بچوں کا استحصال
بچوں کا استحصال
تحریر : صفدر علی حیدری
دنیا کے ایک ارب بچوں کو تشدد اور استحصال کا سامنا ہے۔ یو این رپورٹ کہتی ہے بچوں کو تشدد سے لاحق خطرات ایک عالمگیر مسئلہ ہے جو جغرافیائی، سماجی اور معاشی حدود سے ماورا ہے۔ بچوں کے خلاف تشدد کے مسئلے پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی نمائندہ خصوصی نجات مالا مجید نے کہا ہے کہ دنیا میں ایک ارب بچے کئی طرح کے تشدد، استحصال اور بدسلوکی کا سامنا کر رہے ہیں۔
اس مسئلے پر جاری کردہ ایک رپورٹ میں انہوں نے بتایا ہے کہ بچوں کے خلاف تشدد بڑھتا جا رہا ہے اور یہ اس وقت دنیا کو درپیش ایک بڑا مسئلہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق، بہت سے بچوں کو ’’ کثیرالجہتی غربت ‘‘ کے باعث تشدد کا خطرہ رہتا ہے۔ دنیا میں بچوں کی نصف تعداد ( تقریباً ایک ارب) کو موسمیاتی بحران سے متاثر ہونے کے شدید خطرات لاحق ہیں ۔ ہر چھ میں سے ایک بچہ یا نوعمر فرد جنگ زندہ علاقوں میں رہتا ہے۔ بچوں کے خلاف تشدد جس سطح پر پہنچ چکا ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی جبکہ کثیرالجہتی اور باہم مربوط بحران اس کی بڑی وجہ ہیں۔
لاکھوں بچے آن لائن اور آف لائن جسمانی، جنسی اور نفسیاتی تشدد کا سامنا کرتے ہیں۔ بچہ مزدوری، نوعمری کی شادی، لڑکیوں کے جنسی اعضا کی قطع و برید، صنفی بنیاد پر تشدد، انسانی سمگلنگ، غنڈہ گردی، سائبر غنڈہ گردی اور دیگر مسائل بھی اس تشدد کا حصہ ہیں۔
نجات مالا کا کہنا ہے کہ بچوں کو تشدد سے لاحق خطرات ایک عالم گیر مسئلہ ہے جو جغرافیائی اور سماجی۔ معاشی حدود سے ماورا ہے ۔ اس وقت کوئی بھی ملک اور کوئی بھی بچہ اس سے محفوط نہیں ۔ تمام ممالک میں بچے مختلف حالات میں کئی طرح کے تشدد کا سامنا کر رہے ہیں۔11 اکتوبر کو بچیوں کے عالمی دن سے قبل اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ( یونیسف) کی جاری کردہ معلومات کے مطابق، آج دنیا میں 37کروڑ سے زیادہ لڑکیاں اور خواتین ایسی ہیں جو 18سال کی عمر سے پہلے جنسی زیادتی کا نشانہ بن چکی ہیں یا انہیں ایسے حملے کا سامنا رہا ہے ۔ اگر آن لائن یا زبانی بدسلوکی کو بھی اس میں شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد 65کروڑ تک پہنچ جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 400ملین بچوں کو گھروں میں تواتر سے نفسیاتی جارحیت اور جسمانی سزا جھیلنا پڑتی ہے۔ نجات مالا نے بچوں کے آن لائن استحصال پر خاص تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ بہت بڑا ہے۔ بچوں میں آن لائن ربط بڑھنے کے ساتھ ان سے آن لائن بدسلوکی کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ سائبر غنڈہ گردی بھی ایک اہم مسئلہ ہے اور دنیا بھر میں 15فیصد بچے اس کا شکار ہو چکے ہیں۔نمائندہ خصوصی نے بتایا کہ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور اسے حل کرنا آسان نہیں کیونکہ اس مقصد کے لیے تین کرداروں یعنی متاثرین، بدسلوکی کرنے والوں اور یہ سب کچھ دیکھنے والوں پر کام کرنا پڑتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں 160ملین بچے مزدوری کر رہے ہیں اور یہ بھی ان کے خلاف تشدد کی ایک قسم ہے۔ بچوں کو کام کرنے کے بجائے سکول میں ہونا چاہیے۔ نجات مالا نے کئی طرح کے تشدد کی باہم مربوط نوعیت کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے مزدوری کرنے والے بہت سے بچے انسانی سمگلنگ اور جنسی استحصال کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔
