ColumnImtiaz Aasi

معاشی حالات اور حکومتی دعویٰ

معاشی حالات اور حکومتی دعویٰ
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
جیسا کہ عوام جانتے ہیں اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بے روز گاری اور مہنگائی ہے۔ حکومت کی طرف سے آئے روز مہنگائی میں کمی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے جب کہ حقیقی طور پر مہنگائی کا خاتمہ کرنے میں حکومت بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ ملک کی دو بڑی جماعتوں کے رہنمائوں نے عوام سے جھوٹ بول بول کر اپنی جماعتوں کو عوام کی حمایت سے محروم کر دیا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں عوام نے دیکھ لیا جو کچھ ہوا اسے دہرانے کی ضرورت نہیں مگر حقیقت یہ ہے یہ حکومت عوامی مینڈیت سے محروم ہے۔
میرے حکومت سے چند سوالات ہیں :
پہلا سوال یہ ہے اگر کرنٹ اکائونٹ سرپلس ہے تو پھر ڈالر کا ریٹ کیوں زیادہ ہے؟
دوسرا سوال حکومتی اخراجات زیادہ ہیں اور آمدن بہت کم ہے۔ کیا یہ غلط ہے؟
تیسرا سوال، کھانے پینے کی اشیاء بجلی اور گیس کے بلوں پر ٹیکس لگانے سے مہنگائی روز بروز زیادہ ہو رہی ہے۔ کیا یہ غلط ہے؟ مثال کے طور پر بجلی کا یونٹ چار روپے ہے تو عوام کو دس روپے دینے پڑتے ہیں۔
ایکسپورٹ نام کی کوئی چیز نہیں ہے تو ڈالر کہاں سے آئیں گے۔ ایک ٹیکسٹائل انڈسٹری تھی جس کی ایکسپورٹ سے ڈالر آتے تھے، بجلی مہنگی ہونے سے انڈسٹری بند پڑی ہے۔ کیا ملک کے معاشی حالات بہتر ہیں؟
اگلا سوال Balance of payment ، یعنی کتنے ڈالر ملک میں آئے اور کتنے ملک سے باہر گئے۔ اگر ڈالر باہر سے آتے ہیں تو پھر آئی ایم ایف کے پاس کیوں جانا پڑتا ہے؟۔ پٹرولنگ مصنوعات دنیا میں سستی ہیں اور ہمارے ہاں مہنگی ہیں۔ پٹرول اور کوکنگ آئل مہنگا ہے یہ مہنگائی نہیں تو اور کیا ہے۔ چینی کو دیکھ لیں پہلے چینی برآمد کی گئی اور اب درآمد کی جا رہی ہے کیونکہ شوگر ملز سیاست دانوں کی ہیں اور ڈالر حکومت کی بجائے انہوں نے ہی کمانا ہیں تو عوام سے کیوں جھوٹ بولتے ہیں۔ شوگر مافیا اس قدر اثر و رسوخ کا مالک ہے انہیں کوئی ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں بلکہ اس مافیا میں بڑے بڑے سیاست دان ملوث ہیں۔ ارے سیاست دانوں اس ملک اور عوام سے کیا کرنا چاہتے ہو۔ ستر برس ہوگئے لوٹ مار کا بازار ختم ہونے میں نہیں آرہا ہے۔ جن سیاست دانوں پر مبینہ کرپشن کے مقدمات ہوتے ہیں انہیں اقتدار سونپ دیا جاتا ہے جو اس ملک اور عوام سے بہت بڑی زیادتی ہے۔ ملک کی آبادی پر آپ کا کنٹرول نہیں ہمارا ملک صرف پانچ کروڑ افراد کا متحمل ہو سکتا ہے لیکن آبادی 25کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ عجیب تماشا ہے ایک طرف حکومت مالی حالات کا رونا روتی ہے، دوسری طرف پارلیمنٹ میں بیٹھنے والوں کے مشاہروں میں لاکھوں کا اضافہ ملک اور عوام سے مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔ نگران حکومت کے دور میں کئی کئی وزارتیں ایک وزیر کے پاس ہوتی ہیں لیکن انتخابات کے بعد جو پارٹی اقتدار میں لائی جاتی ہے وہ وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج بھرتی کر لیتی ہے۔ سمگلنگ پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں، افغانستان اور ایران سے کیا کچھ سمگل ہو کر نہیں آرہا ہے، کوئی ہے جو بات کرے۔ سیاست دانوں کو اقتدار میں آنے کے بعد عوام کو بیوقوف بنانے کا اچھا طریقہ ہے وہ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر عوام کو سہانے خواب دکھاتے نہیں تھکتے مگر عملی طور پر کچھ نہیں ہو رہا ہوتا ہے۔ اگر حکومت صرف اشیاء خوردونوش کی قیمتوں پر کنٹرول کر لے تو اس کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ چینی مہنگی فروخت کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ چند روز تک جاری رہے گی جس کے بعد خاموشی اختیار کر لیں گے۔ جس ملک میں قانون پر عمل داری کا فقدان ہو ایسے ملک کیا ترقی کر سکتے ہیں۔ شہروں میں چوری اور ڈکیتوں کی وارداتوں میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے پولیس ایک نمونے کے طور پر تھانوں میں ہے۔ اب تو دن دھاڑے چوری کی وارداتیں ہورہی ہے ورنہ پرانے وقتوں میں چور رات کی تاریکی میں وارداتیں کرتے تھے جو اس امر کا غماز ہے انہیں پولیس کو کوئی خوف نہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو حکومت کے اعلانات صرف اخبارات اور ٹی وی چینلز تک محدود ہیں۔ ملک میں حالات اس ڈگر پر پہنچ چکے ہیں سیاسی جماعتوں کو پرامن احتجاج کی اجازت نہیں ہے۔ جماعت اسلامی بلوچستان نے حق دو تحریک کا اعلان کیا تو ان کارواں کو راستے میں روک لیا گیا۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں سیاسی رہنمائوں کو بات کرنے کی آزادی نہیں ہے۔ دراصل موجودہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں عوامی حمایت سے محروم ہو چکی ہیں۔ مسلم لیگ نون جو پنجاب کو گڑھ سمجھتی تھی اپنے صوبے میں عوام کی حمایت سے محروم ہے۔ سوال ہے موجودہ حکومت نے عوام کو کیا ریلیف دیا ہے مہنگائی کیا ختم ہو گئی ہے کیا لوگوں کے لئے روزگار کے دروازے کھلے ہیں۔ بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے بے روزگاری نے حالات اس نہج تک پہنچائے ہیں اگر وہاں کی نوجوان نسل کو روزگار مہیا کیا جاتا تو بے راہ روی کا شکار نہ ہوتے۔ حکومت سے جو ہم نے چند سوال کئے ہیں کوئی حکومتی ترجمان میرے سوالات کا جواب دے گا؟، اس ملک و قوم کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی تاجر برادری ٹیکس دینے کو تیار نہیں۔ حکومت ٹیکس مانگے تو وہ ہڑتال کر دیتے ہیں جس کے بعد حکومت اپنے فیصلوں کو واپس لینے پر مجبور ہو جاتی ہے اس سے زیادہ حکومت کی کمزوری اور کیا ہوگی جو اپنے احکامات پر عمل درآمد کرنے سے عاری ہو۔ اخبار میں آیا ہے حکومت شوگر مافیا کے خلاف سخت اقدامات کر رہی ہے، ان کے بیرون ملک پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ دیکھتے ہیں حکومت اپنے اس فیصلے پر قائم رہتی ہے۔ یہاں تو باوا آدم نرالا ہے حکومت کوئی آرڈر جاری کرتی ہے دوسرے روز واپس لے لیتی ہے۔ پی ٹی آئی دور سے موجودہ دور کا موازنہ کیا جائے تو مہنگائی کئی گنا کم تھی، لیکن موجودہ حکومت تاجر برادری کی ناراضی مول نہیں لینا چاہ رہی ہے کیونکہ حکمرانوں کا تعلق کاروباری طبقے سے ہے، جس ملک پر کاروباری طبقہ حکمران ہو ایسے ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتے، لہذا جو حکومت اپنے اخراجات کم کرنے میں ناکام رہے ایسی حکومت سے عوام کے لئے خوشحالی لانا خواب ہے۔

جواب دیں

Back to top button