قبائلی نظام کی زنجیریں

قبائلی نظام کی زنجیریں
قادر خان یوسف زئی
یہ کوئی کہانی نہیں، نہ کوئی افسانہ، بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہمارے معاشرے کے سینے پر داغ بن کر چمکتی ہے۔ ایک ایسی حقیقت جو صدیوں سے انسانی خون سے لکھی جا رہی ہے، جہاں عزت اور غیرت کے نام پر انسانیت کو ذبح کیا جاتا ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو اپنی جڑوں میں اتنا گہرا پیوست ہے کہ اس نے تعلیم، شعور، اور جدیدیت کے ہر امکان کو اپنی گرفت میں جکڑ رکھا ہے۔ عزت اور غیرت، یہ دو لفظ جو ہمارے معاشرے کی رگ رگ میں سمائے ہیں، لیکن ان کی قیمت ہم اپنی عورتوں کی جانوں سے، اپنے مردوں کے ضمیر سے، اور اپنی اجتماعی انسانیت سے ادا کر رہے ہیں۔ یہ رسومات، جو غیرت کے نام پر ناجائز کو جائز قرار دیتی ہیں، کوئی محض روایت نہیں، بلکہ ایک ایسی سماجی بیماری ہیں جو ہماری روح کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔
عزت اور غیرت کے تصورات ہمارے معاشرے میں اس قدر گہرے ہیں کہ ان کی تشریح کرنا ایک تیز دھار چاقو پر چلنے کے مترادف ہے۔ عزت ایک اجتماعی وقار ہے، جو خاندان، برادری، اور معاشرے کی نظر میں ایک شخص یا گھرانے کی قدر و منزلت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ وہ معیاری پیمانہ ہے جس پر خاندان کا تشخص ٹکا ہوتا ہے، اور اس کی حفاظت کے لیے پورا معاشرہ سر دھڑ کی بازی لگا دیتا ہے۔ غیرت، دوسری طرف، ایک ذاتی جذبہ ہے، جو مردانہ غرور، خودی، اور خود داری سے جڑا ہے۔ لیکن اس نظام نے ان دونوں کو ایک ایسی گرہ میں باندھ دیا ہے کہ ان کی لکیر خون سے لکھی جاتی ہے۔ عزت کو خاندانی وقار سے جوڑ دیا گیا، اور غیرت کو اس کی حفاظت کا ذمہ دار بنا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک عورت کی خود مختاری، اس کا اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق، یا ایک مرد کی اپنی مرضی سے شادی کی خواہش۔ یہ سب غیرت کے نام پر قربان کر دئیے جاتے ہیں۔ یہ کوئی اتفاقیہ نہیں، بلکہ صدیوں کی سماجی تربیت کا نتیجہ ہے، جہاں عورت کو عزت کا نشان بنایا گیا، اور مرد کو اس کی حفاظت کا ٹھیکیدار سمجھا جاتا ہے۔
یہ نظام، جو اپنی اصل میں شاید کبھی اتحاد اور بھائی چارے کا علمبردار رہا ہو، آج ایک ایسی مشینری بن چکا ہے جو انسانی جانوں کو پیس رہی ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کی رسومات، جو پاکستان سمیت دنیا کے کئی حصوں میں رائج ہیں، اس نظام کی سب سے بھیانک شکل ہیں۔ یہ رسومات کوئی ایک خطہ یا قوم تک محدود نہیں، بلکہ مختلف شکلوں میں عالمی سطح پر موجود ہیں۔ دنیا بھر میں غیرت کے نام پر قتل کی رسومات مختلف شکلوں میں موجود ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے کچھ حصوں میں، عزت کے نام پر قتل ایک ایسی روایت ہے جو خاندانی شرف سے جڑی ہے۔ یہاں عورتوں کو خاندانی اصولوں کی خلاف ورزی پر، حتیٰ کہ عصمت دری کا شکار ہونے پر بھی، قتل کر دیا جاتا ہے تاکہ خاندان کی ’’ عزت‘‘ بحال رہے۔ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک، جیسے کہ بھارت، بنگلہ دیش، اور سری لنکا میں بھی ایسی رسومات موجود ہیں، جہاں ذات پات، خاندانی شرف، یا معاشرتی اصولوں کی خلاف ورزی کو موت کی سزا سے جوڑا جاتا ہے۔ افریقہ کے کچھ حصوں میں، قبائلی روایات کے تحت عورتوں کو خاندانی عزت کی حفاظت کے نام پر قربان کیا جاتا ہی۔ یہ رسومات، اگرچہ ناموں اور شکلوں میں مختلف ہیں، لیکن ان کا جوہر ایک ہی ہے: عورت کو عزت کا نشان بنانا، اور اس کی جان کو خاندانی وقار کی قیمت پر قربان کر دینا۔
