ColumnRoshan Lal

سیلاب سے ، ہوشیار باش

سیلاب سے ، ہوشیار باش
تحریر : روشن لعل

بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہوں گے کہ مون سون یا برسات کے موسم کو یہاں ’’ فلڈ سیزن ‘‘ یعنی سیلاب کا موسم بھی کہا جاتا ہے۔ برسات کے موسم کو ’’ فلڈ سیزن‘‘ اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ یہاں ماضی کا ہر تباہ کن، دریائی سیلاب مون سون کے دوران ہی رونما ہوا۔ سیلاب کی بنیادی تعریف یہ ہے کہ جب کوئی ایسی جگہ یا مقام جو عام طور پر خشک اور پانی کی پہنچ سے دور رہے مگر عارضی طور پر طوفان ، بارش یا کسی آبی گزر گاہ کے بہتے ہوئے پانی کی زد میں آجائے تو ایسی صورت حال کو سیلاب کہا جاتا ہے۔ سیلاب پانی کی بہائو کی ایک خاص کیفیت کا نام ہے۔ اس کیفیت کے حامل دریائی پانی کا سیلاب کسی بھی قسم کے دوسرے سیلابوں سے زیادہ خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ دریائی سیلاب کے ممکنہ خطرات اور نقصانات سے نمٹنے اور عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے، سیلاب کی کیفیت کو مختلف درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان درجوں کو نچلے، درمیانے، اونچے، بہت اونچے اور بہت زیادہ اونچے درجے کے سیلابوں کا نام دیا گیا ہے۔ ہر دریا میں سیلاب کے ان درجوں کی پیمائش کے لیے پانی کے بہائو کی مختلف حدیں مقرر کی جاتی ہیں۔ سیلاب کے پانچ درجوں میں سب سے زیادہ تباہ کن بہت زیادہ اونچے درجے کا سیلاب ہوتا ہے جبکہ سیلاب کے دیگر چار درجے اکثر اوقات کسی غیر معمولی نقصان کا باعث بنے بغیر گزر جاتے ہیں۔رواں مون سون کے دوران، پاکستان میں دریائے سندھ کے اکثر مقامات پر نچلے یا درمیانے درجے کے سیلاب کی صورتحال رونما ہو چکی ہے۔ دریائے سندھ کے بعد دریائے چناب کے کچھ مقامات پر بھی نچلے اور درمیانے درجے کا سیلاب آچکا ہے۔ پاکستان کے تمام میڈیا ہائوسز دریائے سندھ اور چناب میں کم درجے کے سیلابوں اور دیگر دریائوں کے مختلف مقامات پر پانی کی آمد و اخراج کے متعلق خبریں نشر کرتے رہتے ہیں لیکن بہت زیادہ اونچے درجے کے سیلاب کے امکان کے متعلق شاید اپنی کم آگہی کی وجہ سے کچھ نہیں بتاتے۔ جس تباہ کن سیلاب کے امکان سے ہمارا میڈیا آگاہ نہیں ہے اسے سمجھنے کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ سال 2010ء کے تباہ کن دریائی سیلاب سے پہلے خاص طور پر دریائے سندھ کے مختلف مقامات پر پانی کی آمد و اخراج کی صورتحال کیا تھی۔ یاد رہے کہ 2010ء کا سیلاب 29جولائی کو تربیلا ڈیم سے پانی کے 630000کیوسک یکمشت اخراج سے شروع ہوا۔ قبل ازیں، تربیلا ڈیم میں 21تا 29جولائی پانی کی سطح 1491.81فٹ سے بلند ہوکر 1521.81فٹ تک جا پہنچی تھی۔ اس دوران تربیلا ڈیم سے پانی کا خراج 239000 کیوسک سے 580400کیوسک جبکہ پانی کی آمد 351000سے 690000 کیوسک تک رہی۔29جولائی کو تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح انتہائی گنجائش 1550فٹ سے ابھی 28فٹ کم تھی کہ بالائی علاقوں میں غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے 832000 کیوسک پانی کا ریلا ڈیم کی طرف آیا۔ اس ریلے میں سے630000کیوسک پانی دریائے سندھ کی زیریں سمت میں بہا دیا گیا جس نے بعد ازاں ایک ماہ تک میانوالی سے ٹھٹہ تک تباہی برپا کیے رکھی۔
