سوشل ڈیموکریسی، کیوں نہیں؟

سوشل ڈیموکریسی، کیوں نہیں؟
روشن لعل
جس حد تک مارکسزم کو سمجھا، اس سے یہی سیکھا کہ صرف اور صرف جدلی مادیت کے علم کی مدد سے ارتقا اور تبدیلی کے قوانین کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔ جدلی مادیت کے مطالعہ سے ہی یہ واضح ہوتا ہے کہ دنیا پہلے سے تیار اور طے شدہ افعال کا منبع نہیں بلکہ یہاں ہر آج طے کرتا ہے کہ آنے والا کل کیا ہوگا۔ یہ ایسا متواتر و مسلسل عمل ہے جس میں ماضی بن جانے والی اشیا مستقبل کی راہیں متعین کرتی رہتی ہیں۔
جو لوگ 1960اور 1970کی دہائی میں مارکسزم کی طرف راغب ہوئے اور جنہوں نے اس نظریہ کی روشنی میں سائینٹفک سوشلزم کو اپنا نصب العین بنایا انہوں نے دولت و ثروت کے حصول کی دوڑ میں شامل ہونے کی بجائے اپنی جوانیاں اس نظریے کا نفاذ اور ابلاغ کرنے کی کوششوں میں صرف کر دیں۔ آج ان لوگوں میں سے کئی ایسے ہیں جو سوشل ڈیموکریسی کی طرف راغب ہو چکے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کے لیے کچھ سکہ بند انقلابیوں نے یہ رویہ اختیار کر رکھا ہے کہ انہوں نے سوشل ڈیموکریسی کی بات کرنے والوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو جدلی مادیت کی روشنی میں سمجھنے کی بجائے انہیں طرح طرح کے طعنے دینے شروع کر دیئے ہیں۔
سرمایہ داری نظام نے صدیوں سے چلے آرہے غلام داری نظام کو تو ختم کر دیا لیکن تبدیلی کی شکل میں جو کچھ نافذ کیا اس میں انسانوں کے استحصال کا عنصر حسب سابق شامل رہا۔ کارل مارکس نے سائنٹفک فارمولے کی مدد سے نہ صرف عام لوگوں پر سرمایہ دارانہ نظام کے بد ترین استحصال کو آشکار کیا بلکہ انہیں اس سے نجات کی ایسی راہ بھی دکھائی جو غیر طبقاتی سماج کے قیام کی طرف جاتی ہے۔ غیر طبقاتی سماج کی منزل کی طرف مارکس نے راستے کے کئی پڑائو بھی واضح کیے مگر یہ پڑائو نظر انداز کرتے ہوئے روس میں براہ راست انقلاب برپا کر دیا گیا۔ یہ انقلاب ستر برس تک قائم رہا۔ ان ستر برسوں کے دوران وہاں کے لیڈروں کے رویوں کو متضاد اور سازشی قرار دیتے ہوئے یورپ اور امریکہ میں بہت کچھ کہا گیا مگر سوویت یونین میں شد ت کے ساتھ یہ دعویٰ کیا جاتا رہا کہ وہاں غیر طبقاتی سماج قائم کیا جا چکا ہے۔ وہاں کے مبینہ غیر طبقاتی سماج پر نقطہ چینی کرتے ہوئے اگر بیرونی دنیا میں جارج اورول جیسے سوشلسٹوں نےAnimal Farm جیسی کتابیں لکھیں تو سویت یونین کے اندر عوام نے بھی اس سماج کو اپنے لیے غیر اطمینان بخش تصور کیا ۔ وہاں کے عوام کے غیر مطمئن ہونے کی وجہ سے ہی غیر طبقاتی سماج کا حامل قرار دیا گیا سوویت یونین، پاش پاش ہوگیا ۔ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد بننے والے آزاد ممالک میں ،1992سے آج تک کہیں بھی ، عوام نے ایسے غیر طبقاتی سماج کے لیے اپنے میلان کا اظہار نہیں کیا جہاں ان کی شخصی آزادیاں سلب ہو سکتی ہوں۔ سوویت یونین کا ٹوٹنا اور اس کے ٹوٹنے کے بعد وہاں کے عام لوگوں کے رویے اپنے اندر بہت سے سوالات لیے ہوئے ہیں۔ان سوالوں میں سب سے بڑا سوال تو یہی ہے کہ کیا غیر طبقاتی قرار دیا گیا کوئی سماج اس الزام سے پاک ہو سکتا ہے کہ وہاں ہر انسان سے یکساں اور مساوی سلوک روا رکھنا یقینی بنایا جا سکتا۔ موجودہ دور میں تقریباً ہر کسی پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ آج کا انسان کسی طور بھی اپنی شخصی آزادیوں اور جمہوری حقوق پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں اس وضاحت کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ پرولتاری آمریت کی موجودگی میں جمہوری عمل کی شکل کیا ہوگی ؟ کیا پرولتاری آمریت کے لیے وضع کیا گیا سیاسی ڈھانچہ اور جمہوری عمل ایک ساتھ چل سکتے ہیں؟ جمہوری عمل کے دوران تو تبدیلیاں مسلسل رونما ہوتی رہتی ہیں، کیا جمہوری عمل کے تسلسل میں کسی خاص معاشی ڈھانچے کے مستقل بنیادوں پر قائم رہنے کی ضمانت دی جاسکتی ہے؟ اگر سوشلسٹ معاشی ڈھانچہ مستقل بنیادوں پر قائم نہ رہے توکیا اس سے متوقع نتائج حاصل کرنے کی امیدیں وابستہ رکھی جاسکتی ہیں؟
