Column

دہشتگرد منطقی انجام کو جلد پہنچیں گے

دہشتگرد منطقی انجام کو جلد پہنچیں گے
پاکستان ڈیڑھ عشرے تک بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا۔ دہشت گرد ملک کے طول و عرض میں بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلتے رہے۔ کوئی علاقہ دہشت گردوں کے حملوں سے محفوظ نہ تھا۔ عبادت گاہوں تک میں تخریبی کارروائیاں کرکے بے گناہ شہریوں کو زندگی سے محروم کردیا جاتا تھا۔ ملک کے کسی نہ کسی حصّے میں دہشت گرد حملے کرکے درجنوں لوگوں کو موت کی آغوش میں پہنچاڈالتے تھے۔ عوام میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔ صبح کو گھر سے نکلنے والوں کو یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ شام کو زندہ سلامت گھر لوٹ بھی سکیں گے یا نہیں۔ پندرہ برسوں کے دوران دہشت گردوں نے ہزاروں افراد سے حقِ زیست چھینا۔ ملکی معیشت کے لیے یہ امر زہر قاتل ثابت ہوا۔ معیشت کو مسلسل جاری رہنے والی دہشت گردی سے بے پناہ زک پہنچی۔ سرمایہ کار اپنا سرمایہ سمیٹ کر دوسرے ملکوں کا رُخ کرنے لگے۔ سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور رونما ہوا، جس میں سفّاکوں نے انتہائی بے دردی کے ساتھ 150بچوں اور اساتذہ کو شہید کرڈالا۔ اس سانحے کے بعد دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کے تحت پہلے آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا اور پھر ردُالفساد۔ ان آپریشنز کے اتنے زیادہ مثبت نتائج برآمد ہوئے کہ بہت ہی کم عرصے میں پورے ملک سے دہشت گردوں کا لگ بھگ صفایا کر دیا گیا۔ مار دئیے گئے یا گرفتار کر لیے گئے۔ بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔ ان کی کمین گاہوں کو برباد کر ڈالا گیا۔ ان کی کمر توڑ کے رکھ دی گئی۔ ایسے میں جو دہشت گرد بچے، اُنہوں نے یہاں سے فرار میں ہی اپنی بہتری سمجھی۔ امن و امان کی صورت حال بہتر ہوگی۔ دہشت گردی کے خوف میں مبتلا عوام نے سکون کا سانس لیا۔ 7؍8سال تک حالات بہتر رہے، لیکن جب سے امریکا کا افغانستان سے انخلا ہوا ہے، تب سے دہشت گرد اپنے پھن پھیلانے کی کوششوں میں ہیں۔ ابتدا میں سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے رہے۔ اُن کے قافلوں، چیک پوسٹوں پر حملے کرتے رہے۔ اہم تنصیبات پر دھاوے بولتے رہے۔ دراندازی کی کوششیں کرتے رہے۔ ہر بار ہماری بہادر سیکیورٹی فورسز نے ان کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا۔ اب فتنہ الہندوستان، فتنہ الخوارج اور تمام فتنے ملک میں دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کے مذموم منصوبے پر لگے ہوئے ہیں، لیکن یہ اس میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے کہ پاکستان کو دُنیا کی بہترین افواج کا ساتھ میسر ہے، جن کا ہر افسر اور سپاہی ملک و قوم کی حفاظت کے لیے ہر وقت چوکس و تیار رہتا ہے۔ سیکیورٹی فورسز تمام دہشت گرد فتنوں کے خاتمے کے لیے مصروفِ عمل ہیں اور بڑی کامیابیاں سمیٹ رہی ہیں۔ جلد ان پر مکمل قابو پانے میں سرخرو رہیں گی۔ دہشت گرد بے گناہ انسانوں کی جانیں لینے سے نہیں چُوکتے۔ گزشتہ روز فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں نے پُرامن مظاہرین کو حملہ کرکے اُن کی زندگیوں سے محروم کردیا، جس کی وزیراعظم شہباز شریف نے پُرزور مذمت کرنے کے ساتھ دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے خیبرپختونخوا کے علاقے وادی تیراہ میں پُرامن مظاہرین اور بے گناہ شہریوں کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم ہائوس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم نے وادی تیراہ کے علاقے باغ میدان میں خوارج کی فائرنگ سے بے گناہ، معصوم اور پُرامن شہریوں کی شہادت پر اظہار افسوس کیا۔ وزیراعظم نے زخمیوں کو فوری طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایات دیں جب کہ پُرامن شہریوں کو خوارج کی جانب سے نشانہ بنانے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ دہشت گردوں کے مکروہ عزائم ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کرسکتے، دہشت گردوں اور دہشت گردی کو منطقی انجام تک پہنچاکر دم لیں گے۔ واضح رہے کہ وادی تیراہ میں احتجاجی مظاہرے کے دوران فائرنگ کے نتیجے میں پانچ افراد کے جاں بحق اور 17سے زائد کی زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں، جس کی کے پی حکومت کی جانب سے تاحال تصدیق نہیں کی گئی۔ دوسری جانب آئی جی خیبر پختونخوا نارتھ نے ایف سی اسپتال میں وادیِ تیراہ میں خوارج کی فائرنگ سے زخمی ہونے والوں کی عیادت کی اور اُن کی جلد صحت یابی کیلئے دعا کی۔ میجر جنرل رائو عمران سرتاج نے فرنٹیئر کور ٹیچنگ اسپتال میں وادی تیراہ کے زخمیوں کی عیادت کی۔ زخمیوں نے آئی جی ایف سی نارتھ کو خوارج کی فائرنگ کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا اور علاج پر اطمینان کا اظہار کیا۔ واقعے کے زخمیوں نے خوارج سے اپنے علاقے کو پاک کرنے اور فوج کے شانہ بشانہ خوارج کے خلاف لڑنے کے عزم کو دہرایا جب کہ پاک فوج اور ایف سی نارتھ کا مفت علاج معالجہ فراہم کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ پاکستان اپنے تمام دشمنوں کو منطقی انجام تک پہنچائے گا۔ تمام فتنوں کا ملک سے جلد صفایا ہوگا۔ کوئی دہشت گرد نہیں بچے گا۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ان کا مکمل قلع قمع کرنے میں کامیاب رہیں گی۔ اس حوالے سے کامیاب کارروائیاں جاری ہیں، جن میں بہت سارے دہشت گردوں کو مارا اور گرفتار کیا جاچکا ہے۔ بہت سارے علاقے ان کے ناپاک وجود سے کلیئر کرواکے وہاں امن و امان کی صورت حال بہتر بنائی جاچکی ہے۔ سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہیں۔ اُنہیں قوم کی مکمل حمایت و تائید حاصل ہے۔ جلد ملک تمام فتنوں سی پاک ہوگا اور تیزی سے ترقی اور خوش حالی کی منازل طے کرے گا۔
چینی سستی نہ ہوسکی
چینی کی قیمتوں میں من مانے اضافے کے سلسلے کو دراز کرکے عوام کی جیبوں پر پچھلے 7؍8ماہ سے بُری طرح نقب لگائی جارہی ہے۔ اس دوران چینی مافیا غریبوں سے اربوں روپے ناجائز کما چکا ہے۔ چینی مافیا ازخود دام بڑھاتا رہا، اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ تھا۔ رمضان المبارک سے پہلے سے چینی کے نرخوں میں جو اضافہ شروع ہوا، وہ اَب تک رُکنے میں نہیں آسکا ہے۔ پچھلے دنوں چینی کے دام 200روپے فی کلو پہنچے تو تب جاکر حکومت کی جانب سے اقدامات کیے گئے اور چینی کی فی کلو ایکس مل قیمت 165روپے مقرر ہوئی، لیکن اس بات کو اتنے دن گزر جانے کے باوجود اب تک چینی کے دام نیچے نہیں آسکے ہیں۔ پورے ملک میں چینی 200روپے فی کلو کے لگ بھگ فروخت ہورہی ہے۔ شوگر مافیا اتنا طاقتور ہے کہ باوجود کوششوں کے اس کا توڑ نہیں ہو پا رہا۔ اب بھی عوام کی جیبوں پر پورے ملک میں چینی کی زائد قیمتیں وصول کرکے ڈاکے ڈالے جارہے ہیں۔ چینی کی قیمتیں کم نہیں ہوسکی ہیں، یہ سستی نہیں ہوسکی ہے۔ ہول سیل مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں 8روپے کمی کے باوجود کراچی میں چینی سستی نہ ہوسکی، قیمت 190روپے کلو پر برقرار ہے۔ گلی محلوں میں چینی 200کلو فروخت ہورہی ہے۔ کراچی کی ہول سیل مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں 8روپے کمی کے باوجود شہر کے عام بازاروں اور گلی محلوں میں چینی کی قیمتوں میں کوئی نمایاں کمی نہیں آئی۔ شہر بھر میں چینی اب بھی 190روپے فی کلو کے لگ بھگ فروخت ہورہی ہے جب کہ گلی محلوں کی دُکانوں پر اس کی قیمت 200روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے۔ حکومت اور پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے درمیان معاہدے کے تحت چینی کی ایکس مل قیمت کو مرحلہ وار کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 15جولائی سے یہ قیمت 165روپے فی کلو مقرر کی گئی تھی، جو 15اگست کو 167، 15ستمبر کو 169اور 15اکتوبر سے 171روپے فی کلو ہوجائے گی۔ تاہم، ریٹیلرز نے قیمت میں کمی کے باوجود اپنی قیمتیں کم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پہلے مہنگا مال خرید چکے اور اسے کم قیمت پر بیچنا ممکن نہیں۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر بھی ہے۔ اُن اسباب کا تدارک کرنے کی ضرورت ہے، جس کی وجہ سے چینی کے دام اتنے زیادہ ہوگئے۔ اس کے ذمے داران کا تعین کرکے اُنہیں عبرت کا نشان بنانے کی ضرورت ہے۔ انہیں کسی طور بخشا نہ جائے اور ایسے اقدامات کیے جائیں کہ آئندہ کوئی چینی کا مصنوعی بحران پیدا کرکے اس کے دام اس قدر بلند ترین سطح پر نہ پہنچا سکے۔

جواب دیں

Back to top button