Abdul Hanan Raja.Column

نااہلیت ! کرپشن سے بڑا چیلنج

نااہلیت ! کرپشن سے بڑا چیلنج
تحریر: عبد الحنان راجہ

عقلمند اور بیوقوف میں کچھ نہ کچھ عیب ضرور ہوتا ہے، مگر عقلمند اپنے عیب کو خود دیکھتا ہے اور بیوقوف کا عیب دنیا دیکھتی ہے۔ شیخ سعدیؒ نے درست ہی کہا ہمیں اس ترازو میں اپنے آپ، سیاسی قیادت اور پوری قوم کو تولنا چاہیے کہ یہی اصلاح کا طریق اور ترقی کا راز۔
نااہل اگر خود بدعنوان نہ بھی ہو مگر بربادی کے دروازے کھول دیتا ہے۔ جس طرح قابل اور دیانت دار سیاسی قیادت ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے ضروری، اسی طرح اچھے اوصاف اور بلند کردار کے حامل افراد اداروں کی کارکردگی اور ساکھ کے لیے ناگزیر۔ مگر نہایت دکھ اور کرب کہ نہ صرف عوام بلکہ دنیا بھر میں ہماری ریاست کی عمومی ساکھ بدعنوانی سے معنون، عوام میں بدعنوانی رواج پا چکی، ادارے اس کے پروردہ اور نظام انصاف بانجھ۔ تو پھر کرپشن کروڑوں ڈالرز کی ہو یا اربوں روپے کی، فرق نہیں پڑتا کیونکہ ریاست اس سے لاتعلق اور عوام بے حس ہو جاتے ہیں۔ جبکہ احتساب ہر دور میں مخالفین کی حد تک محدود۔ ایسے میں کرپشن نہ کرنے والے پر محکمہ بھی تنگ کر دیا جاتا ہے اور زمین بھی سکڑنے لگتی ہے۔
کرپشتان سے مہذب کرپشن کی بڑی خبر کے پی میں سینیٹ آف پاکستان کا انتخاب۔ اس میں نہ صرف مخالف و متحارب جماعتوں کا اتفاق اور شیر و شکر ہونا معنی خیز اور سب سے بڑھ کر جمعیت علمائے اسلام سمیت مسلم لیگ ن، پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کا سینیٹ کے لیے حسن و معیار انتخاب۔ یہ کھلی حقیقت کہ عددی اعتبار سے کے پی میں وہاں کی حکمران جماعت اس سے زیادہ نشستیں لے سکتی تھی !!!! اس پر پس پردہ کیا ہوا جاننے والے جانتے ہیں ہمیں بلاوجہ سر کھپانے کی کیا ضرورت۔ پی ٹی آئی سینیٹ آف پاکستان میں تعلیم یافتہ بے داغ اور اہل افراد کو بھجوا کر سیاست میں مثال قائم کر سکتی تھی، مگر ارب پتی افراد کو ٹکٹ بانی کی ہدایت پر جاری ہوئے یا کمیٹی نے کمیٹی ڈالی۔ ؟ ان نامی گرامیوں کو نوازا گیا جو کوہستان سکینڈل میں براہ راست ملوث۔ کارکن چیختے رہ گئے مگر شنوائی مال و زر والوں کی ہوئی۔ کوہستان سکینڈل بارے آڈیٹر جنرل رپورٹ نے پول کھولا تو انصاف والے ناانصافی کرتے پائے گئے۔ آڈیٹر جنرل کی ایک اور رپورٹ جس میں صرف ایک ماہ میں بجلی صارفین سے 47ارب 81کروڑ اضافی بلوں کی مد میں لوٹے گئے۔ گزشتہ سال بھی میٹر ریڈنگ کی مد میں ہیرا پھیری پر 60ارب سے زائد کا گھپلا ہوا گو کہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ مفلوک الحال عوام کے زخموں پر نمک چھڑنے کے مترادف۔ کہ گھپلا صرف 47ارب 81کروڑ کا ہی تو ہے۔ پھر گھپلے کرنے والوں کو کون سا سولی پر چڑھا دئیے گئے کہ آئندہ کوئی گھپلا کرنے کی جرات کرے۔ اور گھپلے تو وہاں ہوتے ہیں جہاں کچھ ہو، تو عوام کی جیبوں میں مال تھا تو ہی گھپلا ہوا نا !!!!
ایک اور خبر کی جانب، گرچہ وہ کوئی چونکا دینے والی تو نہیں کہ ان کو معاف نہ کرنے کے عہد و پیماں اس بھولی عوام سے ہماری پیدائش سے قبل 1971ء سے ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ عوام سنتے چلے آ رہے ہیں۔ 2024ء سے مئی 2025ء تک ساڑھے سات لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کی گئی اور کرپٹ شوگر ملز مالکان، کہ جنہیں گزشتہ 50سال سے قانون میں کسنے کی کوشش کی جا رہی تھی، کے لیے آج تک کوئی حکومت بھی شکنجہ تیار نہ کر سکی، ہاں البتہ شوگر انڈسٹری نے حکومتوں کو ناک رگڑوانے اور عوام کو شکنجے میں کسنے کی خوب مشق کر رکھی ہے اور ریاست بھی ان کے آگے بے بس، پہلے اس وعدہ پر کہ چینی کی قلت ہو گی اور نہ قیمت بڑھے گی، برآمد کر کے پیسے کمائے گئے مگر وہ وعدہ ہی کیا جو ہمارے ہاں ایفا ہو۔ شوگر مافیا بھی سوچتا ہو گا کہ پہلے کون سا ایشین ٹائیگر بننے، تبدیلی کا یا روٹی کپڑا مکان کا وعدہ ایفا ہوا جو ہم کریں، سو انہوں نے برآمد کر کے مال بنایا اور اب 7لاکھ 65ہزار ٹن چینی درآمد کر کے عوام کو لوٹا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق شوگر انڈسٹری کو نوازنے کے لیے چار قسم کے ٹیکسز کو زیرو کی سطح تک لایا گیا، اب قلت کے پیش نظر چینی درآمد کرنا حکومت کی مجبوری اور بہتی گنگا میں کون کون ہاتھ دھوئے گا سب کو معلوم۔
میگا کرپشن سے جڑی ایک اور خبر، مگر پریشان کن ضمیر زندہ والوں کے لیے، پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق سمگلنگ کو روکنے میں حکومتی اداروں کی نااہلی ملک کو گھن کی طرح کھا گئی اور بدعنوانی کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنا اسی طرح ناممکن دکھائی دیتا ہے جیسے پانی کی قلت کے باوجود کالا باغ ڈیم کا بننا۔ تھوڑا نہیں ساڑھے تین کھرب کا نقصان ریاست کو، وہ بھی ہر سال۔ اس پر حکومتوں کی بے حسی سے لگتا ہے کہ نقصان کا ہمیں چسکا پڑ چکا، جیسے قرض کی مے کا۔ اصلاح کی کوشش تو دور کی بات، سوچنا تک گناہ متصور۔ جتنی بڑی معاشی درندگی اتنی گہری خاموشی۔
میری نظر میں نااہل سربراہان کی کرپشن سے زیادہ سنگین اور فوری حل طلب مسئلہ ہے کہ جب تک بزدار ٹائپ سربراہان اداروں پر مسلط ہیں کرپشن ختم ہو سکتی ہے اور نہ مالیاتی خسارہ۔ رہی بات کہ کیا بدعنوانی صرف اشرافیہ تک ہی محدود؟ جواب نہیں۔ کہ عوام بھی اس میں پوری طرح حصہ دار، یہ من پسند رہنمائوں کی بدعنوانی، جھوٹ، دغا بازی اور بدکرداری کھلی آنکھوں سے دیکھ کر اس کی پردہ پوشی کر کے فکری کرپشن کی بنیاد رکھتے ہیں اور سوشل میڈیا پر لڑتے بھرتے ہیں۔ ان کی یہی غیر مشروط وفاداری سیاسی رہنمائوں، قیادت کو دھڑلے سے کرپشن پر جری کرتی ہے۔ اسی لیے سینیٹ الیکشن ہوں یا قومی انتخابات، ٹکٹوں کی بولیاں لگتے دیکھ سن کر بھی گونگے بہرے بنے رہتے ہیں۔ ان حالات میں کہ جب قدرت نے پاکستان کو عالمی سطح پر باوقار بنا ہی دیا ہے اور مسلح افواج نے پوری قوم کو نیا عزم اور حوصلہ عطا کیا ہے تو ان حالات میں اداروں کی تطہیر اب ضرورت نہیں ناگزیر ہو چکی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آرمی چیف کی تجویز پر قومی ترقی کے لیے قائم ادارہ کی پہلی ترجیح اداروں کی تطہیر اور ان میں دیانت دار اور اہل ذمہ داران کی تعیناتی ہو جائے۔ سابق ایئر مارشل ارشد ملک نے مختصر مدت میں پی آئی اے کے معاشی بدمعاشوں کو نکیل ڈال کر ادارے کا قبلہ درست کر کے کرپشن ختم اور ادارے کی ساکھ بحال کر کے اپنی اہلیت ثابت کی تھی، مگر نظام انصاف کو یہ تعیناتی خلاف ضابطہ لگی۔ صد شکر کہ اس وقت پاکستان سٹیل ملز ہو یا یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن، ریلوے ہو یا پی آئی اے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں ہوں یا پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان یا دیگر سرکاری ملکیتی ادارے کہ جن کا سالانہ خسارہ 5800ارب تک پہنچ چکا ہے، میں تعیناتیاں آئین اور قانون کے مطابق ہیں۔
حرف آخر سلگتے جذبات کو آگ پکڑنے سے قبل، سیاسی حکومت سے تو توقع نہیں کہ خائن انہی کے پروں کے نیچے پناہ لئے بیٹھے ہیں، جن کی براہ راست ذمہ داری نہیں بنتی، وہ اگر از خود اداروں کی تطہیر اور شاہانہ کلچر کے خاتمہ کے لیے یک سطری فرمان جاری کرا دیں تو یہ اس مملکت خداداد پر بڑا احسان ہو گا اور ان کا درد سر بھی ختم۔ کہ اہل اور دیانت دار سربراہان اپنا اور ادارے کا وقار بحال کرنے کے لیے جان تک لڑا دیتے ہیں۔ کہ یہ مٹی بڑی زرخیز ہے صرف نم کی ضرورت۔ اور یہ نم، فقط اہل و دیانت دار افراد کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی۔

جواب دیں

Back to top button