اسرائیلی فوج میں نفسیاتی مدد کا فقدان

اسرائیلی فوج میں نفسیاتی مدد کا فقدان
تحریر : قادر خان یوسف زئی
اکتوبر 2023ء سے شروع ہونے والی غزہ کی جنگ نے نہ صرف خطے کے سیاسی و سماجی منظرنامے کو ہلا کر رکھ دیا، بلکہ اس نے اسرائیلی فوجیوں کے ذہنی صحت کے بحران کو بھی بے نقاب کیا۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ اس جنگ کے آغاز سے اب تک کم از کم 28سے 43اسرائیلی فوجیوں نے خودکشی کی، جبکہ ہزاروں فوجی پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر اور دیگر ذہنی بیماریوں کا شکار ہوئے۔ یہ اعداد و شمار صرف تعداد نہیں، بلکہ ایک ایسی انسانی داستان کی عکاسی کرتے ہیں جو جنگ کے غیر مرئی زخموں کی شدت کو بیان کرتی ہے۔ غزہ کی جنگ، ایک ایسی لڑائی ہے جس نے نہ صرف فلسطینیوں بلکہ اسرائیلی فوجیوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ اسرائیل کی دفاعی فورسز کے مطابق، جنگ کے آغاز سے اب تک 19000فوجی زخمی ہوئے، جن میں سے 10000کو ذہنی بیماریوں کی تشخیص ہوئی۔ ان میں سے 3770فوجیوں میںٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کی تصدیق ہوئی، جبکہ تخمینہ ہے کہ سال کے آخر تک مزید ہزاروں فوجیوں کو ذہنی صحت کے علاج کی ضرورت ہوگی۔
اسرائیلی فوجی جن حالات کا شکار ہیں ، وہ دنیا کے لئے سبق آموز ہیں۔ ایک فوجی، ایلران مزراحی، جو ایک چار بچوں کا باپ تھا، اس جنگ کے نفسیاتی اثرات کی ایک واضح مثال ہے۔ اس نے غزہ میں تعیناتی کے بعد خودکشی کر لی۔ اس کے خاندان کے مطابق، وہ غزہ کے مناظر سے تبدیل ہو گیا تھا۔ اس کی ماں نے کہا کہ ’’ وہ غزہ سے باہر نکل آیا، لیکن غزہ اس کے اندر سے باہر نہ نکل سکا‘‘۔ اس کی کہانی ان ہزاروں فوجیوں کی نمائندگی کرتی ہے جو جنگ کے نفسیاتی بوجھ تلے دب کر اپنی زندگی کے فیصلے خود کر لیتے ہیں۔
یہ نفسیاتی بحران صرف جنگ کی شدت تک محدود نہیں۔ اس کی جڑیں اس اخلاقی زخم میں پیوست ہیں جو فوجیوں کو اس وقت لگتا ہے جب وہ اپنے اعمال کو اپنی اخلاقی اقدار کے خلاف پاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، فوجیوں نے بیان کیا کہ انہوں نے ’’ ہزاروں مردہ اور زندہ افراد کو روندا‘‘، جو ان کے ذہنوں پر ایک ناقابل فراموش نشان چھوڑ گیا۔ یہ مناظر، جنہیں بعض نے’’ ویڈیو گیم‘‘ جیسا قرار دیا، تباہی کی اس پیمانے کی عکاسی کرتے ہیں جو فوجیوں کو ایک ایسی دنیا میں لے جاتی ہے جہاں انسانی جان کی قدر ایک دھندلا سا تصور بن جاتی ہے۔ یہ اخلاقی زخم، ایک ایسی نفسیاتی حالت ہے جو فوجیوں کو اپنے اعمال پر سوال اٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔ جب ایک فوجی شہریوں کی ہلاکت یا تباہی کا حصہ بنتا ہے، تو اس کا ضمیر اسے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب وہ خود سے پوچھتا ہے کہ کیا اس نے صحیح کیا، اور اس کا جواب اکثر اسے اندھیروں میں لے جاتا ہے۔
اسرائیلی فوجیوں کے اس نفسیاتی بحران کو سمجھنے کے لیے ماہر نفسیات کی رائے اہم ہے۔ تل ابیب یونیورسٹی کے ایک مطالعے کے مطابق جنگ کے دوسرے سال میں داخل ہوتے ہی 12فیصد فوجی ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر سے متاثر ہوئے۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ نے بھی غزہ کی جنگ کے نفسیاتی اثرات کو اجاگر کیا، جس میں ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر، ڈپریشن اور اضطراب کی اعلیٰ شرح کی نشاندہی کی گئی۔ ماہر نفسیات نے نوٹ کیا کہ طویل المدت جنگ کا دبا، خاص طور پر ریزرو فوجیوں کے لیے جو 300دن سے زیادہ تعینات رہتے ہیں، اس بحران کوکو بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔ یہ فوجی، جو ایک عام شہری زندگی سے اچانک جنگ کے میدان میں آتے ہیں، شہری زندگی میں واپسی کے چیلنجز کا شکار ہوتے ہیں۔غزہ کی جنگ کی خاص نوعیت نے اس نفسیاتی بحران کو مزید پیچیدہ کیا ہے۔ یہ جنگ ایک مقامی، شدید شہری تنازع ہے، جہاں فوجیوں کو نہ صرف دشمن کے حملوں کا سامنا ہوتا ہے، بلکہ شہری آبادی کے درمیان لڑائی کے نتائج بھی دیکھنے پڑتے ہیں۔ جولائی 2025ء تک، 59900سے زیادہ فلسطینی ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں، جو فوجیوں کے لیے ایک نفسیاتی بوجھ بنتی ہیں۔ یہ وہ مناظر ہیں جو فوجیوں کے ذہنوں میں گھر کر جاتے ہیں، انہیں نیند سے محروم کرتے ہیں، اور ان کے اندر ایک ایسی خالی پن پیدا کرتے ہیں جو خودکشی جیسے فیصلوں کی طرف لے جاتی ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ کچھ فوجیوں نے اسی’’ نسل کشی کی جنگ‘‘ قرار دیا، جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ شہری ہلاکتوں کی شدت نے ان پر گہرا اثر ڈالا۔ یہ اخلاقی زخم اس وقت اور گہرا ہوتا ہے جب فوجی اپنے اعمال کو ایک بڑے تناظر میں دیکھتے ہیں، جہاں وہ خود کو ایک ایسی مشینری کا حصہ پاتے ہیں جو تباہی پھیلاتی ہے۔
اس تناظر میں، امریکی فوجیوں کے تجربات ایک اہم موازنہ پیش کرتے ہیں۔ عراق اور افغانستان کی جنگوں میں، 9؍11کے بعد سے 30177فعال ڈیوٹی اور سابق فوجیوں نے خودکشی کی، جو لڑائی میں ہلاکتوں سے چار گنا زیادہ ہے۔ یہ اعداد و شمار ایک ایسی حقیقت کو عیاں کرتے ہیں کہ جنگ کا سب سے بڑا نقصان شاید میدان جنگ سے باہر ہوتا ہے۔ امریکی فوجیوں کے لیے، ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر، ٹرامیٹک برین انجیری ، اور اخلاقی زخم کلیدی وجوہات تھیں۔ ایک مطالعے نے پایا کہ خودکشی کا خطرہ شہری آبادی کے مقابلے میں 41سے 61فیصد زیادہ تھا، خاص طور پر خدمت کے بعد پہلے تین سالوں میں۔ امریکی فوجیوں نے غیر متوازن جنگ، اندرونی حملوں، اور شہری زندگی میں واپسی کے چیلنجز کا سامنا کیا۔ غزہ جنگ کے اس بحران کے دوران، اسرائیلی فوج نے 800ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کی ہیں اور ذہنی صحت کی مشاورت کے مراکز بھی قائم کئے ہیں تاکہ فوجیوں کی نفسیاتی حالت پر قابو پایا جا سکے۔ اس کے علاوہ، فوج میں شامل ہونے والے افراد میں سے کئی ایسے بھی ہیں جنہیں بغیر فوجی جنازوں کے دفن کیا گیا ہے۔ غزہ جنگ میں اسرائیل ایسے فوجیوں کی جبری تعینات کررہا ہے جنہوں نے کبھی جنگ کا سامنا نہیں کیا تھا۔
اسرائیلی فوجیوں کی خودکشیوں کی کہانی، امریکی فوجیوں کی طرح، ایک ایسی حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے کہ جنگ کا سب سے بڑا نقصان وہ ہوتا ہے جو دکھائی نہیں دیتا۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب جارح فوجیوں کی ذہنی صحت کی یہ عبرت ناک حالت ہے تو جن پر جنگ مسلط کی گئی اور جنہوں ہزاروں لاشیں دیکھی ، دفن کیں اور بے گھر ہوئے وہ کن مصائب اور نفسیاتی بحران کا شکار ہوں گے۔ غزہ کی جنگ اور اس کے نفسیاتی اثرات ایک عالمی سبق ہیں کہ جنگ کی تباہی صرف میدان جنگ تک محدود نہیں رہتی، بلکہ اس کی لہریں انسانی دماغوں کے گہرے کونوں تک پھیلتی ہیں، جہاں وہ خاموشی سے ایک اور جنگ لڑتی ہیں۔







