Column

خریدو گوشت ، ہم بیچتے ہیں

خریدو گوشت ، ہم بیچتے ہیں
شہر خواب۔۔۔۔
صفدر علی حیدری
اسلام آباد فوڈ اتھارٹی کا چھاپہ ؍25من گدھے کا گوشت برآمد، لاہور کے بعد اسلام آباد میں بھی گدھے کا گوشت برآمد۔ ترنول میں پچاس سے زائد گدھے اور بڑی مقدار میں گوشت برآمد کر لیا گیا۔ موقع پر موجود ایک غیر ملکی شہری کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا، گوشت کن کن ایریاز میں سپلائی کیا گیا، تفتیش جاری ہے۔
یہ خبر بریکنگ نیوز کا درجہ رکھتی ہے، بلکہ ہرٹ بریکنگ کا۔
کہ خبر ٹرینڈ کر رہی ہے اور ہمارے معاشرے کا المیہ دیکھئے کہ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے تشویش کی بجائے مذاق اڑائے جانے کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ لوگ اس سے ہنسی کے پہلو نکال رہے ہیں۔ پتہ چلا حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا، لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر۔
اس سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ ہمارا معاشرہ تباہی سے دوچار ہے۔ یہاں قانون کا احترام تو رہا ایک طرف، کسی اخلاقی قدر کی بھی کوئی قدر نہیں ۔
آگے بڑھنے سے پہلے ایک سوشل میڈیا صارف کا تبصرہ دیکھئے’’ کھوتے کا گوشت انسان میں ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانے کی طاقت پیدا کرتا ہے ‘‘ منجانب۔ مشہور بیف پلائو
اس سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ ہم اس واقعے سے کس حد تک متاثر ہوئے ہیں ؟ اور اس واقعے کی سنگینی نے ہم پر کتنا اثر کیا ہے ؟۔
بی بی سی نے سرخی جمائی ہے ’’ اسلام آباد میں 25من گدھے کا گوشت برآمد: اب لاہور اس اعزاز میں تنہا نہیں رہا ‘‘۔ پولیس اہلکار نے نامہ نگار کو بتایا کہ اس معاملے میں ایک چینی شخص کو گرفتار کیا گیا ہے، جس سے اس حوالے سے تفتیش جاری ہی کہ یہ گوشت کہاں فروخت ہوتا تھا۔ پولیس کے مطابق ان گدھوں کو پنجاب کے مختلف شہروں سے ایک فارم ہائوس میں لایا جاتا تھا اور ان کو کاٹ کر گوشت فروخت کیا جاتا تھا جبکہ کھالیں گوادر کے راستے چین سپلائی کر دی جاتی تھیں، جنہیں مبینہ طور پر کاسمیٹکس بنانے کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔
چین میں گدھوں کی کھال کا کاروبار خاصا منافع بخش سمجھا جاتا ہے، جہاں اسے مختلف قسم کی کریمیں بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔
مقامی پولیس کے مطابق گرفتار غیر ملکی کا نام زونگ وی ہے، جو حال ہی میں 90دن کے ویزے پر پاکستان پہنچا تھا۔تھانہ سنگجانی میں درج ایف آئی آر کے مطابق فوڈ اتھارٹی کے حکام کو مخبر سے اطلاع موصول ہوئی تھی کہ 26جولائی کی رات کو مذکورہ مقام پر گدھے کے گوشت کی فروخت کا کام کیا جا رہا ہے۔ جگہ کا معائنہ کرنے پر فوڈ اتھارٹی اور اسلام آباد پولیس نے 25من گدھے کا گوشت اور 45کے قریب زندہ گدھے برآمد کیے۔ مقدمے کے مطابق اس گوشت اور گدھوں کی ترسیل کا کوئی ریکارڈ یا سرکاری اجازت نامہ نہیں ملا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق اس مقام پر بظاہر چینی نما شخص موجود تھا، جس نے بتایا کہ یہاں پاکستانی ورکر کام کرتے ہیں، تاہم مجھے نہیں پتہ کہ گوشت کہاں جا رہا ہے اور یہ بھی بتایا کہ اس کا مالک چائنہ میں رہتا ہے۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ گدھے کے گوشت کی ترسیل کے حوالے سے تحقیقات جاری ہے جبکہ گوشت کی سپلائی میں ملوث مقامی افراد کا سراغ لگایا جا رہا ہے۔پولیس اہلکار کے مطابق گدھوں کو کاٹنے والی جگہ سے سیکڑوں کھالیں بھی برآمد ہوئی ہیں، جن کو ممکنہ طور پر گوادر لے جا کر بیرون ملک ایکسپورٹ کیا جاتا تھا۔ پولیس اہلکار کے مطابق وفاقی دارالحکومت کے علاوہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے مختلف علاقوں سے شہری یہاں گدھے فروخت کرنے آتے تھے۔
چند سال قبل پنجاب کے شہر لاہور میں گدھے کا گوشت ہوٹلوں میں فروخت ہونے کا معاملہ سامنے آیا تھا، جس کے بعد سے اہلیان لاہور کو سوشل میڈیا پر اکثر گوشت کے حوالے سے تنقید اور مذاق کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا۔ تاہم سنیچر کو اسلام آباد سے اس خبر کے سامنے آنے کے بعد سے ہی سوشل میڈیا صارفین میں اس حوالے سے شغل میلا لگا رہا۔چند ماہ قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خوراک و تحفظ کے اجلاس میں وزارت خوراک و تحفظ کے حکام نے بتایا تھا کہ گوادر میں گدھوں کا سلاٹر ہائوس بنایا گیا ہے اور اس سے پیداوار بھی شروع ہو گئی ہے۔ حکام وزارت خوراک نے اجلاس کو مزید آگاہ کیا تھا کہ چین کے ساتھ گدھے کی کھال اور ہڈیوں سے متعلق معاہدہ ہوا ہے، جس کے لیے گودار میں چینی کمپنی کام کرے گی۔
پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کی رواں سال شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گدھوں کی تعداد میں گزشتہ سال کی دوران اضافہ ہوا، جس کے بعد ان کی تعداد 5.938ملین سے بڑھ کر 6.047ملین (60لاکھ سے زیادہ) ہو گئی ہے۔ 2017ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی وزارت کامرس نے سال کی ابتدا میں انکشاف کیا تھا کہ گزشتہ چار سال کے دوران تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے قریب گدھوں کی کھالیں مختلف ممالک کو برآمد کی گئیں، جس سے کروڑوں روپے کا زرمبادلہ حاصل کیا گیا۔ اپریل میں وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہا تھا کہ گوادر میں فارمز کے قیام کے ذریعے چین کو گدھے کے گوشت کی تجارت کی جائے گی، جس سے پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہوگا۔
چین میں گدھے کی کھال میں موجود ’’ جیلیٹن‘‘ سے بننے والی ایک دوا کی بہت مانگ ہے۔ اس دوا کو چین میں ’ ایجیائو‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس دوا میں صحت کی بہتری، خوبصورتی اور جوانی کو’ محفوظ‘ رکھنے والی خصوصیات ہیں۔’ جیلیٹن‘ کی تیاری کے لیے گدھے کی کھال کو اُبال کر پاڈر، گولیاں یا مائع شکل میں دوائی بنائی جاتی ہے۔
گدھوں کے کھالوں کے اِس متنازعہ کاروبار کے خلاف مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ گدھے اس دوا کے بڑھتی مقبولیت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ گدھے کی کھالوں کی اس تجارت کے خلاف سنہ 2017ء سے سرگرم عمل برطانیہ کی ایک فلاحی تنظیم ’ دی ڈنکی سینکچوری‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اندازاً عالمی سطح پر ہر سال کم از کم 59لاکھ گدھوں کو کھال کے حصول کے لیے مارا جا رہا ہے۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ ان گدھوں کی طلب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بی بی سی ان اعداد و شمار کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
چین میں اس دوا سے منسلک انڈسٹری کو سپلائی کرنے کے لیے کتنے گدھے مارے جاتے ہیں اس کی تفصیلات حاصل کرنا خاصا مشکل ہے۔
باوثوق ذرائع کے مطابق ترنول کے قریب جتنے بھی بڑے اور مشہور ترین کھانے پینے والے ہوٹل موجود ہیں ان سب پر کئی سال سے بڑے گوشت کی نام پر گدھے کا گوشت کھلایا جارہا تھا۔ سامنے آئیں وہ مجاہدین جو یہاں باقاعدہ طور پر شینواری کھاتے ہیں یا بیف پلائو اور نہاری، بونگ پائے کھاتے ہیں وہ چیک کریں کہ کیا کھا رہے تھے۔ نجی ٹی وی کے مطابق ایک شادی ہال میں گدھے اور گوشت ملا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ہال میں 11گدھے لائے گئے تھے لیکن ان میں سے چار اب غائب ہوچکے ہیں۔ بچوں نے گدھوں کے سر دیکھے، جس پر پولیس کو اطلاع دی گئی تاہم پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہی گدھوں کی مبینہ باقیات کو غائب کر دیا گیا۔ دوسری جانب شادی ہال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہال میں مختلف تقریبات کیلئے گائے کا گوشت کاٹا جا رہا تھا، ہال خالی ہونے پر لوگوں نے اپنے گدھے ہال میں باندھ دئیے تھے ۔
ایک اسلامی ملک کی صورت پر دل دکھی ہے کہ ہم لوگ کس سمت جا رہے ہیں۔ پہلے بیمار جانوروں کے گوشت کی اطلاعات ملا کرتی تھیں۔ پھر پریشر لگے گوشت کا دور آیا۔ اس کے بعد مرے ہوئے جانوروں کا گوشت بیچے جانے کی ’’ خوش خبری‘‘ سنائی دی ۔ اس کے بعد کتے اور اب گدھوں کی خبریں مل رہی ہیں۔
افسوس کام مقام ہے کہ دھڑلے اور تواتر سے یہ مکروہ کام جاری ہے، مگر ریاستی اداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ۔ ہم تو خیر چھوٹے شہروں کے لوگ ہیں۔ ہمارے ہاں تو اب اپنی آنکھوں کے سامنے گوشت ذبح کرانے کا چلن عام ہو گیا ہے۔ لوگ پوری تسلی سے جانور ذبح ہوتا دیکھتے ہیں تب خریدتے ہیں۔ باقی بڑے شہروں کے باسی ہوٹلوں سے دال سبزی ہی کھا لیا کریں۔ ویسے سیانے سچ کہہ گئے ہیں کہ ہوٹل کے چرغوں سے گھر کی دال روٹی بہتر ہے۔

جواب دیں

Back to top button