دوسری شادی کیلئے پہلی بیوی سے اجازت

دوسری شادی کیلئے پہلی بیوی سے اجازت
تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان
دوسری شادی کیلئے پہلی بیوی سے اجازت کا قانون فیڈرل شریعت کورٹ لاہور رجسٹری میں چیلنج کر دیا گیا، مدثر ایڈووکیٹ نے درخواست میں موقف اپنایا کہ قانون خلاف اسلام ہے، آئین کے مطابق اسلامی اصولوں کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا، آئین کے مطابق کوئی خلاف اسلام قانون بنے تو فیڈرل شریعت کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، ریسرچ کے مطابق 35سال سے بڑی عمر کی ایک کروڑ خواتین شادی کی منتظر ہیں، استدعا ہے کہ عدالت اس قانون کو خلاف اسلام قرار دے کر کالعدم قرار دے ۔
واضح رہے کہ رواں برس 16مارچ کو فیملی کورٹ لاہور نے پہلی بیوی سے اجازت کے بغیر دوسری شادی کرنے والے شخص کو سات ماہ قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ خاتون کی درخواست پر فیملی کورٹ لاہور کے جج عدنان لیاقت نے تحریری فیصلے میں کہا کہ محمد اورنگزیب خان نے پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کی، دوسری شادی کے لیے قانونی طور پر تحریری اجازت لینا ضروری ہے ۔
موجودہ قوانین کے مطابق اگر کوئی مرد پہلی بیوی کی تحریری اجازت کے بغیر شادی کرے تو پہلی بیوی کی شکایت پر اسے سزا یا جرمانے یا دونوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ قانون کے مطابق دوسری شادی کرنے کے لیے تحریری اجازت نامے کے لیے یونین کونسل کے چیئرمین کو درخواست دینی ہوتی ہے جس میں دوسری مجوزہ شادی کی وجوہات اور پہلی بیوی سے اجازت حاصل ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے ۔ یونین کونسل چیئرمین یہ درخواست موصول ہونے پر شوہر اور بیوی سے اپنی اپنی جانب سے ایک، ایک رکن نامزد کرنے کے لیے کہتے ہیں جس کے نتیجے میں چیئرمین کی سربراہی میں ثالثی کمیٹی تشکیل پاتی ہے ۔ یہ ثالثی کمیٹی پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کی وجوہات کا جائزہ لینے کے بعد اجازت دینی یا نہ دینے کا فیصلہ کرتی ہے
آج کے معاشرے میں بیوہ و مطلقہ خواتین کی زندگی کس قدر پیچیدہ و پرخار ہے ، اس کا اندازہ وہی خاتون کر سکتی ہے جو اس قرب سے گزر رہی ہے ، یا وہ لوگ جن کی کوئی قریبی عزیزہ اس دکھ کو جھیل رہی ہے، کہ کس طرح جب ایک جیون ساتھی داغ مفارقت دے جائے تو دوسرا معاشرے کے رحم و کرم پر رہ جاتاہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ایسی خواتین کو عزت و احترام اور جینے کا مناسب حق دینے کی بجائے انہیں کہیں منحوس خیال کرتے ہوئے دربدر کردیا جاتا ہے تو کہیں انہیں مورد الزام ٹھہرا کر ان کی زندگی اجیرن کردی جاتی ہے۔ خواتین یا نوجوان لڑکیوں کی طلاق و خلع ظاہر ہے کہ انتہائی ناگزیر صورت حال میں ہی واقع ہوتی ہے ۔ اس بات سے قطع نظر کہ ایسا کیوں ہوا اور کس کا قصور تھا، عام طور پر انہیں مختلف نوعیت کے منفی اور روایتی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں ایک طرف گھر بسانے کی اہلیت نہ ہونے کے طعنے ہوتے ہیں، اور دوسری طرف ترس بھری نظریں اور سب سے زیادہ تکلیف دہ ذاتی معاملات سے متعلق پرتجسس سوالات جو ان خواتین کی زندگی کی مشکلات کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔ اور پھر ایسی خواتین سے ہمدردی کے نام پر جنسی درندے ان کی عزت نفس تک کو مجروح کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ اس طرح انہیں ذہنی مریض بناکر رکھ دیا جاتاہے۔
