بھائو تائو

بھائو تائو
تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض)
پاکستانی داخلی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ’’ حکمران‘‘ ایک طرف حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں بہترین انداز میں سرخرو ہوئے ہیں تو دوسری طرف انہیں اس حقیقت کا بخوبی احساس ہے کہ بھارت کسی بھی صورت نچلا نہیں بیٹھے گا اور اپنے فطری اتحادی اسرائیل کی طرز پر پاکستان کے داخلی معاملات کو بری طرح سبوتاژ کرنے کی کوششیں کرے گا۔ کچھ عرصہ پہلے تک بھارت ساری دنیا کو یہ یہ تاثر دیتا رہا ہے کہ پاکستان نہ صرف بھارت کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتا ہے بلکہ بھارتی نہتے شہریوں پر رچائے گئی خود ساختہ دہشت گردی کے واقعات کو بلا تحقیق و تفتیش، پاکستانی ایجنسیوں کے سر تھوپتا رہا ہے اور پاکستان کو عالمی برادری میں رسوا کرتا رہا۔ بعد ازاں کئی ایک مواقع پر غیر جانبدارانہ تحقیقات و صحافیوں کی غیر جانبدارانہ و تحقیقاتی رپورٹس نے کھل کر ایسے واقعات کو ’’ جھوٹا‘‘ ثابت کیا اور بھارت کی بدنیتی و مکاری کو ساری دنیا کے سامنے آشکار کیا کہ کیسے بھارت مخاصمانہ و دشمنانہ رویہ کے باعث، ایسے جھوٹے آپریشن میں بھارتی عوام کو خود قتل کرتا ہے، لیکن اس کا الزام پہلے سے ہی سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق، عالمی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے، فوری طور پر پاکستان اور اس کی ایجنسیز کے سر تھوپ کر، پاکستان کو عالمی سطح پر ملنے والی حمایت کو سبوتاژ کرتا رہا ہے، پاکستانی معیشت کے درپے رہا ہے اور مسلسل پاکستان کو معاشی مشکلات کا شکار کئے رکھا ہے۔ خیر پاکستان کی معاشی مشکلات میں پاکستانی زعماء کی بدنیتی و نمک حرامی بھی شامل ہے کہ جن کے پیٹ پاکستانی معیشت کو تباہی کے دھانے پر لانے کے باوجود ہنوز بھرتے دکھائی نہیں دیتے اور وہ بیساکھیوں کے سہارے آج بھی اپنے پیٹ اور تجوریاں بھرنے میں لگے ہیں جبکہ دوسری طرف بھارت، پاکستانی زعماء کی مجرمانہ غفلت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کر چکا ہے گو کہ اس کی مضبوط معیشت پر امریکی نظریں بخوبی گڑی ہیں اور حالات یہ بتا رہے ہیں کہ امریکہ بہادر اپنی معاشی حالت کو بہتر بنانے کی غرض سے جو اقدامات اٹھا رہا ہے اس میں اس کے حلیفوں کی مضبوط معیشت ہی امریکی معیشت کی رگوں میں خون بن کر دوڑنے کو ہے جبکہ اس کے حلیف ’’ معاشی مریض‘‘ بننے کو ہیں۔ اس کا ایک اور ثبوت یہ بھی ہے کہ ایک طرف امریکہ مشر ق وسطی کے مضبوط معاشی ممالک سے جبرا دفاعی معاہدے کررہا ہے تو دوسری طرف اس نے حال ہی میں جاپان سے ایسا معاشی معاہدہ کیا ہے کہ جس میں جاپان کو ہر صورت امریکہ میں 550بلین ڈالر سرمایہ کاری کرنی ہے جس کا 90%منافع امریکہ حاصل کرے گا اور صرف 10%منافع جاپان کو ملے گا، جبکہ دیگر ممالک سے کہیں ٹیرف کے نام پر وصولیاں کی جارہی ہیں تو کہیں جبرا امریکی مصنوعات کو ان ممالک کو فروخت کیا جارہا ہے۔ کیا امریکہ اس طرح اپنی ڈوبتی ہوئی ساکھ کو بچا پائے گا یا اپنا کنٹرول دنیا پر قائم رکھ سکے گا؟ یہ سوالیہ نشان اپنی جگہ مگر تاحال امریکہ کی عالمی حیثیت سے انکار ممکن نہیں کہ برکس یا شنگھائی تعاون تنظیم کی موجودگی کے باوجود یہ تنظیمیں تاحال امریکی چیرہ دستیوں کے سامنے کوئی بند نہیں باندھ سکی بلکہ امریکہ اس میں شامل ممالک پر زیادہ سختیاں کرتا دکھائی دے رہا ہے تاکہ ان کے ہوش پکڑنے سے پہلے ہی ان کا دم خم نکال سکے لیکن کیا یہ امریکہ کے لئے ممکن ہوگا؟ امریکی اس روئیے سے ممکنہ طور پر دو چیزیں ممکن ہیں کہ یا تو واقعتا یہ تنظیمیں امریکی خواہش کے مطابق دم توڑ دیں کہ جس طرح امریکہ اس میں شامل ممالک کے خلاف بروئے کار آ رہا ہے، وہ ممالک اس دباؤ کا سامنا نہ کر سکیں اور ان تنظیموں سے علیحدہ ہو جائیں یا دوسری صورت یہ ہے کہ ان تنظیموں کے روح رواں کھل کر میدان میں آجائیں اور امریکہ کے ساتھ براہ راست میدان میں اتر کر برتری کا فیصلہ کر لیں یا درمیانی راستہ یہ ممکن ہے کہ چین و روس مل کر امریکہ کو کسی مشترکہ مفاد پر، کسی مشترکہ نکتہ پر قائل کر لیں اور بیچ بچائو کا راستہ نکل آئے، جو بہرطور عارضی ہی ہوگا کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں سما سکتی، بہرحال کون جانے کہ جدید دور میں ایک میان میں دو تلواریں بھی سما جائیں۔ بہرکیف یہ برسبیل تذکرہ ہی سمجھیں کہ یہ بھی اس وقت حالات کی ستم ظریفی ہی ہے کہ ایسے معاملات بھی بہرکیف ساتھ چل رہے ہیں اور ان سے مفر بھی ممکن نہیں۔
مشرق وسطی کے معاملات تاحال حل طلب ہیں اور صدر ٹرمپ کو اقتدار سنبھالے بھی قریبا چھ ماہ گزر چکے لیکن ہنوز غزہ میں جنگ بندی نہیں ہو سکی بلکہ اسرائیل بتدریج اپنے جارحانہ اقدامات میں اضافہ کرتا جا رہا ہے کہ اب اس کے حملے شام میں بڑھ رہے ہیں لیکن امریکہ بہادر سوائے زبانی جمع خرچ اور کچھ بھی نہیں کر رہا یا کرنا ہی نہیں چاہتا جبکہ عالمی ادارے امریکی آشیرباد کے بغیر عملا کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں بلکہ ان کی زبانی جمع خرچ والی سرگرمی بھی امریکی آشیر باد کی محتاج ہے۔ دوسری طرف اگر روس و چین کی کارکردگی دیکھیں تو وہ بھی ایک خاص حد سے آگے دکھائی نہیں دیتی حالانکہ اگر دیکھا جائے تو شام میں روس کو زبردست شکست ہوئی ہے لیکن روس اس دوران یوکرین والے معاملے میں الجھا ہوا ہے لہذا صرف بشار الاسد کو ماسکو میں پناہ گزین رکھنے کے، عملا کچھ نہیں کر پایا۔ بات پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے شروع کی تھی تو قارئین اس وقت بھارتی مداخلت کے آثار و شاہکار بخوبی دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ملک کے طول و عرض میں اس کا مظاہرہ ہو رہا ہے اور کیسے ملکی داخلی امن و امان کی صورتحال کو مخدوش کیا جارہاہے۔ افغانستان کے جانب سے مسلسل دہشت گردوں کو پاکستان میں دھکیلا جارہا ہے جبکہ پاکستان ان کے خاتمے و سدباب کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہا ہے لیکن نتیجہ کیا نکل رہا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ مداخلت بڑھتی جارہی ہے۔ یہ دہشت گرد کہیں پوری ٹرین پر قابض ہو جاتے ہیں تو کہیں یہ بسوں کو روک کر فرقہ واریت ؍ لسانیت کی بنیاد پر نفرت کے بیج بونے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتے ہیں، تسلیم کہ پاکستانی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں ان کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں اور بیشتر اوقات دشمن دس میں سے ایک کاوش میں کامیاب ہوتا ہے لیکن یہ ایک کاوش پورے نظام کو ادھیڑ کر رکھ دیتی ہے اور عوام کی نظروں میں ساکھ و اعتبار گرتا جاتا ہے، بالخصوص ایسے شرپسندوں کی بدولت جو حقیقتا اور واقعتا ان واقعات کی آڑ میں دشمن کی زبان بولتے ہیں۔ اس وقت بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہے اور عوامی رائے واضح طور پر منقسم دکھائی دیتی ہے کہ ایک طرف جبری گمشدگیوں کا معاملہ ہے تو دوسری طرف حکومت وقت کے ہاتھوں میں کوئی اختیار دکھائی نہیں دیتا کہ کہ کم از کم وہ سیاسی میدان میں دشمن کو نہ صرف جواب دے سکیں بلکہ پاکستانی عوام کے زخموں پر مرہم رکھ سکیں کہ عوام کے زخموں پر مرہم سیاسی حکومت ہی رکھ سکتی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے عوامی رنجش، گلے شکوے شدید نوعیت کے ہیں اور موجودہ حالات میں ان اداروں کا رویہ جلتی پر مزید تیل چھڑکنے کا سبب بن رہا ہے۔ رہی بات سیاسی حکومت کی تو بدقسمتی یہ بھی ہے کہ سیاسی حکومت کے پلے بھی کچھ نہیں کہ صرف عوام ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کو اس حقیقت کا علم ہے کہ موجودہ سیاسی حکومت کیسے اور کس کی مرہون منت معرض وجود میں آئی ہے اور یہی سبب ہے کہ پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے بعد، جب امریکہ میں ملاقات کی ضرورت محسوس ہوئی تو وزیراعظم کی بجائے کس ’’ ہستی‘‘ کو وائٹ ہائوس مدعو کیا گیا، کس کے ساتھ معاملات طے کئے گئے اور ان معاملات کے بعد، امریکی انتظامیہ اسیر پاکستانی سیاستدان کے حوالے سے کیوں خاموش ہوئی؟ یہ سب معاملات روز روشن کی طرح عیاں ہیں اور سب کے سامنے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم میں پاکستانی نژاد امریکیوں کی حمایت، عمران خان کی رہائی کے وعدے پر ملی تھی، لیکن معاملات کہ اچانک ٹھنڈے پڑ جانے پر اب عمران خان کے بیٹوں کے متعلق سنا ہے کہ وہ امریکی صدر سے ملاقات کرنے کی تیاریوں میں جتے ہیں کہ کسی طرح صدر ٹرمپ کو اپنے والد کی ناجائز اسیری پر قائل کر سکیں۔ عمران خان کے بیٹوں پر حیرت ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کو اپنے والد کی ناجائز اسیری پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے بالخصوص ایسے عالمی حالات میں جب امریکہ بذات خود اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے، اس کے بھارت جیسے قریبی اتحادی اس کی شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں، چین معاشی میدان میں اس کے لئے خفت و ہزیمت کا باعث بن رہا ہے، پاکستان سے اسے نایاب معدنیات کے حصول میں معاونت اور ابراہم اکارڈ کے حوالے سے بہر طور یقین دہانی ( کہ آثار یہی بتا رہے ہیں جس طرح پاکستان میں اس کے فوائد پر سیر حاصل گفتگو شروع کی جا چکی ہے)، عمران خان کی رہائی کے لئے قاسم اور سلیمان کیا اور کیسا بھائو تائو کر پائیں گے جبکہ عمران خان کی اسیری کے لئے بھائو تائو پہلے ہی ہوچکا ہے!!!







