Aqeel Anjam AwanColumn

اشرافیہ ….سوال تو اٹھے گا؟؟؟؟


اشرافیہ ….سوال تو اٹھے گا؟؟؟؟
تحریر : عقیل انجم اعوان

وہ چمکتی گاڑی میں بیٹھا تھا، ہاتھ میں مہنگا فون تھا، گاڑی کی پچھلی سیٹ پر دو موبائل اور لیپ ٹاپ رکھا تھا، چہرے پر سکون تھا، جیسے زندگی میں کسی فکر کی گنجائش نہ ہو، جیسے اسے اس ملک کے حالات سے کوئی سروکار ہی نہ ہو۔ میں نے پوچھا حضور آپ کا تعلق کس طبقے سے ہے ؟، وہ ہنسا اور بولا اشرافیہ سے۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ اشرافیہ کیا ہوتی ہے ؟، وہ بولا بھائی جان وہی طبقہ جو اس ملک کو چلاتا نہیں بلکہ ہانکتا ہے، جو ہر حکومت کے ساتھ ہوتا ہے، لیکن کسی کا نہیں ہوتا، جو ہر دور میں فائدہ میں ہوتا ہے اور ہر بحران سے فائدہ اٹھاتا ہے، جس کے بچے باہر پڑھتے ہیں، جس کے بینک اکائونٹ سوئٹزر لینڈ میں ہوتے ہیں، جس کی سیاست پاکستان میں اور جائیدادیں دبئی، لندن ، نیویارک میں ہوتی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اشرافیہ میں کون کون شامل ہے؟ وہ بولا بڑے سیاست دان، بڑے بیوروکریٹ، بڑے جرنیل بڑے جج، بڑے بزنس مین، بڑے میڈیا مالکان اور کچھ بڑے مذہبی رہنما، سب اپنے اپنے دائرے کے شہنشاہ ہیں، سب ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں، مگر مراعات میں ایک دوسرے کے ہمدرد ہوتے ہیں۔ ان کے اختلاف صرف مائیک پر ہوتے ہیں اصل میں سب کا مفاد مشترکہ ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ سب مل کر کرتے کیا ہیں؟ بولا قانون بناتے ہیں اپنے فائدے کے لیے اور جب قانون بن جائے تو اسے توڑنے کا طریقہ بھی ساتھ ہی رکھتے ہیں۔ عوام کو اصولوں کی تقریریں سناتے ہیں خود اصولوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں عوام سے قربانی مانگتے ہیں خود ہر سہولت کے مزے لیتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اشرافیہ کا بجٹ کہاں سے آتا ہے ؟ بولا بھائی قومی خزانے سے تنخواہ لیتے ہیں پروٹوکول لیتے ہیں پلاٹ لیتے ہیں گاڑیاں لیتے ہیں سیکورٹی لیتے ہیں سفری الانس لیتے ہیں مفت علاج لیتے ہیں بچوں کی فیسیں ریاست دیتی ہے اور ٹیکس دیتے نہیں ہیں بلکہ بچاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ عام آدمی کا کیا بنتا ہے؟ وہ ہنسا اور بولا عام آدمی کا کام صرف قربانی دینا ہے بجلی کے بل دینا ہے مہنگائی جھیلنی ہے اور ووٹ ڈالنا ہے تاکہ اشرافیہ کو ایک نیا مینڈیٹ مل جائے۔ وہ عام آدمی جو بچوں کی فیس دینے کے بعد دوا کے لیے پریشان ہوتا ہے وہ جو صبح چھ بجے دفتر کے لیے نکلتا ہے اور شام چھ بجے لوٹتا ہے لیکن اس کی تنخواہ سے مہینہ نہیں چلتا۔ پوچھا کہ کیا اس ملک میں اشرافیہ قانون سے بالاتر ہے؟ وہ بولا جی ہاں قانون صرف غریب کے لیے ہوتا ہے امیر کے لیے رعایت ہوتی ہے غریب اگر چوری کرے تو جیل امیر اگر کرپشن کرے تو ضمانت وہ بھی بیماری کے نام پر۔ اگر کوئی کلرک رشوت لے تو میڈیا شور مچاتا ہے اگر کوئی وزیر اربوں کھا جائے تو نیب خاموش ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ کیا اس ملک میں انصاف ہے ؟ وہ بولا انصاف ہے مگر صرف طاقتور کے لیے اگر آپ اشرافیہ کا حصہ ہیں تو آپ کے لیے قانون نرم ہے عدالتوں میں تاریخیں ملتی ہیں جج صاحبان عزت سے پیش آتے ہیں صحافی تعریف کے پل باندھتے ہیں اور اگر آپ عام آدمی ہیں تو پھر آپ کو اپنی فائل کے لیے بھی سفارش چاہیے پولیس سے تحفظ کے لیے بھی رشوت دینی پڑتی ہے اور اگر آپ کسی زیادتی کا شکار ہو جائیں تو آپ سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ وہاں کیوں گئے تھے۔میں نے پوچھا کہ سیاست دان اشرافیہ میں کیسے آتے ہیں؟ وہ بولا سیاست دان اگر اپوزیشن میں ہوں تو انقلاب کا نعرہ لگاتے ہیں جیسے ہی حکومت ملے تو سب سے پہلے اپنی تنخواہیں بڑھاتے ہیں پروٹوکول لیتے ہیں سرکاری دورے کرتے ہیں اور پھر پانچ سال بعد عوام کو بتاتے ہیں کہ ہم نے قربانیاں دی ہیں۔ یہ سیاست دان اقتدار میں آ کر پبلک سروس نہیں کرتے بلکہ بزنس کرتے ہیں ووٹ لیتے ہیں وعدے کرتے ہیں مگر اصل مقصد صرف مفاد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ پوچھا کہ بیوروکریٹ کیا کرتا ہے؟ بولا وہ حکومتیں بناتا ہے گراتا ہے عوام کی فائل روکتا ہے یا آگے بڑھاتا ہے اپنے لیے پلاٹ لیتا ہے اور ریٹائرمنٹ پر بھی نوکری پکی ہوتی ہے ڈیپوٹیشن پر باہر جاتا ہے وہاں گاڑی گھر سہولت سب مفت ملتی ہے اور اگر بدعنوانی کرے تو انکوائری سالوں چلتی ہے سزا کبھی نہیں ہوتی۔پوچھا کہ جرنیل کیا کرتا ہے؟ بولا وردی میں ہو تو اقتدار میں برابر کا شریک ہوتا ہے ریٹائر ہو تو ڈی ایچ اے میں محل ملتا ہے نئی کمپنی کھولتا ہے سیکیورٹی کنسلٹنسی کا بزنس کرتا ہے اور عوام کو سبق دیتا ہے کہ قربانی دو ایثار کرو۔ پوچھا کہ جج صاحبان کا کیا کہنا ہے؟ وہ بولا ان کے لیے بھی گھر گاڑی سیکورٹی علاج سب کچھ ہے اور اگر دنیا سے چلے جائیں تو ان کی بیگم کو پنشن کے ساتھ ساتھ سرکاری گاڑی بھی ملتی ہے اور قبر کی دیکھ بھال بھی ریاست کرتی ہے۔ پوچھا کہ میڈیا کیا کر رہا ہے ؟ بولا میڈیا کچھ آوازیں عوام کی اٹھاتا ہے مگر اکثریت اشرافیہ کا ترجمان بن چکی ہے ٹاک شوز میں لڑائی دکھا کر ریٹنگ لیتے ہیں اشتہارات حکومتی لیتے ہیں تنخواہ مالکان سے لیتے ہیں اور ایجنڈا اشرافیہ کا چلاتے ہیں۔ پوچھا کہ کیا مذہبی اشرافیہ بھی ہے ؟ وہ بولا جی ہاں مولوی صاحب بھی اشرافیہ کا حصہ ہیں ان کے مدارس کے لیے فنڈ آتے ہیں ان کے خطبے سیاست دانوں کے حق میں ہوتے ہیں ان کے فتوے کمزور کے لیے سخت اور طاقتور کے لیے خاموش ہوتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا اشرافیہ کبھی اپنے مفادات چھوڑے گی؟ وہ بولا نہیں جب تک نظام یہی ہے جب تک قانون ان کے ہاتھ میں ہے جب تک فیصلے ان کے حق میں آتے ہیں تب تک یہ مراعات لیں گے اور عوام کو قربانی کا سبق دیں گے۔پوچھا کہ اس نظام کو بدلا کیسے جائے؟ وہ بولا جب عوام سوال کرنا شروع کرے جب میڈیا بکائو نہ ہو جب عدالتیں آزاد ہوں جب تعلیم سب کے لیے برابر ہو جب ووٹ کا تقدس بحال ہو جب عام آدمی کو یقین ہو کہ اس کی آواز سنی جائے گی تب نظام بدلے گا ورنہ تماشہ یونہی چلتا رہے گا۔ پوچھا کہ کیا کبھی اشرافیہ کو احساس ہوگا؟ وہ بولا شاید جب ان کے اپنے بچے عام اسکول میں پڑھیں شاید جب ان کی بیگمات سرکاری اسپتال میں علاج کرائیں شاید جب ان کے گھر لوڈ شیڈنگ ہو شاید جب انہیں لائن میں کھڑا ہونا پڑے شاید تب انہیں احساس ہو کہ ملک صرف ان کا نہیں سب کا ہے۔ پوچھا کہ کیا قائد اعظمؒ نے یہ ملک اشرافیہ کے لیے بنایا تھا ؟ کیا اقبالؒ نے یہ خواب صرف ان کے لیے دیکھا تھا ؟ کیا تحریک پاکستان میں صرف بڑے لوگ شریک تھے؟۔
نہیں جناب اس ملک کے لیے قربانی اس کسان نے دی جس نے اپنے کھیت چھوڑے، اس طالب علم نے دی جس نے جلوسوں میں حصہ لیا، اس عورت نے دی جس نے ہجرت کے وقت بچوں کو کھو دیا، اس مزدور نے دی جس نے سرحد پار کی اور سب کچھ لٹا دیا اور آج وہی عوام سوال کریں تو گستاخ۔ بولیں تو باغی، لکھے تو غدار کہا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان سب کا ہے تو فائدہ صرف اشرافیہ کو کیوں؟، اگر عوام قربانی دے رہے ہیں تو ثمرات صرف اشرافیہ کو کیوں ؟، اگر ملک بحران میں ہے تو قربانی صرف غریب کیوں دے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ایک دن ایسا آئے جب اشرافیہ کو بھی عوام کی طرح جینا پڑے، انہیں بھی لائن میں لگنا پڑے، انہیں بھی حساب دینا پڑے۔ ہو سکتا ہے وہ دن کبھی آئے، ہو سکتا ہے وہ دن ہم نہ دیکھ سکیں، لیکن سوال پوچھنا ہمارا حق ہے اور سوال پوچھتے رہنا ہماری ذمہ داری۔ کیونکہ اگر سوال نہ کئے گئے تو اشرافیہ کا راج قائم رہے گا اور باقی قوم محض تماشائی بنی رہے گی۔

جواب دیں

Back to top button