یوں تو ہر دور میں مظلومی اور محکومی عورت کا مقدر رہی ہے، وہ اذیت اور ذلت کا بوجھ اٹھائے تاریکیوں کے جنگلوں میں بھٹکتی رہی ہے۔ نور اسلام سے قبل کہیں صنفی امتیاز کے سبب عورت کو زندہ دفن کیا گیا تو کہیں شوہر کی وفات پر خود سوزی کے لیے مجبور کیا گیا، اس طرح بحیثیت انسان اسے اس کے جائز مقام اور حقوق سے ہمیشہ محروم رکھا گیا۔ لیکن جب اسلام کا مہرباں طلوع ہوا تو اس کی بے نور زندگی عفو وکرم ، رحمت و مودت، حسن سلوک سے منور ہوگئی۔ بلاشبہ اسلام دین فطرت ہے جو کہ عورت کو بحیثیت انسان تمام فطری اور جائز حقوق عطا کرتا ہے۔ خاتم النبین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد خواتین نے ایک نئی تاریخ رقم کی جس کی مثال پہلے کبھی موجود نہ تھی، خود پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل زندگی شاندار نمونہ اور بہترین اسوہ ہے ۔ آپ نے جہاں خواتین کو معاشرے میں باعزت زندگی اور اعلیٰ مقام عطا کیا، خواتین کو ہر قسم کے بے بنیاد الزامات و اتہامات سے بری قرار دیا اور طنز و تشنیع کا نشانہ بننے سے ان کا تحفظ کیا جو مختلف معاشروں، سوسائٹیوں اور اقوام میں ان کی تحقیر و تذلیل، رسوائی اور حقوق سے محرومی کا سبب بن رہے تھے یا آج تک بنتے چلے آرہے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے ہدایت یافتہ معاشرے میں کسی بیوہ کو مرد کے سہارے کے بغیر تنہا چھوڑ دینا نا پسندیدہ تھا، آپ نے بیوگی اور طلاق کی صورت میں بے بسی و بے کسی کی زندگی گزارنے کے مسائل سے بھی ان کی حفاظت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ بیوہ اور مسکین کی خبر گیری کرنے والا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے ‘‘۔ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں ’’ بیوہ اور مسکین کی خبر گیری کرنے والا ایسے تہجد گزار کی طرح ہے جو سست نہیں ہوتا اور ایسے روزے دار کی طرح ہے جو ناغہ نہیں کرتا‘‘۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کی تاکید فرمائی اور عملی نمونہ پیش کیا کہ کوئی عورت بیوہ ہو جائے کہ اس کا شوہر انتقال کر جائے اور اپنے پیچھے یتیم بچے چھوڑ جائے یا کوئی مرد طلاق دے دے تو ایسی عورتوں کی دلجوئی کریں، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھیں، ان سے نکاح کر لیں اور ان کے بچوں کی پرورش کریں۔ خود رسول کریمؐ نے کئی مطلقہ اور بیوہ خواتین سے نکاح کیے اور ان بے سہارا خواتین کا سہارا بننے کے ساتھ دین اسلام کی تبلیغ و دعوت کے کاموں میں مدد لی۔ رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں صرف ایک حضرت عائشہؓ کے علاوہ سب مطلقہ اور بیوہ تھیں، بعض تو کئی بار کی مطلقہ اور بیوہ تھیں، اور ان تمام نکاحوں کی بنیاد اسلام کا فروغ، بہترین ملکی و ملی مصالح اور مسلمانوں کے لیے مقاصد حسنہ پر تھی۔
قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’ اے لوگو! جو عورتیں تمہیں اچھی لگیں دو۔ دو، تین۔ تین، چار۔ چار سے نکاح کر لو اور اگر یہ خطرہ ہو کہ عورتوں کے درمیان عدل و انصاف سے کام نہ لے سکوگے تو پھر ایک ہی پر اکتفا کرو‘‘ ( سورۃ النسائ)۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اس آیت میں نکاح کا حکم دو، دو سے شروع کیا گیا، اور ایک نکاح کا حکم صرف ایسے مردوں کے لیے ہے جو عدل و انصاف نہ کر سکتے ہوں۔ آج کے معاشرے میں شادی شدہ حضرات مزید ضرورت کے لئے خفیہ گرل فرینڈز تو رکھ لیتے ہیں مگر معاشرے کے نام نہاد خوف کے باعث عزت کے ساتھ دوسری شادی کے لئے آمادہ نہیں ہوتے ۔ دوسری طرف کنواروں کی مائیں، بہنیں، بیوہ یا مطلقہ سے شادی کے معاملے میں جذباتی رکاوٹ بن جاتی ہیں اور بیویاں بھی شوہروں کی، دلچسپیاں، علم میں آجانے کے باوجود ان کی گرل فرینڈز تو برداشت کر لیتی ہیں مگر سوتن کی حیثیت سے ان کو اپنی محبت میں حصہ دار بنانے کو تیار نہیں ہوتیں۔ جب ایک جیون ساتھی داغ مفارقت دے جائے تو دوسرا معاشرے کے رحم و کرم پر رہ جاتاہے، جانے والے کی کمی تو سارا زمانہ مل کر بھی پوری نہیں کر سکتا لیکن کم از کم حقوق و فرائض کی ادائیگی میں تو تعاون کرنا انسانیت کے اعلیٰ ترین تقاضوں میں سے ایک ہے ۔ ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے اور متعدد نکاح کو فروغ دے کر بیوہ و مطلقہ خواتین کا سہارا، اور خوشیوں کے لیے ان کا ساتھی بننا چاہیے۔