اب اگر تربیلا ڈیم میں پانی کی موجودہ سطح پر غور کر لیا جائے تو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ کس بنیاد پر بہت زیادہ اونچے درجے کے سیلاب کے امکان کی بات کی جارہی ہے۔ تربیلا ڈیم میںپانی ذخیرہ کرنے کی انتہائی گنجائش 1550فٹ ہے جبکہ 31جولائی 2025ء کی دوپہر کواس میں 1538فٹ سطح تک پانی ذخیرہ کیا جاچکا ہے۔ اس کا مطلب ہے تربیلا ڈیم میں اس وقت ذخیرہ کیا گیا پانی انتہائی سطح سے صرف 12فٹ کم ہے۔ واضح رہے کہ 31جولا ئی 2010ء کو جب تربیلا کی طرف آنے والے آٹھ لاکھ ، بتیس ہزار کیوسک پانی کے ریلے میں سے چھ لاکھ بتیس ہزار کیوسک پانی، میانوالی سے ٹھٹھہ تک تباہی پھیلانے کے لیے چھوڑا گیا اس وقت ڈیم میں پانی کی سطح 1524.63 فٹ تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بہت زیادہ اونچے درجے کا سیلاب پیدا کرنے والا پانی کا ریلا تربیلا ڈیم سے دریائے سندھ میں چھوڑا گیا اس وقت وہاں ذخیرہ کیے گئے پانی کا لیول انتہائی سطح سے 25.37فٹ کم تھا۔ تربیلا ڈیم میں کس فارمولے کے تحت پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے یہ تو ماہرین ہی بتا سکتے ہیں مگر ڈیم میں پانی کی موجودسطح 1538فٹ کو دیکھ کر کوئی عام انسان بھی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اگست اور ستمبر تک مزید جاری رہنے والے مون سون کے دوران اگر 2010 ء کی طرح غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے کوئی کا بڑا سیلابی ریلا پیدا ہو گیا تو تربیلا میں مزید پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہ ہونے وجہ سے اسے تباہی برپا کرنے کے لیے دریا کے سپرد کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ 1992ء کے تباہ کن سیلاب کی وجہ بھی یہی تھی کہ منگلا ڈیم میں اس وقت کی انتہائی سطح 1202 فٹ تک پانی ذخیرہ کر لیا گیا تھا مگر بالائی علاقوں میں شدید بارشوں کی وجہ سے جب پانی کا بڑا ریلا منگلا ڈیم کی طرف آیا تو ڈیم کو بچانے کے لیے یک لخت نو لاکھ کیوسک سے زیادہ پانی دریا جہلم میں چھوڑنا پڑا جو بعد ازاں تباہی کی تاریخ رقم کرتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔
یہاں ناقابل تردید اعداد و شمار کی بنیاد پر بہت زیادہ اونچے درجے کے سیلاب کا امکان ظاہر کرنے کے باوجود اس کی آمد کو یقینی قرار نہیں دیا گیا۔ واضح رہے کہ، 31جولائی 2015ء کو تربیلا ڈیم میں پانی 1542.00فٹ، یعنی انتہائی سطح سے صرف آٹھ فٹ کم تک پانی ذخیرہ کر لیا گیا تھا مگر بعد ازاں تباہ کن سیلاب جیسی کوئی صورتحال پیدا نہیں ہوئی تھی۔ بظاہر یہ بات قابل جواز لگتی ہے کہ اگر 31جولائی 2015ء کو تربیلا ڈیم میں 1542.00فٹ پانی ذخیرہ کرنے کے باوجود بھی ہم سیلاب سے محفوظ رہے تو 31جولائی 2025ء تک ڈیم 1538فٹ بلندی تک پانی ذخیرہ ہونے پر زیادہ تشویش کا اظہار نہیں کرنا چاہیے مگر موجودہ صورتحال کو ایک دوسرے اینگل سے دیکھنا بھی ضروری ہے۔ 31 جولائی 2025ء کو اگر 31جولائی 2015 ء سے چار فٹ کم پانی ذخیرہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مون سون 2015ء کی آمد سے قبل بارشیں معمول کے مطابق برسنے کی پیشگوئی کی گئی تھی جبکہ رواں مون سون کے لیے معمول سے 35 تا 75 فیصد زیادہ بارش برسنے کی پیش گوئی ہے۔ رواں مون سون کی پیش گوئی کے عین مطابق جولائی میں معمول سے کافی زیادہ بارشیں ریکارڈ کی جاچکی ہے ۔ پیشگوئی کے مطابق اگر معمول سے زیادہ بارشیں برسنے کا رجحان، جولائی کی طرح اگست میں بھی جاری رہاتو سوچا جاسکتا ہے کہ کس قسم کے تباہ کن نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ ڈیموں میں بروقت پانی ذخیرہ کرنا بہت ضروری ہے لیکن تربیلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کے بعد تباہ کن سیلاب کا جو خطرہ پیدا ہوا ہے ہمیں اسے بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button