Column

مذہبی جنونیت، پاکستان اور پیپلز پارٹی

مذہبی جنونیت، پاکستان اور پیپلز پارٹی
تحریر : ڈاکٹر ضرار یوسف

مذہب اگر محبت، برداشت، اخلاق اور امن کا پیغام دیتا ہے تو مذہبی جنونیت اس کے برعکس نفرت، تشدد، تعصب اور بربادی لاتی ہے۔ ایک مہذب اور ترقی یافتہ معاشرہ تبھی پنپ سکتا ہے جب مذہب کو انسانیت کے حق میں استعمال کیا جائے، نہ کہ ایک ہتھیار کے طور پر۔
مذہبی جنونیت (Religious Extremismیا Religious Fanaticism) معاشرے کے لیے زہرِ قاتل ہے کہ یہ نہ صرف فرد کی سوچ، بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے کو تباہ کر سکتی ہے۔
درج ذیل نکات اس کی وضاحت کرتے ہیں:
مذہبی جنونیت انسانوں میں عدم برداشت کا فروغ کرتی ہے، جس سے اختلافِ رائے کو برداشت کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ ایک جنونی فرد یا گروہ صرف اپنی تعبیرِ مذہب کو درست مانتا ہے اور باقی سب کو گمراہ یا کافر سمجھتا ہے، جس سے معاشرے میں فرقہ واریت پھیلتی ہے۔ بین المسالک اور بین المذاہب ہم آہنگی برباد ہو جاتی ہے۔ مذہبی جنونیت تشدد اور انتہا پسندی متاثرہ افراد کو اس قدر شدت پسند بنا دیتی ہے کہ وہ اپنے نظریات دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے لگتے ہیں۔ کسی کی بھی جان لینے کو ’’ ثواب‘‘ سمجھنے لگتے ہیں۔ بم دھماکے، خودکش حملے، اور ٹارگٹ کلنگ جیسے اقدامات جائز سمجھتے ہیں۔ جنونی ذہن تعلیم، سوال، تحقیق اور دلیل سے خائف ہوتا ہے نئی سوچ اور سائنسی ترقی کی مخالفت کی جاتی ہے۔ طلبہ کو علم کے بجائے نفرت کا سبق دیا جاتا ہے اور ان کی جنونیت کا لائبریریاں، اسکول، اور تعلیمی ادارے نشانہ بنتے ہیں۔
پاکستان میں عموماً مذہبی جنونیت کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ مذہب کو ووٹ بینک بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ عوامی جذبات کو بھڑکا کر اقتدار حاصل کیا جاتا ہے۔ اختلاف کرنے والوں پر کفر کے فتوے لگا کر انہیں خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مذہبی جنونی معاشروں میں اقلیتیں غیر محفوظ ہو جاتی ہیں ۔ ان کے عبادت خانے جلائے جاتے ہیں۔ مذہبی آزادی سلب کر لی جاتی ہے۔ جھوٹے الزامات ( توہینِ مذہب وغیرہ) لگا کر سزائیں دلوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جیسے حالیہ بلاسفیمی بزنس گینگ کی کارروائیاں بھی منظر عام پرآئی ہیں ۔مذہبی جنونیت سے معاشی اور سماجی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی جہاں مذہبی جنونیت ہو ۔ وہاں سرمایہ کاری نہیں آتی۔ سیاحت ختم ہو جاتی ہے۔ نوجوان شدت پسند تنظیموں کا ایندھن بن جاتے ہیں۔
ذہنی غلامی اور سچ سے فرار جنونی سوچ فرد کو آزاد غوروفکر سے روکتی ہے۔ ہر نئی بات ، نئی تحقیق کو بدعت قرار دیا جاتا ہے۔ جنونی شخص خود سے سچ تلاش کرنے کے بجائے کسی مولوی یا رہنما کی اندھی پیروی کرتے ہوئے گمراہی یا موت کے گڑھے میں جا گرتا ہے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی (PPP)کو مذہبی جنونیت نے کئی سطحوں پر شدید نقصان پہنچایا ہے، نہ صرف سیاسی طور پر بلکہ جانی، فکری اور نظریاتی اعتبار سے بھی۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا 27دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں قتل مذہبی شدت پسندی کا سب سے ہولناک مظہر تھا۔ جس میں محترمہ کو قتل کروانے والی قوتوں نے مذھبی انتہاء پسند ٹولے کو بطور آلہ کار استعمال کیا۔ خودکش حملے اور فائرنگ کا نشانہ بننے والی وہ پہلی خاتون وزیرِاعظم تھیں جو دہشت گردی کے خلاف زینہ سپر تھیں ۔ حملے کے بعد طالبان کے ترجمان نے ان کے خلاف بیانات دئیے تھے کہ وہ ’’ اسلام دشمن ایجنڈے‘‘ پر کام کر رہی تھیں۔ قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مذہبی پروپیگنڈا کیا گیا ۔ بھٹو صاحب کو ’’ سوشلسٹ‘‘ ، ’’ لا دین‘‘، اور ’’ اسلام مخالف‘‘ قرار دے کر ان کے خلاف ایک منظم مذہبی مہم چلائی گئی۔1977ء کی تحریکِ نظام مصطفیٰ، جس میں مذہبی جماعتوں نے قیادت کی، درحقیقت ایک سیاسی تحریک تھی جس میں مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ اس مہم نے نہ صرف بھٹو حکومت کے خلاف غیر ملکی فنڈز تحریک چلائی گئی جو ابتدا میں انتخابات میں دھاندلی پھر مذہب کا سہارا لے کر اسے تحریک نظام مصطفی کا نام دئیے کر فوجی مارشل لا کے لیے راستہ ہموار کیا۔
مذہبی جنونیت نے پیپلز پارٹی کا نظریاتی تشخص مجروح ہوا، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جمہوریت، مذہبی رواداری، اور عوامی حقوق کا بیانیہ پیش کیا۔ مگر مذہبی شدت پسند عناصر نے اسے ’’ سلام مخالف‘‘ قرار دے کر عام عوام کو گمراہ کیا۔ اس پراپیگنڈے کی وجہ سے دیہی اور پسماندہ علاقوں میں پیپلز پارٹی کو نقصان ہوا۔ انہی وجوہات کی بنیاد پر انتخابی نتائج پر بری اثرات مرتب ہوئے۔ مذہبی جماعتوں اور دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر کی جانب سے جاری فتوئوں اور مہمات نے عوامی رائے عامہ پر اثر ڈالا۔
پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو اکثر مذہبی بنیاد پر بدنام کیا گیا مثلاً، ’’ یہ قرآن و سنت کا نظام نہیں چاہتے‘‘ ، ’’ یہ قادیانیوں یا مغرب نواز ایجنڈے پر ہیں‘‘ وغیرہ۔ یہاں تک کہ سینئر وائس چیئرمین شیخ رشید مرحوم کے مقابلے پہ میاں طفیل جماعت اسلامی کے امیدوار تھے، انہوں نے الیکشن اسٹنٹ بنانے کے لئے پارٹی کے کارکنوں پہ قرآن جلانے کا جھوٹا الزام لگا دیا ۔ مذہبی جنونیت کے پیرو کاروں نے پارٹی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کی ۔ طالبان، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور دیگر کالعدم تنظیموں نے مختلف ادوار میں PPPکارکنوں کو نشانہ بنایا۔ خاص طور پر خیبر پختونخوا، بلوچستان اور کراچی میں متعدد کارکن شہید ہوئے۔
مذہبی جنونیت نے پارٹی کا بیانیہ دبا دیا۔ میڈیا اور خطبوں میں PPPکو ’’ اسلام مخالف‘‘ جماعت کے طور پر پیش کیا گیا جس سے نظریاتی کارکن مایوس ہوئے۔ مذہبی شدت پسندی نے عوامی مباحثے میں PPPکی جمہوری و سماجی انصاف کی بات کو پچھلی صفوں میں دھکیل دیا۔ مذہبی جنونیت کی وجہ سے پارٹی کو کئی بار اپنے مذہبی روا داری اور پروگریسو موقف میں نرمی لانا پڑی اور بنیادی نظریہ دب گیا ۔ اس عمل نے پارٹی کو نظریاتی طور پر کمزور کر دیا اور ’’ روایتی سیاسی جماعت‘‘ بنا کر پیش کیا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی عوامی حمایت متاثر ہوئی۔ رہنما اور کارکن شہید ہوئے۔ نظریاتی بیانیہ کمزور پڑا۔ انتخابی ووٹ بینک متاثر ہوا۔ مذہبی شدت پسندی نے PPP جیسی روشن خیال، جمہوریت پسند اور عوامی حقوق کی علمبردار جماعت کو ایک طویل جدوجہد اور قربانیوں کے راستے پر مجبور کیا ہے۔
آج پاکستان پیپلز پارٹی از سر نو اپنے اصل بیانیے اور موقف پہ کھڑی ہو کر عوام کے حقوق کی جدوجہد کے لئے منظم ہو رہی ہے۔ لہذا چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ مضبوط کیجئے، پیپلز پارٹی کو مضبوط کیجئے ۔

جواب دیں

Back to top button