
ٹک ٹاکرز کے قتل اور سوشل میڈیا
تحریر : سی ایم رضوان
گھوٹکی کی ایک اور معروف ٹک ٹاکر گھر میں مردہ پائی گئی۔ شک کی بنا پر 2افراد گرفتار۔ یاد رہے کہ اس سے قبل بھی اسلام آباد میں معروف ٹک ٹاکر ثنا یوسف کو دوستی نہ کرنے کی پاداش میں گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ اب سندھ کے شہر گھوٹکی سے تعلق رکھنے والی ایک معروف ٹک ٹاکر سمیرا راجپوت اپنے گھر میں پُراسرار حالات میں مردہ پائی گئی ہے۔ سمیرا راجپوت کی اچانک موت کی خبر سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ وائرل ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹک ٹاکر کی لاش کو لوڈر رکشے میں لے جایا جا رہا ہے۔ سمیرا راجپوت ایک ابھرتی ہوئی سوشل میڈیا شخصیت تھی جس نے اپنی مختصر ویڈیوز اور منفرد انداز سے کافی شہرت حاصل کی تھی۔ اس کی اچانک موت نے نہ صرف ان کے مداحوں کو غمزدہ کیا ہے بلکہ ان کے خاندان کی جانب سے بھی سنگین الزامات سامنے آئے ہیں۔ سمیرا کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ ان کی موت حادثاتی نہیں بلکہ قتل ہے، جس کے ذمہ دار سمیرا کے سابق شوہر ہیں۔ والدین نے الزام عائد کیا ہے کہ سمیرا کو گھریلو تشدد کا سامنا تھا اور وہ کئی بار اپنی زندگی کے حوالے سے خوف کا اظہار کر چکی تھیں۔ گھوٹکی کے ڈی ایس پی نے کیس سے متعلق میڈیا کو بتایا کہ سمیرا کی 15سالہ بیٹی کا بیان قلمبند کیا گیا۔ جس میں بیٹی نے بتایا کہ چند افراد اس کی ماں سمیرا راجپوت پر شادی کے لئے دبائو ڈال رہے تھے اور پھر انکار پر زہریلی دوا دے کر قتل کر دیا۔ تاحال پولیس یا انتظامیہ کی جانب سے موت کی اصل وجہ کے بارے میں حتمی بیان سامنے نہیں آیا تاہم پولیس نے شک کی بنا پر دو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرز کے بقول لاش پر تشدد کے شواہد نہیں ملے۔ خون کے نمونے لیبارٹری بھجوائے گئے ہیں تاکہ موت کی وجہ کا تعین کیا جا سکے۔ سوشل میڈیا پر صارفین کی بڑی تعداد سمیرا کو انصاف دلانے کا مطالبہ کر رہی ہے اور اس معاملے کی شفاف تحقیقات کی اپیل کی جا رہی ہے۔ ادھر شوبز اور آن لائن کمیونٹی کے کئی افراد نے بھی سمیرا کی موت پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور ان کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بڑھتے ہوئے عوامی دبائو کے بعد امکان ہے کہ حکام اس واقعے کی تحقیقات کر کے حقائق کو سامنے لائیں گے۔ یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی پاکستانی ٹک ٹاکر کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے ہوں بلکہ اس سے قبل اسلام آباد میں بھی ایک نوجوان ٹک ٹاکر ثنا یوسف کو دوستی نہ کرنے پر قتل کر دیا گیا تھا۔
یہ ٹھیک ہے کہ سوشل میڈیا فورمز نے انسانی رابطوں کو تیز تر اور انتہائی آسان بنا دیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ رابطے کے ذرائع جتنے تیز اور آسان ہوتے جا رہے ہیں، انسانی زندگی اتنی ہی بے سکون ہوتی جا رہی ہے جبکہ کسی ثبوت کے بغیر لوگوں کی عزت اچھالنا بھی رواج بنتا جا رہا ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا کے بعض اچھے پہلو بھی ہیں کہ فیس بک کے ذریعے ایک دوسرے کی خیر خبر پتا چلتی رہتی ہے، غمی و خوشی اور آمدورفت کی معلومات کے ساتھ ساتھ ہماری سالہا سال کی یاد داشتیں بھی اس میں محفوظ رہتی ہیں، ہماری تصاویر اور ویڈیوز کا ایک ذخیرہ بھی جمع رہتا ہے، اسی طرح وٹس ایپ کے ذریعے پیغام رسانی کا عمل بھی نہایت ارزاں و سہل ہو گیا ہے۔ سنجیدہ لوگ زیادہ تر ایکس ( ٹویٹر) استعمال کرتے ہیں جس کے ذریعے اپنی بے شمار مصروفیات کے باوجود وہ اپنی بات، تصاویر، ویڈیوز، پیغامات یا تقریب کو بآسانی دوسروں کے ساتھ شیئر کر سکتے ہیں لیکن سوشل میڈیا کے مضمرات بھی پوشیدہ نہیں ہیں۔ خاص طور پر ٹک ٹاکرز اور سوشل فیم خواتین کی توہین اور ان کے قتل تک کے واقعات یہ کہنے پر مجبور کر دیتے ہیں ہیں کہ سوشل میڈیا کا موجودہ سہولت سے لبریز دور بھی ہماری معاشرتی خرابیوں کو دور نہیں کر سکا بلکہ اس سہولت کو بھی ہم نے فحاشی اور قتل و غارتگری کے لئے کھل کھلا کر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے ہم صرف اپنی مثبت بات اور تعمیری و اصلاحی پیغام ہی شیئر کریں اور اِدھر ادھر کی سنی سنائی افواہیں آگے پھیلانے سے پہلے ان کی تصدیق ضرور کر لیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو پھر سوشل میڈیا کے فوائد اس کے نقصانات پر غالب آیا جا سکتا ہے لیکن سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے قتل و غارتگری اور گھٹیا الزامات و حرکات سے اٹے ہوئے موجودہ حالات و واقعات دیکھ کر اس امر کی توقع کرنا عبث لگتا ہے کیونکہ دنیا بھر میں اور خصوصاً ہمارے معاشرے میں کسی بھی خبر کو تصدیق کیے بغیر اور فحش جذبات کو بھڑکانے والی پوسٹس فوری طور پر آگے پھیلانا ہمارے ہاں عام سی بات ہے۔ ہمارے خود ساختہ دانشور لاشعوری طور پر صرف لائکس، کمنٹس اور ویوز کے چکر میں اوٹ پٹانگ چیزیں زیادہ شیئر کرتے ہیں کیونکہ ایسی چیزوں کو سوشل میڈیا پر زیادہ تیزی سے رِسپانس ملتا ہے اور یہی ان کا مقصد ہوتا ہے۔ بعض تصویریں اور تحریریں گزشتہ کئی سالوں سے سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں مگر لوگ آج بھی انہیں تازہ سمجھ کر شیئر کرتے جا رہے ہیں، مثلاً اکثر ایسی پوسٹس نظر آتی ہیں جن میں بچوں کی تصاویر کے ساتھ یہ پیغام لکھا ہوتا ہے کہ یہ بچہ اس وقت فلاں تھانے میں موجود ہے اور اس کے ورثا کی تلاش ہے، اس کی تصاویر شیئر کریں تاکہ یہ اپنے والدین تک پہنچ جائے۔ وہ بچہ جوان بھی ہو چکا ہوتا ہے لیکن یہ میسج اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ اس کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے لوگ اس قسم کی پوسٹس سے تنگ آ جاتے ہیں، پھر واقعتاً اپنے اہلِ خانہ سے بچھڑ جائے والے بچوں کی اطلاع کو بھی لوگ پرانی یا غلط خبر سمجھ کر آگے شیئر نہیں کرتے، اس لئے ایسی چیزوں کو شیئر کرنے سے پہلے ان کی تصدیق لازم ہے اور یہ کوئی بڑا کام نہیں۔ اکثر ایسی تصاویر کے کمنٹس میں یہ معلومات مل جاتی ہے، پھر تصویر کے شیئر کرنے کی تاریخ سے بھی علم ہو سکتا ہے کہ یہ پہلی بار کب شیئر کی گئی۔ سب سے بڑھ کر شیئر کرنے والے اگر پولیس یا اس قسم کے دوسرے اداروں کے آفیشل پیجز ہوں تو اس کی حقیقت اور تصدیق میں کوئی شک نہیں رہ جاتا۔ یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ فیس بک سمیت سوشل میڈیا ایپس زیادہ تر محفوظ بھی نہیں ہیں اور ہیکرز کسی بھی سوشل میڈیا فورم کے صارفین کے اکانٹس ہیک کرکے اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ فیس بک اور ایکس سمیت سوشل میڈیا فورمز کسی بھی طور پر محفوظ نہیں سمجھے جا سکتے اور ان پر شیئر کی گئی تصاویر اور دیگر معلومات کسی بھی وقت چوری ہو سکتی ہیں۔
دو برس قبل دنیا کی سب سے بڑی سوشل ویب سائٹ فیس بک ( میٹا) اور اس کی ذیلی ایپس انسٹا گرام اور وَٹس ایپ کی چند گھنٹے کی بندش سے دنیا بھر میں ساڑھے تین ارب سے زیادہ صارفین متاثر ہوئے تھے۔ میٹا کے مالک مارک زکربرگ کو یہ بندش بہت مہنگی پڑی اور انہیں فی گھنٹہ ایک ارب ڈالر ( قریب تین کھرب روپے) سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ فیس بک کے ٹریفک نیٹ ورک اور ڈیٹا سنٹر کے آلات میں خرابی کی وجہ سے ان ایپس کی سروس بند ہوئی تھی۔ تاہم میٹا انتظامیہ نے تصدیق کی تھی کہ سروس کی بندش سے صارفین کا ڈیٹا لیک یا متاثر نہیں ہوا۔
