ColumnTajamul Hussain Hashmi

بلوچستان میں کاروکاری کی خونچکاں داستان

بلوچستان میں کاروکاری کی خونچکاں داستان
تحریر : تجمّل حسین ہاشمی
بلوچستان میں چند روز پہلے کا واقعہ، جس میں عورت اور مرد کو لوگوں کے سامنے سردار کی پنچایت کے حکم پر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ گزشتہ برسوں کے دوران صوبہ بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل جیسے سنگین اور شرمناک سماجی جرم کے ریاست، شریعت اور انسانیت تینوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی واقعات منظر عام آ چکے ہیں ۔ ایک قومی اخبار کی خبر کے مطابق غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق 2019سے 2024تک بلوچستان میں 232 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جن میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں، 2019میں 52، 2020میں 51، 2021 میں 24، 2022میں 28، 2023میں 28اور 2024میں 33افراد کاروکاری کی بھینٹ چڑھے، جو ایک سوالیہ نشان ہے۔ ان اعداد و شمار پر حکومت کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔ ان اعداد و شمار کے پیچھے جو معاشرتی سوچ کارفرما ہے وہ انتہائی خطرناک، متشدد اور غیر اسلامی رویہ ہے، جس نے اسلام کے نام پر جاہلیت کو پروان چڑھایا ہے ۔ اسی سوچ کی حضورؐ نے نفی فرمائی۔ شریعتِ محمدیؐ میں کہیں بھی غیرت کے نام پر قتل کو جائز نہیں کہا گیا، بلکہ قتل ناحق کو قرآن کریم نے پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ اگر کسی پر بدکاری کا الزام ہو تو اسلام اس کے لیے چار چشم دید گواہوں کی شرط رکھتا ہے، اور اگر الزام جھوٹا ہو تو بہت سخت سزا تجویز کی گئی ہے، لہٰذا بغیر ثبوت، بغیر گواہی ، بغیر عدالت کے کسی کو مار دینا نہ صرف شریعت کی توہین ہے بلکہ اسے غیرت کہنا سراسر دین سے انحراف ہے۔
دوسری طرف اگر قانونی زاویے سے دیکھیں تو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302اور 311کے تحت غیرت کے نام پر قتل کو جرم قرار دیا گیا ہے ، لیکن عملی طور پر اس قانون کا اطلاق نہ ہونے کے برابر ہے۔ بیشتر کیسز میں قاتل متاثرہ خاندان کا فرد ہوتا ہے اور صلح یا خون بہا کے ذریعے رہائی پا لیتا ہے، حالانکہ سپریم کورٹ اف پاکستان کی متعدد ہدایات موجود ہیں کہ ایسے کیسز میں ریاست کو مدعی بننا چاہیے، مگر پولیس اور عدالتی نظام کی کمزوری، تفتیشی سستی اور سیاسی دبائو کی وجہ سے یہ ہدایات صرف کاغذوں میں زندہ ہیں۔
قبائلی نظام میں غیرت کے قتل کو نہ صرف قبولیت حاصل ہے، بلکہ بعض مقامی جرگوں اور پنچایتوں میں اسے جائز قرار سمجھا جاتا ہے اور اس کی بنیاد صرف شک، بدنامی یا مفروضے پر ہوتی ہے، جو اسلامی اصولوں اور آئینی انصاف دونوں کے منافی ہے۔ ایسے کیسز میں ریاست میں کہیں نہ کہیں خاموش نظر آتی ہے۔ قبائلی روایات میں کاروکاری کو خاندان یا قبیلے کی عزت کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے اور اکثر یہ قتل جھوٹی، غیر شرعی اور طاقت کے توازن کو قائم رکھنے کے لیے کیے جاتے ہیں نہ کہ کسی حقیقی اخلاقی جرم کے ردعمل کے طور پر۔
حکومت بلوچستان، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور علما کرام اور علاقائی وڈیروں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام میں شعور پیدا کریں کہ غیرت کے نام پر قتل نہ صرف قانوناً جرم ہے بلکہ دینی اعتبار سے بھی حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔ میڈیا، سکول، مساجد، اور عدالتی نظام کو مربوط انداز میں اس بگاڑ کو روکنے کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایسے بیشتر قتل میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں، کئی واقعات میں تو رپورٹ کرنے والے صحافیوں کو قتل کر دیا گیا ہے، ان کی زندگیوں کو خطرات کا سامنا رہتا ہے، کئی موقع پر مقدمات درج نہیں ہوتے اور جن کا اندراج ہو بھی جائے وہ سالہا سال عدالتوں میں رلتے رہتے ہیں اور آخرکار بااثر افراد کی مداخلت یا قبائلی دبائو پر ختم ہو جاتے ہیں۔
اگر قرآن و حدیث میں واضح گواہی اور شریعت کے طریقہ کار کے بغیر کسی کو سزا دینے کی اجازت نہیں تو پھر قبائلی رسموں اور غیرت کے نام پر ظلم کو کب تک برداشت کیا جائے گا ؟
اگر قانون میں غیرت کے نام پر قتل کے لیے سزائے موت موجود ہے تو پھر اسے عملی کیوں نہیں بنایا جاتا ؟
اگر عدالتیں انصاف دینے سے قاصر ہیں تو پھر ریاست حرکت میں کب آئے گی ؟
یہ سب وہ سوالات ہیں جن کے جواب اب صرف تحریروں میں نہیں بلکہ عملی اقدامات میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم غیرت کے غلط تصور کو دین، قانون اور اخلاق کے دائرے میں لا کر بے نقاب نہیں کریں گے تب تک بلوچستان ہو یا اندرون سندھ، پنجاب ہو یا خیبر پختونخوا، کاروکاری، ونی، سوارہ اور جاہلانہ قتل کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ عزت کا تحفظ قتل سے نہیں بلکہ تعلیم، انصاف اور شریعت پر عمل سے ممکن ہے ، میں یہ سمجھتا ہوں یہ وڈیرہ شاہی، پنچایت میں فیصلوں کا سسٹم دیہاتوں کے علاوہ شہروں کی گلیوں میں بھی موجود ہے۔ تعلیم یافتہ افراد خود پر ہونے والے ظلم کیلئے تھانے جانے سے خوفزدہ ہیں، ریاست پاکستان کو خاص کر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں امن حاصل کرنا ہو گا اور یہی وہ نازک موڑ ہے جہاں اس وقت ریاست آ کھڑی ہوئی ہے۔
بلوچستان میں جاری عرصہ دراز کی پراکسی وار اپنے پنجے گاڑھ چکی ہے، ریاست بلوچستان جیسی ایک اور صورتحال کی متحمل نہیں ہو سکتی اور ناں ہی امن کے بغیر دنیا سے کیے گئے اقتصادی معاہدوں پر عمل درآمد ہو سکتا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ بدامنی کے جس خدشے پر دہائیوں پہلے پاکستان کھڑا تھا وہ ایک بار پھر خوفناک حقیقت بن کر سامنے آ رہا ہے۔ ریاست کو عوامی رائے ہموار کرنے کے لیے وہاں منتخب حکومت، سیاسی جماعتوں اور قبائلی عمائد ین کے ساتھ مکالمہ ، بنیادی سہولتوں پر توجہ مذکور کرنی ہو گی۔ سیاسی جماعتوں کو سیاسی افراتفری اور بے بنیاد بیانیوں سے پرہیز کرنا ہو گا، نظام کو آئینی حدود میں رہنے دیں۔

جواب دیں

Back to top button