یہ رسومات کوئی انفرادی فعل نہیں، بلکہ ایک منظم سماجی ڈھانچے کا حصہ ہیں۔ جرگے، پنچایتیں، یا قبائلی رہنما ان فیصلوں کے پیچھے ہوتے ہیں، جو قانون کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں، لیکن ان کی طاقت قانون سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ یہ طاقت کہاں سے آتی ہے؟ یہ خوف، معاشی استحصال، اور صدیوں پرانی روایات کا نتیجہ ہے۔ جرگے کے فیصلے نہ صرف غیرت کے نام پر قتل کو جائز قرار دیتے ہیں، بلکہ وہ عورتوں کو معاشی اور سماجی طور پر کمزور رکھنے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ کچھ علاقوں میں، غیرت کے نام پر قتل کے بعد عورت کی لاش کو خاندان کے حوالے کر دیا جاتا ہے، گویا یہ کوئی تحفہ ہو۔ یہ کوئی روایت نہیں، بلکہ ایک ایسی وحشت ہے جو انسانی ضمیر کو شرمسار کرتی ہے۔
یہ نظام کیوں اتنا مضبوط ہے؟ اس کی جڑیں تاریخی، معاشی، اور سماجی عوامل میں پیوست ہیں۔ یہ نظام، جو کبھی بھائی چارے اور اجتماعی فیصلوں پر مبنی تھا، استعماری دور میں ایک استحصالی ڈھانچے میں تبدیل ہو گیا۔ برصغیر میں انگریزوں نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے مقامی رہنمائوں کو طاقت دی، زمینوں کے مالکانہ حقوق دئیے، اور انہیں اپنے علاقوں میں مکمل اختیار دیا۔ یہ رہنما، جو کبھی قبائلی سردار یا مقامی لیڈر تھے، اب زمینوں کے مالک اور قانون کے ٹھیکیدار بن گئے۔ یہ نظام، جو زمین، طاقت، اور معاشی استحصال پر مبنی تھا، آج بھی اپنی جڑیں مضبوط کیے ہوئے ہے۔ یہ رہنما نہ صرف زمینوں کے مالک ہیں، بلکہ وہ اپنے علاقوں کی اخلاقیات، قانون، اور عدالت کے بھی سربراہ ہیں۔ ان کی طاقت کا راز غربت، جہالت، اور قانون کی کمزوری میں ہے۔ جہاں تعلیم نہیں، جہاں قانون کی گرفت کمزور ہی، وہاں یہ نظام پھلتا پھولتا ہے۔ آج کا دور، جہاں انسانی حقوق، مساوات، اور انصاف کی باتیں ہوتی ہیں، اس نظام کو قبول کرنے سے قاصر ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کی رسومات کو جدید قانون، میڈیا، اور انسانی حقوق کے کارکن مسترد کرتے ہیں۔ لیکن یہ رسومات اب بھی کیوں زندہ ہیں؟ کیونکہ یہ نظام ایک ایسی سماجی ساخت پر قائم ہے جو خوف اور طاقت سے چلتی ہے۔ قانون کی بالادستی کے بغیر، یہ جرگے اور رہنما اپنی مرضی کے فیصلے کرتے رہتے ہیں۔ تعلیم کی کمی، غربت، اور سماجی دبا اس نظام کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔ عورتوں کو تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے، انہیں معاشی طور پر کمزور کیا جاتا ہے، اور ان کی آواز کو دبایا جاتا ہے۔ مرد بھی اس نظام کے شکار ہیں، کیونکہ غیرت کا یہ زہر انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
اس نظام سے نجات کا واحد راستہ تعلیم، شعور، اور قانون کی بالادستی ہے۔ بدقسمتی سے، ان علاقوں میں تعلیم تک رسائی اب بھی ایک خواب ہے۔ غیرت اور عزت کے نام پر قتل کی رسومات کوئی روایت نہیں، بلکہ ایک گناہ ہیں۔ یہ نظام، جو انسانی جانوں کو پیس رہا ہے، کوئی مقدس ڈھانچہ نہیں، بلکہ ایک ایسی زنجیر ہے جو ہمیں ماضی کے اندھیروں میں جکڑے ہوئے ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اس داغ کو دھوئیں، جو ہمارے معاشرے کے چہرے پر لگا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم ایک ایسی صبح کا خواب دیکھیں جہاں عزت سب کی ہو، غیرت خون کی پیاسی نہ ہو، اور انسانیت سب سے مقدم ہو۔







