غزہ: انسانیت پر بھوک کا وار

غزہ: انسانیت پر بھوک کا وار
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
غزہ کی سرزمین پر کوئی قدرتی آفت نہیں، نہ ہی کوئی غیر متوقع سانحہ، بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اسرائیل، غزہ کے عوام کے خلاف بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ غزہ میں بھوک اور غذائی قلت نے ایک ایسی صورتحال کو جنم دیا ہے جو نہ صرف انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے بلکہ بین الاقوامی قانون کے تحت جنگی جرم اور ممکنہ طور پر نسل کشی کے زمرے میں آتی ہے۔ غزہ کی صورتحال اس وقت ایک عالمی سانحہ بن چکی ہے۔ 2مارچ 2025ء سے اسرائیل نے غزہ پر مکمل ناکہ بندی عائد کی، جس نے خوراک، ایندھن، ادویات، بجلی اور پانی سمیت تمام بنیادی ضروریات کی ترسیل کو روک دیا۔ یہ ناکہ بندی تاریخ کی سب سے مکمل اور ظالمانہ بندش ہے، جس نے غزہ کے دو ملین سے زائد باشندوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم کر دیا۔ جولائی 2025ء تک، روزانہ صرف 100سے کم ٹرک امدادی سامان غزہ میں داخل ہو رہے ہیں، جبکہ انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کم از کم 500ٹرک روزانہ کی ضرورت ہے۔ امدادی تقسیم کے مراکز مکمل طور پر اسرائیلی سیکیورٹی کنٹرول کے ماتحت ہیں، جو امداد کی منصفانہ تقسیم کو ناممکن بناتا ہے۔ اب تو امدادی قافلوں و مراکز پر اسرائیل کی جانب سے حملے اور امدادی عملے کو یرغمال بنانے کی خبریں دنیا بھر میں خاموشی سے دیکھی جا رہی ہیں۔
غزہ میں بھوک کا بحران محض ایک نتیجہ نہیں، بلکہ ایک دانستہ پالیسی کا حصہ ہے۔ جولائی 2025ء تک، کم از کم 113 افراد بھوک سے جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں 81بچے شامل ہیں۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق، صرف 23 جولائی کو 24گھنٹے کے دوران دس افراد بھوک کی جہ سے لقمہ اجل بنے، اور پانچ دنوں میں یہ تعداد 43 تک جا پہنچی۔ اس کے علاوہ، امداد حاصل کرنے کی کوشش میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی قیمتی جانیں گنوا بیٹھے، جن میں اقوام متحدہ کے قافلے کے کھانے کی سائٹ پر 79افراد کو ٹارگٹ کیا گیا اور GHFسائٹس کے قریب گولیوں سے ہلاکتیں شامل ہیں۔ غذائی قلت کے اعداد و شمار دل دہلا دینے والے ہیں۔ 28000سے زائد افراد غذائی قلت کا شکار ہیں، جن میں جولائی میں 5000سے زائد نئے کیس رپورٹ ہوئے۔ عالمی ادارہ صحت نے تصدیق کی کہ 2025ء میں پانچ سال سے کم عمر کے 21بچے غذائی قلت سے جاں بحق ہو چکے ہیں، جبکہ یونیسف نے اپریل سے مئی 2025ء تک 65000بچوں کو شدید غذائی قلت کا شکار قرار دیا، جن میں سے 2700پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔ غزہ میں مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 59000سے تجاوز کر گئی ہے، جن میں 50فیصد خواتین اور بچے ہیں اور آزاد محققین کا تخمینہ ہے کہ بھوک سے 62413ہلاکتیں ہوئی ہیں، جن میں زیادہ تر بچے شامل ہیں۔
