Columnمحمد مبشر انوار

سراب

سراب
تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض )

غزہ کی صورتحال کس قدر مخدوش ہو چکی ہے اور یہاں کیا کچھ ہورہا ہے، اس کا صد فیصد تو خیر دنیا کے علم میں ہی نہیں کہ اسرائیل نے اپنے پشت پناہ کی آشیر باد سے، اندر کر خبروں پر سخت سنسر عائد کر رکھا ہے لیکن اس کے باوجود حالات کی خبر بہرطور آج کے دور میں قید نہیں کی جاسکتی اور بتدریج خبریں باہر آتی رہتی ہیں۔ ان خبروں کے مطابق غزہ میں جاری مسلم نسل کشی ہر طریقہ سے ممکن بنائی جارہی ہے خواہ وہ براہ راست بمباری ہو یا غزہ میں زندگی اتنی اجیرن ہو جائے کہ بنی نوع انسان بارودی فضا میں سانس لینے پر مجبور ہوں یا ان کے لئے غذائی قلت اتنی شدید کردی جائے کہ وہ خوراک کے ایک ایک ذرے کو ترسیں یا ان پر پانی اس طرح بند کردیا جائے کہ وہ پانی کے ایک ایک قطرے کے لئے تڑپیں، بس کسی طرح غزہ کو مسلمانوں سے پاک کرکے دم لیا جائے اور اس خطہ پر صیہونی پرچم لہرایا جاسکے۔ ویسے تو خیر اس خطہ پر اقتدار میں آتے ہی صدر ٹرمپ کی للچائی نظریں بھی گڑی تھی کہ وہ یہاں بہترین قسم کے ہوٹلز و تفریحی مقامات بنانے کے خواہشمند تھے، جو امریکہ یا ان کے زیر تسلط ہوتے لیکن غزہ کے شہریوں کو اس خطہ کی خوبصورتی سے فیضیاب ہونے کے لئے امریکی و اسرائیلی تیار نہیں ۔ بہرحال اپنے اس مقصد کی تکمیل کے لئے اسرائیل نے جتنا تشدد غزہ پر کیا ہے، اس پر تشدد خود بھی شرمندہ ہوگا کہ انسانیت کی ایسی تذلیل بہرکیف تاریخ میں کبھی بھی نہیں ملتی کہ اس طرح شرمناک طریقے سے نسل کشی کی گئی ہو بالخصوص دور جدید کہ جسے انتہائی مہذب گردانا جاتا ہے، جس میں عالمی طور پر جانوروں سے پرندوں اور نجانے کیسی کیسی مخلوق کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اور بیشتر ممالک میں باقاعدہ اس پر عملدرآمد ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے غزہ میں ہونے والی انسانی نسل کشی پر ،قوانین کے ہوتے ہوئے بھی،نہ ان پر عملدرآمد ہو رہا ہے اور نہ ہی مجرمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوئی کوشش دکھائی دیتی ہے۔ گو کہ عالمی عدالتوں کی جانب سے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جنگی جرائم میں ملوث، انسانیت کی تذلیل اور نہتے و بے بس شہریوں کے قتل عام پر نیتن یاہو کو مجرم قرار دیا گیا ہے لیکن بدقسمتی سے اس کے خلاف باقاعدہ فیصلے آنے کے باوجود، اسے کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے یہ عدالتیں بذات خود بے بس ہیں کہ جن ممالک یا افراد کے تعاون سے ان عدالتوں کے دئیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد ہونا ہے، وہ ان عدالتوں کے فیصلوں سے صرف نظر کرتے ہوئے، جنگی جرائم کے مرتکب و مجرم نیتن یاہو کی میزبانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک مجرم ،جو دنیا کے کسی بھی خطے میں ہو، اس کی گرفتاری اور سزا کو یقینی بنانے کی بجائے، اس سے نہ صرف اس امر پر مذاکرات ہوتے ہیں کہ جنگ بندی کے نام پر، مجرمانہ عمل جاری رکھنے کے لئے مزید وقت فراہم کیا جاتا ہے کہ جلد از جلد غزہ کو مسلمانوں سے خالی کروائو، خواہ کتنی ہی انسانی جانوں کی بھینٹ چاہے لے لو۔ اس پس منظر میں یہ کیسے ممکن ہے کہ نیتن یاہو یا اس کے ہمنوا، غزہ میں جاری نسل کشی کو رکوانے میں کامیاب ہو سکیں کہ جب وہ اس میں مخلص ہی نہیں وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اسرائیل جیسی ریاست، جس کے دفاع کا انحصار بلکہ اس کی بقاء کا انحصار ہی امریکی آشیرباد سے منسلک ہے، امریکی جنگ بندی احکامات کی خلاف ورزی کرے؟، اس قدر ظلم کے بعد صورتحال یہ ہے کہ اسرائیلی فوج کی اکثریت جو غزہ میں ڈیوٹی کر چکی ہے، اپنے غیر انسانی سلوک کے باعث، غزہ میں کی گئی قتل و غارت گری، ظلم و ستم کے باعث ذہنی مریض بن چکی ہے اور خبریں یہ ہے کہ اسرائیلی فوج بڑی تعداد میں نفسیاتی علاج گاہوں میں داخل ہو چکی ہے۔ حکمرانوں کے ایماء پر کئے گئے ظلم و ستم نے ان کا ذہنی سکون چھین لیا ہے اور وہ اس قابل بھی نہیں رہے کہ اپنی نظروں سے ہی نظریں ملا سکیں، جبکہ بچ جانے والوں کی اکثریت بھی غزہ میں دوبارہ ڈیوٹی کرنے سے منکر ہے۔
اسرائیلی ظلم و ستم اس قدر بڑھ چکا ہے،رکاوٹیں اتنی سخت رہی ہیں کہ غزہ میں غذائی امداد تک معطل رہی ہے ،طبی امداد تو خیر بہت دور کی بات ہے،مسلم دنیا بہرطور غزہ کے مسلمانوں کی ہر طرح سے امداد کرنا چاہتی ہے ماسوائے عسکری امداد کے مگر اسرائیل نے ان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں رہنے دیاکہ وہ غذائی امداد دے سکیں۔ البتہ اسرائیل کی جانب سے چند ایک تنظیمیں ایسی تھی،جو غذائی امداد کی آڑمیں نہ صرف غزہ کے شہریوں میں موت تقسیم کرتی رہی ہیں بلکہ اس امداد کے لئے اکٹھے ہونے والے شہریوں پر گولیوں کی بارش بھی برساتی رہی ہیں،جو ان گولیوں کا نشانہ بننے سے بچ جاتے اور امداد وصول کرلیتے،ان کے لئے موت کا سامان غیر معیاری غذا میں موجود ہوتا۔ ایسے مکاروں ،بے ایمانوں ،بے غیرتوں کے لئے تف یا لعنت کا لفظ انتہائی چھوٹا ہے،کہ یہ دھوکہ باز،فریبی زندگی کی آڑ میں موت تقسیم کررہے تھے جنہیں اسرائیل کی بھرپور حمایت حاصل تھی اور اسرائیل ان کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے غذائی امداد تقسیم کرنے پر بھی تیار نہیںتھا مگر ان تنظیموں کے دہرے بلکہ مکروہ کردار کے باعث اب عالمی سطح پر ان تنظیموں کو غذائی امداد دینے سے باضابطہ روک دیا گیا ہے۔دوسری طرف ،پڑوسیوں میں اولین پڑوسی مصر ہے لیکن حالات و واقعات حکومتی سطح پر مصر کو پابندیوں میں جکڑے ہوئے ہیں کہ اسرائیلی مظالم کے باوجود مصر جہاں غزہ کے شہریوں کو اپنی حدود میں داخل نہیں ہونے دیتا،غذائی امداد کیسے فراہم کرے تاہم مصری عوام میں جذبہ ایمانی ہنوز موجود ہے اور میڈیا پر مصری عوام کی جانب سے غزہ کی جانب پلاسٹک کی بوتلوں میںغذا بدوش سمندر بھیجی گئی دیکھی ہے،اللہ کریم اس کارخیر کی جزا مصری عوام کو عطا کرے کہ وہ ہر عمل کا پورا پورا بدلہ دینے