پنجاب کی بیٹی یا سیاسی وارث

پنجاب کی بیٹی یا سیاسی وارث
تحریر : عابد ایوب اعوان
پاکستان کی سیاسی تاریخ ایک اور اہم موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ مسلم لیگ ( ن) کی رہنما اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف کو پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ کے طور پر منتخب کیا گیا۔ پنجاب، جو پاکستان کی سب سے بڑی آبادی والا اور سب سے زیادہ سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والا صوبہ ہے، اس کی وزارتِ اعلیٰ کا منصب ہمیشہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔ مریم نواز کی تقرری جہاں خواتین کی سیاسی قیادت میں اضافہ قرار دی جا رہی ہے، وہیں یہ سوال بھی شدت اختیار کر چکا ہے کہ کیا یہ جمہوری عمل ہے یا خاندانی سیاست کا تسلسل؟۔
پاکستان میں خواتین کا سیاست میں کردار کوئی نیا نہیں۔ فاطمہ جناحؒ سے لے کر بے نظیر بھٹو تک کئی نامور خواتین سیاست میں نمایاں کردار ادا کر چکی ہیں۔ بے نظیر بھٹو کا وزیراعظم بننا ایک انقلابی قدم تھا، لیکن اس کے بعد سیاست میں خواتین کو عموماً نمائشی یا ثانوی حیثیت دی جاتی رہی۔ مریم نواز کی بطور وزیراعلیٰ پنجاب تقرری اس پس منظر میں ایک نیا تجربہ ہے، جو مستقبل میں خواتین کی شراکت داری کے لیے دروازے کھول سکتا ہے، بشرطیکہ یہ تقرری محض علامتی نہ ہو۔
مریم نواز شریف نے عملی سیاست کا آغاز پانامہ کیس کے بعد کیا جب نواز شریف کی نااہلی کے بعد پارٹی کو قیادت کی ضرورت تھی۔ ان کا بیانیہ ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کے تحت عوامی جلسوں، عدالتی پیشیوں اور میڈیا پر خاصی توجہ کا مرکز بنا۔ لیکن ان کی سیاسی ساکھ مکمل طور پر موروثی سیاست سے آزاد نہیں۔ پارٹی کے اندر بھی اختلافات رہے کہ آیا مریم نواز کو قیادت سونپنا درست ہے یا نہیں۔ ان کی سیاسی تربیت اگرچہ مقتدر حلقوں سے دوری اور مزاحمت کی فضا میں ہوئی، لیکن اقتدار میں آتے ہی ان کا طرز عمل نسبتاً ادارہ پسند اور مفاہمانہ نظر آ رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے فوراً بعد مریم نواز نے سرکاری دفاتر، ہسپتالوں، تھانوں اور فیلڈ وزٹس کے ذریعے فعال قیادت کا تاثر دینے کی کوشش کی۔ پنجاب میں صفائی، ٹریفک مینجمنٹ، خواتین کے لیے بس سروس، سرکاری سکولوں کی ڈیجیٹل مانیٹرنگ اور صحت کارڈ جیسے پروگرام دوبارہ شروع کیے جا رہے ہیں۔ ان کی ٹیم میں نوجوان اور تکنیکی مہارت رکھنے والے مشیر شامل کئے گئے ہیں۔ وہ بیوروکریسی کے ذریعے اصلاحات لانے کے دعوے کر رہی ہیں۔ تاہم ان اقدامات کا مستقل اثر سامنے آنے میں وقت لگے گا اور عوامی توقعات بھی بہت زیادہ ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف اور دیگر جماعتیں مریم نواز کی حکومت کو ’’ سیلیکٹڈ‘‘ کہہ کر اس کی قانونی و اخلاقی حیثیت کو چیلنج کر رہی ہیں۔ ایسے میں سیاسی استحکام ایک بڑا چیلنج ہے۔ پنجاب کی بیوروکریسی میں مزاحمت ایک تاریخی حقیقت ہے۔ سابق وزرائے اعلیٰ کو بھی اس کا سامنا رہا ہے۔ مریم نواز کی بیوروکریسی پر گرفت کمزور ہونے کی صورت میں ان کی اصلاحاتی کوششیں متاثر ہو سکتی ہیں۔
عام آدمی سب سے پہلے مہنگائی، روزگار اور صحت و تعلیم کے مسائل سے جڑا ہوتا ہے۔ اگر مریم نواز کی حکومت ان مسائل کا حل دینے میں ناکام رہی تو عوامی اعتماد برقرار رکھنا مشکل ہو گا۔ بطور خاتون، مریم نواز کو ان طبقاتی اور صنفی تعصبات کا بھی سامنا ہے، جو پاکستانی سماج میں گہرے پیوست ہیں۔ ان پر دوہرا معیار اپنایا جا سکتا ہے، جو ان کی کارکردگی پر اثر انداز ہو گا۔
اگر مریم نواز اپنی پالیسیوں میں تسلسل، شفافیت اور میرٹ کو مقدم رکھتی ہیں تو وہ نہ صرف ایک کامیاب وزیراعلیٰ بن سکتی ہیں بلکہ خواتین کی سیاسی قیادت کے لیے ایک قابل تقلید مثال بن سکتی ہیں۔ بصورت دیگر، اگر وہ ماضی کی سیاسی روایات، اقربا پروری اور محض نمائشی اقدامات کی راہ پر چلتی ہیں تو یہ موقع بھی ضائع ہو جائے گا۔
مریم نواز کی وزارت اعلیٰ نہ صرف ان کی ذاتی اور خاندانی سیاست کے لیے ایک آزمائش ہے، بلکہ یہ پنجاب اور پاکستان کی خواتین کے لیے ایک اہم موقع بھی ہے۔ ان کی کامیابی یا ناکامی، صرف مسلم لیگ ( ن) کی نہیں بلکہ پوری سیاسی روایت کی سمت کا تعین کرے گی۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں خواتین کی شمولیت اب بھی محدود ہے، یہ تقرری اگر کارکردگی کے ساتھ ثابت ہو جائے تو نہ صرف سیاست میں بلکہ سماج میں بھی بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔