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سرمایہ داری نظام اپنی بد ترین شکل میں سامنے آیا مگر اس بد ترین نظام کے ختم ہونے کے امکانات اب بھی کہیں نظر نہیں آتے۔ سوشلزم کو آئیڈیل قرار دینے والے سرمایہ داری نظام میں کیڑے تو بہت نکالتے ہیں مگر کہیں بھی اس نظام کے لیے چیلنج نہیں ہیں۔ ایسے حالات میں سرمایہ داری نظام کے اندر رہتے ہوئے جبر، استحصال اور لوٹ کھسوٹ کی اگر کسی نے مخالفت کی ہے تو وہ سوشل ڈیموکریٹس ہیں۔ آج کے دور کی حقیقت یہ ہے کہ سوشل ڈیموکریٹ تو انسانوں کے حقوق کے لیے عملی سیاست میں سرگرم ہیں لیکن سوشلزم کو آئیڈیل قرار دینے والوں کی حالت ان لوگوں کی سی ہے جو انسانوں کے عصری مسائل سے بے نیاز ہو کر محض مذہبی کتابوں کے مطالعہ سے ہی تمام آفات سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی جدلیات اور ارتقا کے نظریے کو سمجھتا ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ سوشل ڈیموکریسی کو حرف آخر سمجھ کر یہ کہے کہ سماجی و معاشی مسائل کا اس کے علاوہ دوسرا کوئی حل نہیں ہے۔ مگر سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد مبینہ غیر طبقاتی سماج پر اٹھائے جانے والے سوالوں کے تسلی بخش جواب سامنے نہ آنے کی وجہ سے اب ایسے سماج کے قیام کے نظریہ میں خاص طور پر نوجوانوں کے لیے 1992سے پہلے جیسی کشش باقی نہیں رہی۔ ایسے حالات میں جس سیاسی راستے کا فی الوقت انتخاب کیا جاسکتا ہے وہ سوشل ڈیموکریسی ہے۔
آج کی صورتحال یہ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے پودوں اور جانوروں کی دس لاکھ سے زیادہ اقسام ہمیشہ کے لیے ختم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرمایہ دارانہ مفادات ہی ماحولیاتی آلودگی کے پیدا ہونے اور اس میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنے والے سرمایہ دارانہ مفادات کی مذمت ضروری ہے مگر کیا یہ مناسب ہے کہ سرمایہ داری نظام کے خاتمے کے لیے عام لوگوں کے کسی ایسے انقلاب کی طرف راغب ہونے کا انتظار کیا جائے جس میں فی الوقت ان کی کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی یا پھر انہیں ایسے سوشل ڈیموکریٹس کے ساتھ چلنے کی دعوت دی جائے جن کا پرزور مطالبہ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کے پروگرام پر عمل کیا جائے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں رکن ممالک سے صرف ماحولیاتی آلودگی پر کنٹرول ہی نہیں بلکہ انسانی حقوق اور انسانوں کی بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی جیسے پروگراموں پر عمل کا اصرار بھی کیا گیا ہے۔ آج دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے جہاں لوگوں کو انقلاب کی دعوت دی جارہی ہے وہاں یہ ہو رہا ہے کہ ریاستیں اقوام متحدہ کے چارٹر کو تسلیم کرنے باوجود اس پر عمل درآمد کے لیے آمادہ نظر نہیں آتیں۔ یاد رہے کہ کسی ریاست کی طاقت اور قوانین کی موجودگی میں ریاستی ڈھانچے کو توڑنے کی اجازت تو نہیں ہے مگر اسی ریاست کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق انسانی حقوق اور انسانوں کی بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی پر مجبور کرنے کے لیے جدوجہد کا جواز ضرور موجود ہے۔ جو جواز موجود ہے اس سے فائدہ اٹھانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ راہ عمل کے طور پر سوشل ڈیموکریسی کا انتخاب کیا جائے۔





