قیدی اور سہولت ساتھ ساتھ

قیدی اور سہولت ساتھ ساتھ
تحریر : امتیاز عاصی
کئی عشرے پہلے قیدیوں کو بیوی بچوں کے ساتھ رہنے کی سہولت کی تجویز کا آغاز ہوا جس پر عمل درآمد دو سال پہلے جزوی طور پر ہو چکا ہے ورنہ ایک وقت تھا قیدیوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں تھا۔ اگلے روز سوشل میڈیا پر میں دیکھ رہا تھا سابق وزیراعظم عمران خان کو وضو کے لئے گندا پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ اللہ کے بندوں جس جگہ عمران خان کو رکھا گیا ہے وہاں پانی کے بور کی سہولت میسر ہے جہاں سے جب اور جس وقت وہ چاہیں صاف پانی لے سکتے ہیں صرف انہیں اپنی قیدی مشقتی سے کہنا ہوتا ہے کہ موٹر چلا دو جس کے بعد پینے کا صاف پانی انہیں میسر ہوجا تاہے۔ خیر میں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔ آج کل جیلیں پرانے وقتوں کی جیلیں نہیں ہیں بلکہ قیدیوں کو ان کی سوچ سے زیادہ سہولتیں میسر ہیں۔ جیلوں میں قیدیوں کی فمیلز کو رکھنے کی سہولت کا آغاز 2023ء سے سنٹرل جیل فیصل آباد سے ہوچکا ہے اسی طرح سنٹرل جیل ملتان میں قیدیوںکو اپنی بیوی اور چھ سال سے کم عمر کے تین بچوں کو ساتھ 72گھنٹے رہنے کی سہولت پر عمل درآمد ہو چکا ہے۔ منصوبہ کے تحت فیصل آباد، ملتان، لاہور اور راولپنڈی کی سنٹرل جیلوں میں مقید عمر قیدی کے قیدیوں کو یہ سہولت مہیا کی جانی تھی جس میں سنٹرل جیل لاہور اور راولپنڈی کی سنٹرل جیل میں اس منصوبے پر عمل درآمد ستمبر تک ہو جائے گا جس کے بعد ان جیلوں کے قیدی بھی اپنی اہلیہ اور چھ سال سے کم عمر کے تین بچوں کے ساتھ قیام کر سکیں گے لیکن اس مقصد کے لئے انہیں ضلع کے ڈپٹی کمشنر سے منظوری لینا ہوگی۔ قیدیوں کے اہل خانہ سال میں ہر تین ماہ بعد قیدیوں کے ساتھ قیام کر سکیں گے۔ محکمہ جیل خانہ جات نے اس مقصد کے لئے چاروں جیلوں میں اڑتالیس کمروں پر مشتمل فمیلز سوٹ تعمیر کئے ہیں ایک اچھے ہوٹلز کی طرح تمام سہولتیں میسر ہوں گی۔ سینٹرل جیل لاہور اور راولپنڈی میں یہ منصوبے تکمیل کے آخری مرحلے میں ہے۔ سوال ہے ملتان اور فیصل آباد کی جیلوں میں دو سال قبل اس منصوبے پر عمل شروع ہو چکا ہے لیکن لاہور اور راولپنڈی کی جیلوں میں اس پروگرام پر عمل کیوں نہیں ہو سکا ہے۔ درحقیقت تعمیراتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جیل سپرنٹنڈنٹس کا اہل ہونا بھی ضروری ہوتا ہے اگر وہ کم تعلیم یافتہ اور دفتری امور سے نابلد ہو تو ایسے منصوبے کھٹائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم نے سنٹرل جیل راولپنڈی کے سنیئر سپرنٹنڈنٹ عبدالغفور انجم جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ انتظامی اور دفتری امور کے بھی ماہر جانے جاتے ہیں سے قیدیوں کے لئے فمیلز سوٹ کی تفصیلات جانے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا سنٹرل جیل فیصل آباد میں اس منصوبے پر عمل درآمد انہی کے دور میں ہو گیا تھا جب کہ انہوں نے چھ مزید پراجیکٹس شروع کئے جن میں قیدیوں کی فمیلز سے ملاقات کے علاوہ سولر پراجیکٹ کا آغاز کیا جس سے بجلی کی بچت کے ساتھ محکمہ کو مالی طور پر بھی بچت ہوئی۔ یوٹیلیٹی سٹورز سب سے پہلے ان کے ہوتے ہوئے سینٹرل جیل فیصل آباد میں کھولا گیا۔ قیدیوں کو تعلیمی سہولت کی فراہمی کے لئے ڈیجیٹل لیب کی سہولت شروع کی گئی۔ کئی ایکٹر اراضی جسے کلر زدہ قرار دے کر خالی چھوڑا گیا تھا اسے قابل کاشت بنایا گیا جہاں سے ضلع فیصل آباد میں پہلی مرتبہ ریکارڈ گندم کی پیدا وار ہوئی۔ عام طورپر جیلوں کے باہر انگریز کے دور کی ہزاروں ایکڑ زمین ہے جس پر جیلوں کے افسران اپنے مال مویشی کے لئے چارہ کاشت کرتے تھے مگر عبدالغفور انجم نے اسی زمین پر سبزیاں کاشت کرکے پنجاب کی چودہ جیلوں میں قیدیوں کے لئے مختلف سبزیوں کی پیداوار کی۔ اگر جیلوں کے تمام سپرنٹنڈنٹس اسی جذبے کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیں تو قیدیوں کے لئے مزید سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ کبھی قیدی اپنے اہل خاندان کے ساتھ بات چیت کرنے کو ترستے تھے اور غیر قانونی طور پر موبائل رکھا کرتے لیکن پی سی او کی سہولت کے میسر ہونے سے ان کا یہ بہت بڑا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ اب تو سزائے موت کے قیدیوں کو اپنے گھر والوں کے بات چیت کرنے کے لئے سزائے موت کے پہروں میں فون کی سہولت دے دی گئی ہے۔ عام حوالاتیوں اور قیدیوں کو جیلوں میں نصب پی سی او تک رسائی دی جاتی ہے لیکن سزائے موت کے قیدیوں کو حفاظتی نقطہ نظر سے سزائے موت کے سرکل سے باہر نہیں لے جایا جاتا بلکہ انہیں ان کے اپنے سرکلوں میں فون کرنے کی سہولت دے دی گئی ہے۔ کبھی قیدی روٹی کی شکایت کرتے تھے پنجاب حکومت نے گندم کی پسائی جیلوں کے اندر قیدیوں سے کرانے کا آغاز کر رکھا ہے قیدیوں کو خراب روٹی کی شکایت نہیں رہی ہے بلکہ انہیں نہایت عمدہ گرم روٹی مہیا کی جا رہی ہے۔ اگر ہم کئی عشرے پہلے کی جیلوں کا موجودہ دور کی جیلوں سے موازنہ کریں تو انسان حریت زدہ رہ جاتا ہے۔ ایک زمانے میں قیدی پینے کا پانی ململ کے کپڑے میں نتھار کر پیتے تھے لیکن پانی کے بور کی سہولت میسر آنے کے بعد قیدیوں کو بہت بڑا مسئلہ مستقل طور پر حل ہو چکا ہے۔ اگر ہم سزائے موت کے قیدیوں کو ملنے والی سہولتوں کی بات کریں تو آج کل تمام قیدی اپنے اپنے پہروں میں ڈھلائی ( واک) کرتے ہیں کئی سال پہلے سزائے موت کے قیدیوں کو ہتھکڑی لگا کر واک کے لئے ان کے سیلوں سے نکالا جاتا تھا۔ جیل ملازمین کے لئے ضروری ہوتا تھا جب قیدی واک کریں تو سزائے موت کے سرکلوں پر مامور اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کی موقع پر موجودگی ضروری ہوا کرتی تھی لیکن اب اس طرح کی پریکٹس پر عمل نہیں ہو رہا ہے نہ ہی قیدیوں کو ہتھکڑی لگائی جاتی ہے۔ سوال ہے قیدیوں کو ہتھکڑی کیوں لگائی جاتی تھی دراصل اس کا مقصد یہ ہوتا تھا قیدی ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی جھگڑا نہ کر سکیں۔ اب تو سزائے میں قیدیوں کی وہ تعداد نہیں ہے جو دو عشرے قبل ہوا کرتی تھی۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان آصف کھوسہ نے سزائے موت کی برسوں پرانی زیر التواء اپیلوں کا چند ماہ میں فیصلہ کرکے سزائے موت کے سرکل خالی کر دیئے تھے۔







