میٹرک کا رزلٹ، لمحہ کریہ

میٹرک کا رزلٹ، لمحہ کریہ
تحریر : رفیع صحرائی
صوبہ پنجاب میں میٹرک کا رزلٹ آ گیا ہے۔ مجموعی طور پر 29فیصد کے قریب طلباء فیل ہو گئے ہیں۔ ایوریج کے لحاظ سے ڈیرہ غازی خان پہلے نمبر پر رہا۔ وہاں طلبہ کی کامیابی کا تناسب 81فیصد جبکہ فیصل آباد بورڈ کا رزلٹ 80فیصد رہا۔ سب سے کمزور رزلٹ لاہور بورڈ کا ہے جہاں 65.32فیصد طلبہ پاس ہوئے۔ پورے پنجاب میں مجموعی طور پر قریباً71 فیصد طلبہ نے کامیابی حاصل کی۔ دس فیصد کے قریب طلبہ بمشکل پاس ہوئے ہیں۔ پاس ہونے والوں میں پچاس فیصد کے قریب ایسے ہیں جن کے نمبر 45سے 70فیصد کے درمیان ہیں۔
جو طلبہ بہت اچھے نمبر لے کر پاس ہوئے ہیں وہ تو خوش ہیں ہی، ان کے والدین اور بہن بھائی اور رشتہ دار بھی خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ سوشل میڈیا پر رزلٹ کارڈ کے ساتھ نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ کی تصویریں اپ لوڈ کر کے مسرت اور فخر کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف کم نمبر لینے والے طلبہ شرمندگی سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ یہ حقیقت میں پریشان نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے کوشش ہی نہیں کی تھی۔ بس وقتی طور پر شرمندہ ہیں۔
کچھ فیس بکی دانشور اور خود ساختہ ماہرینِ نفسیات بھی میدان میں کود پڑے ہیں جو والدین کو مشورہ دے رہے ہیں کہ کم نمبر لینے والے بچوں کو مت ڈانٹیں، ان کے دل پہلے ہی ٹوٹے ہوئے ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی اور دل جوئی کریں۔ انہیں تسلی دیں۔ آئندہ یہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔ دراصل ایسے نام نہاد دانشوروں نے ہی ان طلبہ کا بیڑا غرق کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میں نے بطور معلم محکمہ تعلیم میں 37سال سروس کی ہے۔ ان 37سال میں مجھے بارہا یہ تجربہ ہوا ہے کہ زیادہ نمبر نہ لینے والے طلبہ میں سے 98فیصد مستقل ناکام رہتے ہیں۔ یہ اعلیٰ نمبروں کے حصول کے لیے بار بار امتحان دیتے ہیں۔ بار بار ناکام ہوتے ہیں۔ مگر امتحان دینے سے باز نہیں آتے۔ ایسا نہیں ہے کہ انہیں امتحان دینے یا نمایاں کامیابی حاصل کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ دراصل یہ عادی کام چور، نکمے اور دھوکے باز ہوتے ہیں۔ یہ گھر والوں کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی دھوکہ دیتے ہیں۔ یہ ناکام ہونے کے بعد دوبارہ بڑی کامیابی کی ”لگن” میں کسی اکیڈمی، پرائیویٹ تعلیمی ادارے یا پھر سفارش کروا کر کسی گورنمنٹ سکول میں پرائیویٹ طور پر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنی زندگی کے مزید چند سال ضائع کر دیتے ہیں۔
زندگی کے بعد وقت ہی سب سے قیمتی چیز ہے جسے ہمارے غیر ذمہ دار اور نکمے طلبہ بے دریغ ضائع کر کے مستقل ناکامی سے دوچار رہتے ہیں۔ یہ پڑھائی کے نام پر سادہ لوح والدین کو دھوکہ دیتے ہیں۔ یہ اتنے بے حس اور سنگدل ہوتے ہیں کہ بوڑھے والد کے مزدوری کرتے ہوئے ہاتھوں کے چھالے انہیں نظر آتے ہیں نہ سلائی کر کے گھر کے اخراجات پورے کرنے کی تگ و دو کرتی ماں کی خمیدہ کمر ان کے ضمیر کو جھنجھوڑتی ہے۔
میٹرک کے طلبہ کی عمر عام طور پر پندرہ سے اٹھارہ سال کے درمیان ہوتی ہے۔ یہ سمجھداری کی عمر ہوتی ہے۔ اچھے برے کی تمیز کرنی آ جاتی ہے۔ اس عمر میں کم پڑھے لکھے یا ان پڑھ نوجوان مزدوری کرنے لگ جاتے ہیں، کسی مکینک، کاریگر، درزی یا نائی سے کام سیکھ چکے ہوتے ہیں۔ کارخانوں اور فیکٹریوں میں مزدوری کر رہے ہوتے ہیں۔ گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے خاندان کا سہارا بن جاتے ہیں۔ پندرہ سے بیس سال کا نوجوان روزانہ ایک ہزار روپے آسانی سے کما لیتا ہے۔ آفرین ہے ان غریب والدین پر جو اپنی اولاد کو پڑھا لکھا کر ایک کامیاب انسان بنانے کے جذبے کے تحت یہ ایک ہزار روپے فی بچہ روزانہ کا نقصان برداشت کر کے اپنے بچوں کو سکول بھیجتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ سخت محنت مزدوری کر کے دال روٹی کا خرچ بمشکل پورا کرنے والے یہ محنت کش اوکھے سوکھے ہو کر اپنے بیٹے کو موٹر سائیکل بھی لے دیتے ہیں اور روزانہ پٹرول کا خرچہ بھی دیتے ہیں۔ جیب خرچ اس کے علاوہ ہوتا ہے۔ یونیفارم، کتابوں اور کاپیوں کے اخراجات بھی شامل کر لیے جائیں تو اوسطاً دو سو روپے روزانہ ہر طالب علم پر خرچ ہو جاتا ہے۔ یعنی میٹرک میں زیرِ تعلیم ایک غریب گھرانے کا طالب علم اپنے گھر والوں کو بارہ سو روپے روزانہ میں پڑتا ہے۔ جن طالب علموں کو والدین کی اس قربانی کا احساس ہوتا ہے وہ اپنے گھر کے حالات بدلنے کے لیے محنت اور عزم کے ساتھ نمایاں کامیابی کے ساتھ تعلیمی مراحل طے کرتے ہیں۔ جس طرح کہ ایک سبزی فروش کے بیٹے نے لاہور بورڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کر لی ہے۔ جن طلبہ پر بے حسی اور بری صحبت کا غلبہ ہو جاتا ہے انہیں اپنے والدین کی محنت اور خواب نظر آتے ہیں نہ زندگی میں کچھ بننے کی لگن ان میں موجود ہوتی ہے۔ والد اپنے فرائض سے کبھی غافل نہیں ہوتا۔ وہ اولاد کے کھانے پینے، لباس اور تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے خراب صحت اور بیماری سے لڑ کر بھی گھر سے نکل پڑتا ہے۔ ان طلبہ کے ذمے صرف ایک ہی کام ہوتا ہے کہ انہوں نے پڑھنا ہے۔ موجودہ امتحانی سسٹم میں طلبہ 99.99فیصد نمبر بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی لاہور بورڈ میں ٹاپ کرنے والی بچی نے 99.45فیصد جبکہ دوم آنے والے دو طلبہ نے پورے 99 فیصد نمبر لیے ہیں۔ 95فیصد سے زائد نمبر لینے والوں کی طویل قطاریں آپ کو نظر آئیں گی۔ ایسے میں اچھے نمبر حاصل نہ کر سکنا نالائقی کی انتہا ہے۔ ایک کلاس روم میں بیٹھ کر، ایک جیسے ماحول اور یکساں اساتذہ سے پڑھ کر ایک ہی جگہ بیٹھ کر امتحان دینے والوں میں اگر چند طلبہ 90فیصد سے زائد نمبر لے جائیں اور کچھ طلبہ 15سے 50فیصد تک ہی محدود رہ جائیں تو اس میں ادارے یا اساتذہ کا قصور نہیں ہے۔ یہ سراسر ناکام ہونے والے طلبہ کی اپنی غیر ذمہ داری کا نتیجہ ہے۔ مان لیا کہ تمام انسانوں کی ذہنی صلاحیتیں، رجحانات اور قابلیت یکساں نہیں ہوتی۔ لیکن ہر بندے کو خود اپنی صلاحیتوں کا پتا تو ہوتا ہے نا۔ اگر طالب علم محسوس کرے کہ پڑھنا اس کے بس میں نہیں ہے تو والدین سے صاف صاف بات کرے کہ اسے کوئی ہنر سیکھنا ہے تاکہ اس کی مدد سے والدین کا سہارا بن سکے۔ والدین کو دھوکے میں کیوں رکھا جائے۔
یاد رکھیے! آج کل مسابقت اور مقابلے کا دور ہے۔ اے پلس گریڈ حاصل کرنے والے ہی تعلیمی میدان میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ معیاری تعلیمی اداروں میں داخلوں کا میرٹ بہت بلند ہو رہا ہے۔ بہترین سرکاری تعلیمی اداروں میں میرٹ پر داخلہ نہ ملنے کی صورت میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا رخ کیا جاتا ہے جن کی فیسیں ادا کرنا عام آدمی تو کیا کسی لوئر مڈل کلاس گھرانے کے بس سے بھی باہر ہو گیا ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ جن والدین کے بچوں کے نمبر میٹرک میں اچھے نہیں آئے وہ لنڈے کے دانشوروں اور نام نہاد موٹیویشنل سپیکروں کی باتوں میں آ کر ان بچوں کو چومنے چاٹنے کی بجائے مناسب گوشمالی کر کے انہیں بتائیں کہ آپ پر حرام کی کمائی خرچ نہیں کی گئی۔ پڑھائی آپ کی واحد ذمہ داری تھی جسے پورا کرنے میں ناکام رہے ہو۔ پڑھائی میں نمبر ہی اہم ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر اچھے اداروں میں داخلہ ملتا ہے اور سکالر شپ بھی مل جاتی ہے جو والدین پر سے مالی بوجھ کم کرتی اور آپ کی عزت بڑھاتی ہے۔ کوئی ادارہ بچے کی عزتِ نفس، مخفی ٹیلنٹ اور نام نہاد شخصیت کی بنیاد پر داخلہ نہیں دے گا۔ اگر پڑھنا ہے تو رزلٹ بھی دینا ہے۔ اب رہ گئی بچے کی نفسیات تو چند تھپڑ اور دو چار درجن گالیاں اس کی نفسیات کو ہمیشہ کے لیے درست کر دیں گی۔ وہ زندگی میں کامیابی حاصل کر لے گا۔ لاڈ کرو گے تو مزدوری یا سستی سیلز مینی سے آگے نہیں بڑھ پائے گا یا وہ چپراسی بن کر نمایاں کامیابی حاصل کرنے والوں کی میز صاف کر رہا ہو گا۔ پھوڑے کو ابتدا میں ہی کٹ لگا دیں تاکہ اس میں بھرا ہوا گندا مواد بہہ نکلے ورنہ یہ کینسر بن جائے گا۔ پیار کے ساتھ مار بھی ضروری ہے۔