رپورٹ میں بچوں کے خلاف تشدد کے سنگین نتائج کی بابت خبردار بھی کیا گیا ہے۔ اس سے ان کی ذہنی صحت پر طویل مدتی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بچوں میں خودکشی، ذہنی اختلال، کھانے پینے کی عادات میں بگاڑ، منشیات کی لت، مایوسی اور بعد از صدمہ ذہنی دبائو ( پی ٹی ایس ڈی) میں اضافے سے اس کی بخوبی عکاسی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں بچوں پر تشدد سے ان کی تعلیم، کارکردگی اور سیکھنے کی صلاحیت کا نقصان بھی ہوتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں بچوں کے خلاف ان کی نسل، زبان اور مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک بڑھتا جا رہا ہے، اگر ہم اپنے ملک کی صورتحال پر غور کریں تو ہمارے یہاں بھی حالات کچھ مختلف نہیں ۔ یہاں بھی آئے روز بچوں کے جسمانی و جنسی استحصال کی خبریں اخبارات ٹی وی اور سوشل میڈیا پر تواتر سے آتی رہتی ہیں ۔ چند دنوں کے لیے شور اٹھتا اور پھر ۔۔
راوی لکھنے لگتا ہے چین چین
بطور مثال ایک خبر دیکھیے ’’ خیبر پختونخوا کے شہر سوات میں واقع ایک دینی مدرسے کے اساتذہ کی جانب سے کیے گئے مبینہ تشدد سے 12سالہ بچے کی ہلاکت کے بعد مقامی انتظامیہ نے مدرسہ سیل کر کے وہاں زیر تعلیم 160طلبا کو اُن کے والدین کے حوالے کر دیا ہے‘‘۔ ایسی خبریں آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں مگر ریاست کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔
اقوام عالم سے یہ خبر سامنے آئی ہے کہ’’ 100سے زیادہ ممالک نے بچوں کو ہر طرح کے تشدد، استحصال اور بدسلوکی سے تحفظ فراہم کرنے اور انہیں جسمانی سزائیں دینے پر پابندی کا عزم کیا ہے ‘‘۔
کولمبیا کے دارالحکومت بوگوٹا میں بچوں پر تشدد کے خاتمے سے متعلق پہلی بین الاقوامی وزارتی کانفرنس میں مندوبین نے ایک عالم گیر معاہدے پر اتفاق کیا ہے، جس کا مقصد دنیا بھر میں کسی نہ کسی طرح کے تشدد کا سامنا کرنے والے ایک ارب بچوں کو تحفظ دینا ہے۔
سوال میرا اپنے ریاستی اداروں سے ہے کہ بچوں پر تشدد آخر کب تک۔ کبھی ان کا جسمانی استحصال کیا جاتا ہے کبھی نفسیاتی اور کبھی روحانی۔ ریاست کہاں ہے ؟ ، اور ریاستی ادارے کہاں ؟۔
زینب کا کیس اب تک کا نمایاں واقعہ ہے، جس نے پاکستان بھر کو ہلا کے رکھ دیا تھا۔ لیکن ریاست نے کیا کیا ؟ حکومت کو رویہ تو پوری دنیا نے دیکھا کہ شہباز شریف نے زینب کے والد سے مائیک لے لیا تھا کہ کہیں اس کے منہ سے حکومت کے خلاف کوئی بات نہ نکل جائے۔
یہ ہمارے حکمران اتنا ڈرتے کیوں ہیں ؟ حقیقت کا سامنا کیوں نہیں کرتے۔ اپنی غلطی تسلیم کیوں نہیں کرتے۔
مانتے ہیں کہ حکومت کے کرنے کے بہت سے کام۔ یہ لوگ ویلے نہیں بیٹھے۔ ان کو ہر بات پر نظر رکھنا پڑتی ہے۔ جبھی تو اپنے ’’ اور کاموں ‘‘ کی وجہ سے وہ کام کر ہی نہیں پاتے جو ان کے کرنے کے ہوتے ہیں۔
کسی نے کہا تھا ہم ہر کام آدھا ادھورا کرتے ہیں۔ ہم نے قائد اعظمؒ کے مشہور و معروف قول پر بھی پورا عمل نہیں کیا وہ کہتے تھے کام کام اور کام۔
ہم کام کام چھوڑ کے ’’ اور کام ‘‘ کرنے میں لگے ہیں۔







