ColumnTajamul Hussain Hashmi

بند کمروں میں لاشوں کا سلسلہ

بند کمروں میں لاشوں کا سلسلہ

 

تجمل حسین ہاشمی
کراچی زندہ دل شہر میں جب بند کمرے سے کئی دن پرانی لاش برآمد ہوتی ہے تو یہ موت صرف ایک فرد کی نہیں ہوتی بلکہ پورے معاشرے کی بے حسی، اجنبیت اور تعلقات کی ٹوٹ پھوٹ کی موت ہے۔ یہ المیہ چیخ چیخ کر ہمیں بتا رہا ہے کہ ہماری دیواریں اونچی ہو چکی ہیں مگر دل خالی ہو گئے ہیں۔ ہم نے دروازے بند کیے اور دلوں پر قفل ڈال دئیے، وہ لوگ جو کبھی محلے کی رونق تھے آج فلیٹ کے دروازے کے پیچھے خاموشی سے دم توڑ دیتے ہیں اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی۔ ایک زمانہ تھا کہ محلے کی دادی سب بچوں کے نام جانتی تھی، ایک ماں سب گھروں کے دروازے کھٹکھٹا سکتی تھی، آج موبائل فون پر ہزاروں کانٹیکٹ رکھنے والا شخص اپنی عمارت کے برابر والے فلیٹ میں رہنے والے کوئی نہیں پہچانتا۔ مشرقی طرزِ زندگی کی سب سے بڑی طاقت یہی تعلق، یہی رابطہ اور یہی ’’ اپناءیت‘‘ تھی جس نے خاندان کو محفوظ، بزرگوں کو باوقار اور ہمسائے کو اہم بنا رکھا تھا، لیکن جب ہم نے مغربی انداز اپنایا، ذاتی سپیس، نجی زندگی اور ’’ پریشان نہ کرو‘‘ جیسے رویوں کو ترجیح دی تو پھر بند دروازوں کے پیچھے صرف خاموشی، بیماری اور موت نے جگہ بنا لی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر روزانہ لائکس اور ری ایکشنز لینے والا شخص تنہائی سے مر رہا ہوتا ہے اور کوئی اسے دیکھ بھی نہیں پاتا، یہی وقت ہے کہ ہم اپنی اصل زندگی کی طرف لوٹیں، رشتوں کو زندہ کریں، بزرگوں سے جڑیں، ہمسائے سے حال پوچھیں، محلے میں کمیٹیاں بنائیں، تنہا لوگوں کی خبر گیری کریں۔ مشرقی معاشرہ میں کبھی بوڑھوں کو اولڈ ہوم نہیں بھیجا جاتا تھا بلکہ ان کی باتوں میں حکمت اور موجودگی میں برکت تلاش کی جاتی تھی، اگر ہم نے اب بھی ہوش نہ لیا تو بند کمروں سے لاشیں ملنا معمول بن جائے گا اور ہم صرف تعزیت ہی کرتے رہیں گے، مشرقی طرزِ زندگی اپنائیں کیونکہ وہ صرف ایک کلچر نہیں بلکہ ایک حفاظتی ڈھال ہے جو انسان کو انسان سے جوڑ کر رکھتی ہے۔
سادہ سی بات ہے قابل فہم بات : اگر رشتے کو جوڑیں گے تو لاشیں نہیں، زندگی ملے گی۔ اپنے خوب صورت اللہ اور خوب صورت پیارے حضورؐ کی زندگی پر چلیں۔ حضورؐ سے محبت کریں ، حضورؐ کی زندگی اور آخرت میں ہمارے لئے رحمت ہیں، معاشی تنگ دستی انسان کو دین سے دور کر دیتی ہے، دین پر ثابت قدمی کیلئے ملکی معیشت کی بہتری ، انسانوں کو روزگار میں آسانی فرض ہے، گزشتہ روز بلوچستان میں دو جانوں کو قتل کر دیا گیا، یہ طاقتور گلی محلوں اور علاقوں میں بیٹھے کھلے عام انسانوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتے ہیں، اپنی رٹ کیلئے وہ کچھ کرتے ہیں جس کی پاکستان آئین میں کوئی اجازت نہیں، بلوچستان میں کھلے عام لوگوں کے سامنے گولیوں چلا دی گئیں، کئی دن تک سرکاری اداروں کو خبر تک نہ ہوئی یا وہ خبر رکھنا ہی نہیں چاہتے تھے، پھر اسی سوشل میڈیا جس کو حکومتی حلقوں میں قصور وار اور برائی کی جڑ سمجھا جاتا ہے اس کے ذریعے ایک ایسا ظلم سامنے آیا جس نے پوری دنیا میں ریاست پاکستان کی ساکھ کو مجروح کیا۔ سر عام مرد اور عورت کو گولیوں کا نشانہ بنانا حکومت بلوچستان کی کمزوری کا واضح ثابت ہے، ایسے واقعات ملک میں بے چینی، افراتفری میں اضافہ کرتے ہیں، پاکستان اسلامی ریاست ہے، بیرونی دبائو میں اضافہ ہوتا ہے، ایک خاص سوچ کو تقویت دی جا رہی ہے اور ایسے اس کی آبکاری کرتے ہیں، ریاست پاکستان کو ایسے لوگوں کے خلاف کھلے عام کارروائی کرنی چاہئے، بلوچستان کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کو حل نکلنا ہو گا۔ اگر انسانی جانوں کے قاتل وکٹری کا نشانہ بنا کر باہر نکل آئیں گے تو پھر ریاست کہاں کھڑی ہو گی۔ کئی سو افراد پنجابی ہونے کی بنیاد پر قتل ہو رہے ہیں، سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس وقت ملکی اداروں کو ’’ ہارڈ سٹیٹ ‘‘ کی ضرورت ہے، ہارڈ سٹیٹ کی واضح تشریح کی جا چکی ہے، اداروں کو رٹ قائم کرنی ہو گی، ایسے نظام نہیں چلے گا جس طرز پر چلایا جا رہا ہے، مفادات سے ہٹ کر ذاتی اختلافات سے ہٹ کر ملکی مفادات کی بنیاد پر فیصلے کرنے پڑیں گے، طاقتوروں نے گلی محلوں میں اپنی عدالتیں لگانا شروع کی ہوئی ہیں، علاقائی ادارے سیاسی اور وڈیرہ شاہی کے آگے کمزور ہیں، ریاست کو کمزور نہ ہونے دیں ، اس وقت سخت نیشنل ایکشن پلان پر عمل کو ضرورت ہے۔

جواب دیں

Back to top button