف پیٹرن انچیف کی رہائی کا نعرہ لگایا جائے گا اور انکی گڈ بکس میں آنے کے لیے حکومت، ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف شعلہ بیانی سے کام لیا جائے گا یا ایک بار پھر راوی صرف چین لکھے گا۔

 

پانچ اگست کو ایف نائن پارک میں جلسہ ہوگا، اس کے لیے باقاعدہ درخواست دی گئی ہے، مگر یہ جلسہ صرف ایک سیاسی سرگرمی نہیں بلکہ ایک اخلاقی امتحان بھی ہے۔ اگر اس جلسے میں شاہ محمود قریشی، یاسمین راشد یا عمر چیمہ کا ذکر تک نہ ہو تو سمجھا جا سکتا ہے کہ پارٹی کی ترجیحات میں اب وفاداری نہیں، صرف سیاسی چالاکی باقی رہ گئی ہے۔

 

تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے عدالتی فیصلوں کو چیلنج کرنے کا عندیہ دیا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا خان صاحب اس بیانیے کے ساتھ ہیں یا ان بگھوڑوں کے ساتھ جو صرف "ڈٹ کر کھڑے ہیں کپتان” کا نعرہ لگاتے ہیں؟ پارٹی میں وہ لوگ جنہوں نے وقت پر خاموشی اختیار کی یا معافی مانگی، وہ آج آزاد ہیں، اور جو "نظریاتی” کہلاتے تھے وہ جیل میں ہیں۔

 

یہ وہ لمحہ ہے جب پیٹرن انچیف قید تنہائی کی شکایت کر رہے ہیں اور ہر ملاقات میں شکوہ اور شکایات کرتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ جیل سے بیٹھ کر تنظیم سازی کر سکتے ہیں؟ جواب ہے نہیں دوسرا سوال یہ ہے اگر شاہ محمود قریشی کو یہ ذمہ داری دی جاتی ہے تو کیا پارمنظم ہو پائے گی؟ جواب ہے نہیں کیونکہ جو حال بیرسٹر گوہر کا ہوا وہی تحریک انصاف والے شاہ محمود کے ساتھ کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن شاہ محمود کو تو کہا جا رہا کہ انہوں نے سمجھوتہ کر لیا ہے اسی لیے انکے صاحبزادہ زین قریشی بھی بیک وقت 3 مقدمات میں بری ہوئے ہیں لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ شاہ۔محمود اینڈ فیملی کے خلاف سوچی سمجھی سازش کی جارہی ہے اور سمجھوتہ کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ 9 مئی 2023 کو شاہ محمود لاہور تو کیا پنجاب میں بھی موجود نہیں تھے وہ کراچی نشتر اسپتال میں اپنی بیگم کی تیمارداری کر رہے تھے جنکا اسی دن آپریشن ہوا تھا۔ نہ۔تو شاہ محمود نے سمجھوتہ کیا اور نہ ہی وہ اس عمل کا حصہ ہونگے بس پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ قیادت انکے خلاف محاذ آرائی کر رہی ہے۔

جواب دیں

Back to top button