Column

بھارت کو پھر بامعنی بات چیت کی پیشکش

بھارت کو پھر بامعنی بات چیت کی پیشکش
پاکستان کے قیام کو 78برس ہونے کو ہے۔ اس دوران وطن عزیز دُنیا کے تمام ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے اور اس حوالے سے اس کی کوششیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ دُنیا کے سبھی ملکوں کے ساتھ پاکستان کے بہتر اور اچھے تعلقات ہیں، سوائے چند ایک ممالک کے۔ بھارت بھی ایک ایسا ہی ملک ہے، جس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کبھی مثالی نہیں رہے۔ پاکستان نے ہر مرتبہ خطے اور یہاں بسنے والے عوام کی بہتری کے لیے بھارت کے ساتھ تعلقات کو اچھی سطح پر لانے کی کوششیں کیں، لیکن بھارتی حکومتوں کی ہٹ دھرمیوں کے سبب ایسا کبھی نہ ہوسکا۔ وہ پاکستان کی امن کی خواہش کو کمزوری سمجھتا رہا، لیکن جب بھی اُس نے کوئی ایڈونچر کرنے کی کوشش کی تو ہر مرتبہ منہ کی کھائی اور رُسوا ہوا۔ بھارت ہمیشہ پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں میں لگا رہا۔ ملک عزیز کو نقصان پہنچانے کے لیے تمام تر مذموم حربے اور ہتھکنڈے آزمائے۔ کئی جنگیں مسلط کیں اور ہر بار دندان شکن جواب ملنے پر اپنی اوقات میں واپس آیا۔ زیادہ دُور جانے کی ضرورت نہیں رواں سال مئی میں بھارت غرور اور تکبر کی انتہائوں پر پہنچ کر پاکستان کو تباہ و برباد کرنے کی بڑھکیں مار رہا تھا۔ بلاجواز حملے کرکے شہری آبادی کو نشانہ بنارہا تھا۔ پاکستان نے دفاع کے دوران ہی بھارت کے 6جدید طیارے مار گرائے۔ ڈھیروں اسرائیلی ساختہ بھارتی ڈرون مار گرائے۔ پاکستان نے جب ’’ آپریشن بُنیان مرصوص’’ کا آغاز کیا تو چند ہی گھنٹوں میں بھارت بڑی تباہی سے دوچار ہونے کے بعد جنگ بندی کے لیے امریکا کی منتیں کرتا نظر آیا۔ بھارت دُنیا بھر میں پاکستان کے امیج کو تباہ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتا چلا آرہا ہے، لیکن اس محاذ پر بھی اُس کو سبکی ہی ملتی ہے۔ اپنے زرخرید غلاموں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کراتا ہے۔ اس کے پالے ہوئے فتنہ الہندوستان بے گناہ شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کو تسلسل سے نشانہ بنارہے ہیں، جن کے خلاف ہماری سیکیورