Column

پائوں پھیلائوں تو دیوار میں سر لگتا ہے

پائوں پھیلائوں تو دیوار میں سر لگتا ہے
تحریر : صفدر علی حیدری

وزیر اعظم کے بقول ملک کے نوے فیصد عوام وہ ہیں جن کا بجلی کا بل دو سو یونٹس کے اندر اندر رہتا ہے ۔ انہی کو وہ پروٹیکٹڈ صارف کہتے ہیں۔ یعنی محفوظ اور بچے ہوئے جو یقیناً بچے کھچے ہیں۔ یہ وہ بے آواز عوام ہیں جن کو دو بار ریلیف کی خوش خبری ملی، اشتہارات بھی چھپے مگر کچھ بھی نہ ملا سوائے مایوسی کے۔
آپ نے تو کہہ دیا کہ نوے فیصد عوام دو سو یونٹس تک بجلی خرچ کرتے ہیں، پر آپ یہ نہ دیکھ پائے کہ وہ اپنے بل کو محدود کرنے اور دو سو یونٹس کے اندر رکھنے کے لیے کیا کیا جتن کرتے ہیں۔ یہ وہ تمام صارفین ہیں جن کے گھر میں اے سی نہیں ہیں کہ اگر اے سی چلایا جائے تو بل تین سو یونٹس سے آگے نکل جاتا ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ ان میں چند فی صد لوگوں کے گھروں میں دو، دو میٹر نصب ہوں۔ ایسی صورت میں وہ رات کے وقت چند گھنٹی کے لیے اے سی چلانے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ دو سو یونٹ تک کے صارف بے چارے پنکھوں پر گزارا کرتے ہیں۔ رات کو کولر چلاتے ہیں تو ریفریجریٹر بند رکھتے ہیں۔ دن میں اسے چلاتے ہیں تو کولر بند رکھتے ہیں۔ کپڑے بازار سے پریس کراتے ہیں۔ دوپہر کو اگر کولر چلانا ہو تو فریج بند کر لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ روزنامہ میٹر کی زیارت بھی کرتے ہیں کہ کہیں یونٹ آگے تو نہیں نکل گئے۔ کیلکولیٹر پر حساب بھی لگاتے ہیں۔ مہینے کے آخری دنوں میں کپڑوں والی مشین نہیں چلاتے کہ کہیں ان کا نام محفوظ صارفین کی فہرست سے غائب نہ ہو جائے۔ راقم الحروف کے ساتھ پچھلے ایسا ہوا تھا کہ ایک بار یونٹ دو سو اوپر ہو گئے اور بل دس ہزار سے اوپر چلا گیا۔ یوں دو ماہ میں اسے ایک سال کا بل ادا کرنا پڑا۔ دو سو ایک ریڈ زون ہے۔ اگر آپ نے یہ سرخ لکیر ایک بار عبور کر لی تو اگلے چھ ماہ آپ کو جب جب بجلی کا بل ملے گا آپ کو جھٹکے لگیں گے۔
ہماری سیاسی جماعتیں تبھی عوام کہ خیر خواہ ہوتی ہیں اور بنتی ہیں جب وہ اپوزیشن میں ہوتی ہیں۔ جب اقتدار ان کے ہاتھ میں آتا ہے تو گویا ان کے ہاتھ میں عوام کا گریبان آ جاتا ہے۔ اب جو چاہے ان کا حسن کرشمہ ساز کرتے۔
جیسے مرا ہوا زندوں کے بس میں ہوتا ہے کہ جیسا چاہیں اس کے ساتھ سلوک کریں۔
آپ خود دیکھیں کہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے بلوں پر ملک کو چلایا جا رہا ہے۔ اوپر سے یہ بتا کر ہمیں شرمندہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ آئے اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ کیسے ؟ کیا صرف عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لاد کر، بجلی کی قیمت بڑھا کر اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کر کے۔ اوپر تو یہ بات ایک سیاسی لطیفے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی کہ انہوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے۔ قرضوں پر قرضے لے کر بھی کوئی ملک دیوالیہ ہونے سے بچا ہے۔
مرزا غالب کی طرح قرض کی مے پی کر یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کی فاقہ مستی ایک دن ضرور رنگ لائے گی۔ جب سے ان لوگوں نے پچھلی حکومت پر ڈاکہ ڈالا اور پھر مینڈیٹ ہتھیایا ہے کوئی ایک شعبہ دکھا دیں جس میں بہتری آئی ہو۔ میں چون کہ اوچ شریف جیسے پسماندہ علاقے میں رہتا ہوں جو ایک زرعی خطہ ہے تو میں اسی حوالے سے بات کروں گا۔ دو سال سے آئی ایم ایف کی غلامی کرتے ہوئے حکومت نے کسان سے گندم نہیں خریدی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کسان کا دیوالیہ نکل گیا ۔ وہ جھولیاں اٹھا اٹھا کر موجودہ حکومت کو ’’ دعائیں ‘‘ دیتا ہے۔
