Column

غریب کا دشمن غریب

غریب کا دشمن غریب
تحریر: روہیل اکبر

شیخ رشید پرانے اور عوامی سیاستدان ہیں، ان کا ایک جملہ بہت ہی خوبصورت ہے کہ پاکستان میں غریب ہی غریب کا دشمن ہے، اوپر والے تو سبھی ایک دوسرے کا نہ صرف بھر پور خیال رکھتے ہیں بلکہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کا سہارا بھی بن جاتے ہیں، جبکہ ملک کا غریب طبقہ ایک دوسرے کا جانی دشمن، جہاں موقع ملتا ہے ایسے ایسے تشدد کے طریقے سامنے آتے ہیں کہ دل دھک دھک کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اس وقت پنجاب میں ٹریفک پولیس کی طرف سے چالان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں نے شہریوں کو شدید پریشان کر رکھا ہے۔ عوام پہلے ہی بدترین معاشی، سیاسی اور سماجی مسائل کا شکار ہے۔ اس وقت شہری مہنگائی، بدامنی، بڑھتے ہوئے سٹریٹ کرائمز اور لاقانونیت کی لپیٹ میں ہیں۔ روز بروز اشیاء خورونوش اور پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نیے عوام کی قوت خرید کو متاثر کر رکھا ہے، اوپر سی بجلی کے بلوں میں مسلسل اضافہ اور بجلی کی غیر یقینی دستیابی نے عوام کے لئے مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور اب رہی سہی کسر ٹریفک پولیس نے پوری کردی ہے۔ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت وقت کی ترجیحات میں عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی بجائے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنا نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں حکومت کی جانب سے مخالف سیاسی جماعتوں خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کے خلاف اقدامات کو انتقامی سیاست کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے۔ عوام کے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے حکومت سیاسی میدان میں اپنے مخالفین کو دبانے میں مصروف ہے، اس سے نہ صرف عوام میں مایوسی اور بے اعتمادی کا ماحول پیدا ہو رہا ہے، بلکہ معاشرتی توازن بھی بگڑ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سرحدی صورتحال کی نازک صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج کو مسلسل چوکنا رہنا پڑ رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر ملک کی داخلی صورتحال غیر مستحکم ہو تو بیرونی خطرات کا سامنا کرنے میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ معاشی عدم استحکام کے اثرات براہ راست عوام کی روزمرہ زندگی پر پڑ رہے ہیں، پاکستان کا بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ اور زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی معیشت پر مزید دبائو ڈال رہے ہیں، جس کے نتیجے میں بے روزگاری اور مہنگائی مزید بڑھ رہی ہے۔ ان مسائل کے حل کے لئے ضروری ہے کہ حکومت عوام کے مسائل کو اپنی اولین ترجیح بناتے ہوئے پولیس کے نظام میں اصلاحات کرے ورنہ حالات بگڑ بھی سکتے ہیں، کیونکہ اس وقت مہنگائی کا طوفان ہر گھر کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے، مزدور کی اجرت دو وقت کی روٹی کے لیے ناکافی ہے، پٹرول، آٹا، بجلی، گیس سب کچھ عوام کی پہنچ سے باہر ہو رہا ہے اور ایسے میں ٹریفک پولیس کا چالانوں کی بھر مار کرنا غربت کی ماری اس قوم پر ظلم سے کم نہیں۔ لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی اور ملتان جیسے بڑے شہروں میں آج کل ہر موٹر سائیکل سوار، ہر رکشہ ڈرائیور اور ہر پرائیویٹ گاڑی والا ایک ہی فقرہ دہراتا ہے ’’ اب تو سانس لینے پر بھی چالان ہو جائے گا‘‘! شائد اسی لیے سڑکوں پر وردی پہنے، ہاتھ میں چالان بک لیے کھڑے ٹریفک وارڈن اکثر ایک مخصوص ہدف کے تحت شہریوں کو روک روک کر چالان کر رہے ہیں۔ یہ ’’ یومیہ ٹارگٹ‘‘ سسٹم درحقیقت عوام سے زبردستی پیسے نکلوانے کا ایک نیا ہتھکنڈہ بن چکا ہے۔ تصور کریں کہ ایک مزدور جو روزانہ 1000روپے کماتا ہے، اگر وہ بغیر ہیلمٹ کے پکڑا جائے اور اس پر 2000روپے کا چالان ہو جائے تو وہ کیا کھائے گا؟، بچے کو سکول کیسے بھیجے گا؟، ایک طالبعلم جس کے پاس رجسٹریشن نہیں یا ایک غریب رکشہ ڈرائیور جو سگنل کراس کر جائے، ان سب پر ہزاروں کے چالان کر دینا انصاف نہیں بلکہ ’’ ریاستی زیادتی‘‘ ہے۔ اس وقت لاہور میں سیف سٹی کیمرے اور اے این پی آر سسٹم نے چالانوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ کر دیا ہے، ایک شخص کو مہینے کے آخر میں پتا چلتا ہے کہ اس پر 5، 6یا 10چالان لگ چکے ہیں، وہ بھی بغیر کسی اطلاع، وارننگ یا موقع فراہم کیے، یہ عمل نہ صرف غیر شفاف ہے بلکہ عوام کے لیے باعثِ ذہنی اذیت بھی ہے، جس پر عوام کی شکایات ہیں کہ ہمیں آگاہی نہیں دی جاتی، بلکہ جرمانہ کر دیا جاتا ہے۔ شکایات سننے کے لیے کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں، چھوٹی چھوٹی خلاف ورزیوں کو بھی سنگین جرم بنا کر جرمانے تھوپے جاتے ہیں، جس سے شہریوں میں بے چینی پائی جارہی ہے۔ اس مسئلے کا حل نکل سکتا ہے، اگر حکومت سنجیدگی سے سوچے کہ جرمانے کی شرح آمدنی کے مطابق ہو، ایک مزدور، ایک رکشہ ڈرائیور اور ایک لگژری کار والے پر ایک ہی رقم کا چالان سمجھ سے بالاتر ہے۔ پہلی بار خلاف ورزی پر وارننگ سسٹم ہو، چالان کے بجائے شہری کو خبردار کیا جائے، ٹریفک قوانین کی عملی تربیت دی جائے، قانون صرف سزا نہیں بلکہ رہنمائی بھی ہونی چاہیے۔ ٹارگٹ بیسڈ چالان سسٹم ختم کیا جائے، ورنہ قانون ایک ’’ ریاستی بھتہ‘‘ بن جائے گا۔ شہریوں کی شکایات کے لیے آزاد فورم بنایا جائے، جہاں شہری اپنی بات بغیر خوف کے رکھ سکیں، کیونکہ ریاست اگر واقعی ماں کی مانند ہے تو اْسے اپنی اولاد کو سڑکوں پر تنگ نہیں کرنا چاہیے۔ غریب عوام پر جرمانے ٹھونس کر ان کی غربت اور بے بسی کا مذاق نہ اْڑایا جائے۔ چالان اگر اصلاح کے لیے ہوں تو قابلِ قبول ہیں، اگر وہ صرف خزانے بھرنے کا ذریعہ بن جائیں تو پھر یہ انصاف نہیں جبر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ ٹریفک پولیس والوں کا چالان کرنے کا مقابلہ ہورہا ہے، اسی لیے تو 2025ء میں پنجاب پولیس نے 6.75ملین سے زائد چالان جاری کیے، جن سے تقریباً 4ارب روپے وصول کیے گئے ہیں۔ ڈیڑھ ارب سے زائد روپوں کے ای چالان ہدف کے بعد لاہور کے لئے علیحدہ سے11ارب روپے کی آمدن کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ لاہور میں 6ارب روپے سے زائد کے چالان تھے، جن میں سے کچھ کو عدالت کے ذریعے ضبط شدہ گاڑی نیلام کرنے تک کارروائی کی گئی۔ آن لائن فورمز پر شہریوں نے شکایت کی ہے کہ ہر ٹریفک وارڈن کو روزانہ چالان کا ہدف دیا گیا ہے، ( مثلاً 25چالان روزانہ) تاکہ ادارے اپنی ریونیو ٹارگٹ پورا کر سکیں۔ اس دبائو کی وجہ سے بعض اوقات غیر سنجیدہ یا معمولی خلاف ورزیوں پر بھی چالان کیے جا رہے ہیں۔ پنجاب میں ٹریفک چالانوں کی ’’ بھرمار‘‘ دراصل نئے قانونی، تکنیکی اور ریونیو اہداف کی وجہ سے ہے۔ اس لیے شہریوں کو بھی چاہیے کہ مناسب احتیاطیں اختیار کریں اور قواعد کی پابندی کریں تو چالان کا خطرہ کم ہو سکتا ہے، ورنہ غریب ٹریفک وارڈن اپنی نوکری بچانے کے لیے اپنے سے بھی غریب لوگوں کے چالان کرتا رہے گا۔

جواب دیں

Back to top button