اسرائیل کی مذموم پالیسیوں کے پیچھے ایک واضح اور خوفناک مقصد کارفرما ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں، بشمول اقوام متحدہ، یورپی یونین، ہیومن رائٹس واچ، آکسفیم، اور ایمنسٹی انٹرنیشنل، نے اسرائیل کی ناکہ بندی کو جنگی طریقہ کے طور پر بھوک کے استعمال کے طور پر قرار دے چکے ہیں، جو بین الاقوامی قانون کے تحت جنگی جرم ہے۔ گزشتہ 75سالوں کا یہ بدترین انسان ساختہ قحط ہے، جو اسرائیل کی اعلان کردہ پالیسی کا براہ راست نتیجہ ہے۔ یہ کوئی اتفاقی نتیجہ نہیں، بلکہ ایک منظم منصوبہ ہے جو غزہ کی شہری آبادی کو کمزور کرنے اور حماس کی حمایت کو توڑنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اسرائیل کے مقاصد میں اجتماعی سزا شامل ہے، جس کا مقصد فلسطینی آبادی کو حماس کی مبینہ حمایت کی سزا دینا، ناقابل برداشت حالات پیدا کرکے مزاحمت کو کمزور کرنا، اور نقل مکانی کو مجبور کرکے غزہ میں فلسطینی موجودگی کو کم کرنا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جولائی 2025ء کی رپورٹ نے اسے نسل کشی کے طور پر پیش کیا، جس میں شواہد منکشف ہیں کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر ایسی شرائط مسلط کیں جو شہری آبادی کی جسمانی تباہی کا باعث بنیں۔ سابق آئی سی سی پراسیکیوٹر لوئس مورینو اوکامپو نے بھی اسے نسل کشی کے مترادف قرار دیا، جو اس پالیسی کے مقاصد کو عیاں کرتا ہے۔ روم سٹیٹوٹ اور جنیوا کنونشنز بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی ممانعت کرتے ہیں، لیکن اسرائیل کی طرف سے ان قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی جاری ہے۔
عالمی برادری کا کردار اس بحران میں شرمناک رہا ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کی ایجنسیوں نے بارہا انتباہات جاری کیے ہیں، لیکن ان کی آواز عملی اقدامات میں تبدیل نہیں ہوئی۔ غزہ کے حالات ”قیامت خیز اور انسانی امدادی نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے میکانزم، جیسے کہ آئی سی جے اور آئی سی سی، نے فیصلے اور گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں، جن میں نومبر 2024ء میں اسرائیلی رہنماں کے لیے آئی سی سی وارنٹ شامل ہے، لیکن اسرائیل اور اس کے اتحادیوں، خاص طور پر امریکہ اور یورپی یونین، نے ان کے نفاذ کو روک دیا یا مسترد کر دیا۔ مغربی حکومتیں زبانی مذمت تو کرتی ہیں، لیکن عملی اقدامات، جیسے کہ پابندیاں عائد کرنا یا اسلحہ کی فروخت معطل کرنا، سے گریز کرتی ہیں۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو ویٹو کیا، جو جنگ بندی کا مطالبہ کرتی تھیں، جسے جنگی جرائم میں شرکت کا خطرہ قرار دیا گیا۔ یہ دوہرا معیار عالمی سیاست کی تلخ حقیقت کو عیاں کرتا ہے۔ جہاں یوکرین کے خلاف روس کے اقدامات پر مغرب نے فوری اور سخت ردعمل دیا، وہیں غزہ کے معاملے میں خاموشی اور بے عملی حاوی ہے۔ اس کی وجہ جغرافیائی سیاسی مفادات ہیں، جن میں اسرائیل کے ساتھ اسٹریٹجک فوجی اتحاد، اقتصادی تعلقات، اور مشرق وسطیٰ میں اثر و رسوخ شامل ہیں۔ عالمی جنوب کے ممالک، جیسے کہ برازیل اور چین، نے اس دوہرے معیار کی نشاندہی کی ہے، لیکن ان کی آواز کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی نے اسرائیل کے جنگی طریقوں کو نسل کشی کے مطابق قرار دیا، لیکن اس کے باوجود عالمی طاقتیں اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹ رہی ہیں۔
غزہ کا مستقبل تاریک دکھائی دیتا ہے۔ اسرائیل کی حالیہ پیش رفت، جیسے کہ تکنیکی وقفے اور ایئر ڈراپس، محض علامتی ہیں اور زمینی رسائی کے بغیر یہ بحران کو حل نہیں کر سکتے۔ اگر موجودہ صورتحال جاری رہی تو بھوک اور غذائی قلت سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ناگزیر ہے۔ غزہ کے ایک ملین بچوں کی زندگیاں دائو پر لگی ہیں، اور ہر گزرتا دن ان کے لیے موت کا پیغام لے کر آتا ہے۔