بلاشبہ ہمارے لئے سوشل میڈیا خصوصاً وَٹس ایپ تصاویر، پیغامات اور دیگر معلومات کا سب سے تیز، سستا اور آسان ذریعہ ہے اور جب کبھی اس کی سروسز بند ہوئیں تو گویا ہم بھی اندھیرے میں چلے گئے۔ پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں اس بندش سے مشکلات پیش آتی ہیں۔ جو خبریں اور تصاویر وَٹس ایپ کے ذریعے موبائل فون سے ہی فوری طور پر فارورڈ ہو جاتی ہیں، انہیں سینڈ کرنے کے لئے لیپ ٹاپ استعمال کرنا پڑا اور ای میل کا سہارا لینا پڑا۔ تاہم یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی بندش سے گویا زندگی میں چند گھنٹے کے لئے ایک سکون سا آ جاتا ہے۔ غیر ضروری پیغامات کی ٹک ٹک اور فضول کالوں کی ٹن ٹن بند رہتی ہے۔ آج کل بہت سے لوگ فری لانسنگ کر رہے ہیں ۔ کچھ سوشل میڈیا فورمز کے ذریعے روزگار کما رہے ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس سے نوجوان نسل کی ایک بڑی تعداد اچھے خاصے پیسے کما رہی ہے لیکن اس مقصد کے لئے انہیں اپنی پوسٹوں کو وائرل کرنا ضروری ہوتا ہے جس کے لئے اکثر جھوٹ، فحاشی، عریانی، غیر مصدقہ اطلاعات، افواہوں، من گھڑت کہانیوں، ناپسندیدہ تصویروں اور غیر اخلاقی وِڈیوز تک کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کی اخلاقی تباہی انتہا تک پہنچ گئی ہے۔ فحاشی، گندے خیالات سے بات بڑھ کر اب غلیظ توقعات و الزامات اور مجرمانہ حرکات و واقعات جنم لے رہے ہیں۔ کسی بھی لڑکی کی فحش ویڈیوز دیکھ کر مخالف صنف کا ہراس پر مبنی حملے کرنا اور ہوس پر مبنی مجرمانہ سرگرمیوں پر اتر آنا ہمارے معاشرے کا المیہ ہے اور اس المیے کو بنیاد ٹک ٹاک، یوٹیوب اور اس جیسی دیگر سوشل میڈیا ایپس فراہم کر رہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اب آسان اور ارزاں رابطے کے لئے لوگوں نے گھریلو خواتین کو بھی سمارٹ موبائل فون تھما دئیے ہیں۔ جن کی بدولت وہ دیار غیر سے بھی جب چاہیں وِیڈیو کال پر پوری فیملی سے ملاقات کر لیتے ہیں لیکن اکثر اس طرح توجہ گھرداری سے زیادہ سماجی رابطوں پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اساتذہ کی جانب سے بار بار منع کرنے اور سکولوں و کالجوں میں پابندی کے باوجود ہم بچوں کو گھر سے رابطے کے نام پر موبائل فون تھما دیتے ہیں اور سونے پہ سہاگا یہ کہ عام فون کے بجائے انہیں مہنگا ترین سمارٹ فون لے کر دیتے ہیں۔ اس طرح بچوں کو اہلِ خانہ سے رابطے کے زیادہ پلیٹ فارم مہیا ہو جاتے ہیں مگر رفتہ رفتہ وہ پڑھائی سے زیادہ وقت سماجی ویب سائٹس کو دینے لگتے ہیں۔ پہلے مذاق مذاق میں اور پھر عادتاً ایک دوسرے کے ساتھ غیر اخلاقی پیغامات، تصاویر اور وڈیوز کی ترسیل شروع ہو جاتی ہے اور یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب کسی بھی نوجوان لڑکے یا لڑکی کی پُرسکون اور خوبصورت زندگی میں بگاڑ پیدا ہونا شروع ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ بگاڑ پروفیشنل ٹک ٹاکرز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی جان تک ضائع ہونے کا سبب بن جاتے ہیں مذکورہ بالا واقعات اسی قباحت کے نتائج کے طور پر سامنے آئے ہیں اور معاشرے میں ایک خوف اور سنسنی نے گھر کر لیا ہے۔ سائنسی ترقی، جدت اور زمانے کی برق رفتاری بلاشبہ وقت کی ضرورت ہیں اور انہیں اپنائے بغیر موجودہ دور میں کامیابی سے چلنا ممکن نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سب ترقی مصنوعی ہے جو قدرت کی عطا کردہ نعمتوں اور آسائشوں کے مقابلے میں بظاہر تیز تو ہو سکتی ہے لیکن اس نے انسانی زندگی سے پیار، محبت، آرام، سکون اور قدرتی ماحول چھین لیا ہے۔ دیانتداری سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ سوشل میڈیا ترقی کی طرف لے جا رہا ہے یا تباہی کے راستے پر ڈال رہا ہے۔ ثناء یوسف، حمیرا اصغر اور اب سمیرا راجپوت جیسی سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے قتل کی وارداتوں کو دیکھ کر تو اسے تباہی کا پیش خیمہ ہی کہا جا سکتا ہے لیکن ہم سب مہذب رویوں سے اس تباہی کو ترقی کا ذریعہ بھی بنا سکتے ہیں۔