والا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ترکی نے گزشتہ برس غذائی امداد بھیجنے میں ناکامی کے بعد،ایسی کوئی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اردن کی جانب سے واضح طور پر ایسی کوئی کوشش دیکھنے میں آئی ہے کہ ایسی کوئی بھی کوشش بلا شبہ اسرائیلی جارحیت کو دعوت دینے کے مترادف ہے گو کہ ایرانی کارروائی سے اسرائیلی ہیبت کا بت قدرے ٹوٹا ہے لیکن اس کے باوجود عرب ریاستوں میں وہ حوصلہ مفقود ہے،جو کبھی ان ریاستوں کا امت مسلمہ کے حوالے سے خاصہ رہا ہے۔ گزشتہ چنددن میں اس غذائی قلت کے باعث یہ خبریں عالمی میڈیا میں زیر گردش تھی کہ جس سختی کے ساتھ اسرائیل نے غزہ کا ہر محاذ پر محاصرہ کر رکھاہے بالخصوص غذائی محاصرہ،اس سے غزہ کے شہریوں بالعموم جب کہ تقریبا ایک لاکھ شیرخواروں اور بچوں کی زندگی دائو پر لگی ہے،حالانکہ اس دوران فاقوں سے کئی شہادتیں ہو چکی ہیں لیکن اس کے باوجود اسرائیل اس قدر ظالم بنا رہا کہ اس نے کسی بھی طور غذائی محاصرہ کھولنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی بلکہ ان انسانی جانوں کے ضائع ہونے کا منتظر رہا ۔ تاہم ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے،خواہ خلق کتنی بھی ظالم ہو جائے،عالمی طاقتیں کتنی ہی آنکھیں بند رکھے لیکن موجودہ دور میں بہرطور اس کا ردعمل سامنے آہی جاتا ہے او رایسے انسانیت کش سلوک پر آپ کے حلیف بھی آپ پر تنقید کرنے سے نہیں چوکتے،سو یہی امریکہ و اسرائیل کے ساتھ ہوا کہ معاملہ بہرطور ایک لاکھ بچوں کا تھا اور دنیا اس پر خاموش تماشائی نہیں رہ سکتی تھی۔ اس ظلم کے خلاف ،غزہ کے شہریوں کے ساتھ یکجہتی کے طور پر،عرب ریاستوں کی جانب سے تادم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان سامنے آتے ہی،امریکہ وہ اسرائیل کے دیگر پشت پناہوں کو بہرطور کچھ کئے بنا چارہ نہ رہا اور شنید ہے کہ امریکی سٹیو وٹکوف کی فون پر نیتن یاہو کے ساتھ بات کے بعد ستائیس جولائی کو رفح کی جانب سے اقوام متحدہ کے ٹرک غذائی امداد کے ساتھ غزہ میں داخل ہو چکے ہیں جبکہ یو اے ای کی جانب سے فوری طور پر پانی کی سپلائی جاری ہو چکی ہے،جس سے امید ہے کہ غزہ کے شہریوں کی حالت بہتر ہو گی۔ اب یہ حالت کتنی دیر تک اور کہاں تک بہتر رہتی ہی،اس کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ عمل بہرطور باقاعدہ کسی جنگ بندی کا نتیجہ نہیں بلکہ حالات کا جبر ہے جس نے اسرائیل کو وقتی طور پر پیچھے دھکیلا ہے اور اپنے منصوبوں پر دوبارہ عمل پیرا ہونے کے لئے کب اسرائیل اس امداد کی سپلائی معطل کرتا ہے، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ حالات و واقعات خواہ کچھ بھی ہوںمگر میں ذاتی طور پر نبی اکرمؐ کی پیش گوئیوں پر کامل ایمان رکھتا ہوں کہ اس خطے میں ہونے والی بدامنی بلآخر گریٹر اسرائیل پر ہی منتج ہو گی ،اس دوران حالات کا اتار چڑھائو، وقتی امن و جنگ بندی یا ایسے امدادی عمل فقط ’’ سراب‘‘ ہیں۔

جواب دیں

Back to top button