موجودہ حکومت نے کون سی ایسی پالیسی اپنائی ہے کہ جس سے ملک کو ناقابل یقین فائدہ پہنچا ہے۔ کیا سادگی اپنا کر اپنے خرچ کم کیے ہیں۔ اللے تللے چھوڑے ہیں کہ ہم سمجھیں ان کی بروقت محنت نے ملک کو تباہی سے بچا لیا ہے ۔ حالت یہ ہے کہ اس اسمبلی اراکین کی تنخواہیں اور مراعات میں کئی گنا اضافہ کر لیا ہے۔ سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کو آئوٹ سورس کر کے بیچنا شروع کر دیا ہے۔ نوکریوں پر بین ہے ۔ نوجوان طبقہ مایوسی کا شکار ہے۔ کچھ ایسا نہیں کیا گیا کہ عوام کو سکھ کا سانس کا آتا۔ الٹا مہنگائی ، بے روزگاروی کرپشن اور لاقانونیت نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔
ان تجربہ کار نااہلوں نے بربادی کی ایسی ایسی داستانیں رقم کی ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ چینی آٹا پٹرول کے بڑھنے پر آٹھ آٹھ آنسو رونے والے اور اسلام آباد کی طرف مہنگائی مارچ کرنے والوں نے یہ چیزیں اتنی مہنگی کر دی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ مردود طبقہ پس کر رہ گیا ہے۔ مگر افسوس ان کو ترس نہیں آتا۔ یہ لوگ پوری ڈھٹائی سے ٹی وی پر آ کر اپنی کارکردگی کے گن گاتے ہیں، اختیارات چلاتے ہیں اور عوام کا دل جلاتے ہیں۔
اب ذرا بجلی کے بلوں کے حوالے سے نئی پالیسی پر نظر ڈالتے ہیں۔
غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ حکومت نے نیا بجلی کا کھیل کھیل دیا ہے، پہلے جو 200یونٹ والا رعایتی نظام تھا وہ ختم کر دیا گیا ہے، اب اسے بڑھا کر 300یونٹ کر دیا گیا ہے لیکن اس میں اصل چالاکی چھپی ہے۔
پرانا نظام: پہلے 100یونٹ پر ریٹ 9روپے فرنٹ تھا ، اس کے بعد کے یونٹس (100+)پر ریٹ ہوتا تھا 13روپے فی یونٹاور اگر آپ کا بل 200یونٹ سے اوپر چلا جاتا تو آپ کو 34روپے فی یونٹ کا ٹیکہ لگتا لیکن یہ بھی شرط تھی کہ اگر آپ 6 مہینے تک دوبارہ 200یونٹ سے کم پر آ جائیں تو آپ واپس 9روپے فی یونٹ کے ریٹ پر آ جاتے تھے، یعنی اگر کوئی بندہ کچھ مہینے زیادہ بجلی خرچ کر گیا تو اسے دوبارہ سستے ریٹ پر آنے کا موقع ملتا تھا۔
نیا نظام: اب 1یونٹ سے لے کر 300یونٹ تک کا ریٹ سیدھا 33روپے فی یونٹ کر دیا گیا ہے، کوئی سلیب سسٹم نہیں بچا، کوئی 6مہینے کی رعایت یا واپسی کا راستہ نہیں بچا، یعنی اب جو بندہ پہلے تھوڑا احتیاط کر کے 200یونٹ سے نیچے رہ کر بچ جاتا تھا اب اس کو بھی وہی مہنگا ریٹ بھرنا پڑے گا۔
نتیجہ اس کا یہ ہے کہ عوام کو ایک طرف سے ریلیف کا دھوکہ دیا گیا ہے کہ 300یونٹ تک رعایت ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب سب کو یکساں مہنگی بجلی خریدنی پڑے گی۔ پہلے تھوڑی بہت امید بچ جاتی تھی 6مہینے بعد سستے ریٹ کی، اب وہ امید بھی حکومت نے چھین لی ہے۔ یہ عوام کے ساتھ زیادتی ہے، مذاق ہے، اور معاشی قتل ہے۔ اب احتیاط بچت یا کم خرچ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں بچا، ہر حال میں لوٹنے کا سسٹم بنا دیا گیا ہے۔
آخر میں یہی عرض کروں گا کہ خدا راہ عوام کو جیتے جی مت ماریے ۔ ان کو جینے دیجیے۔
آپ سے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں چاہتے کہ دو ایک یونٹ پر بجلی کے بل میں پانچ ہزار والا اضافہ واپس لے لیجیے۔ دو سے اوپر جتنے بھی یونٹس چلیں، ان کا ریٹ کو بھی مقرر کیا جائے، بس اسی کو بل میں ایڈ کیا جائے۔ اگر کسی نے دو سو تیس یونٹ صرف کیے ہیں تو تیس یونٹس کا ریٹ الگ سے لگایا جائے۔ یہ نہ کیا جائے کہ دو سو تیس یونٹس کا ایک ہی ریٹ کر کے عوام کو دس ہزار سے اوپر کا بل بھیج دیا جائے اور ہاں پروٹیکٹڈ اور نان پروٹیکٹڈ کو ڈارمہ بھی ختم کیا جائے۔ اس ایک قدم سے عوام کا کچھ تو بھلا ہو گا۔ کچھ تو پریشانی دور ہو گی۔ اس کو کہا جائے گا کہ کچھ تو انھیں ریلیف ملا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو عوام یہی سوچ کر پریشان ہوتی رہیں گے کہ غریب عوام کا پرسان حال کون ہے ؟
زندگی تو نے ہمیں قبر سے کم دی ہے زمیں
پائوں پھیلائوں تو دیوار میں سر لگتا ہے

صفدر علی حیدری

جواب دیں

Back to top button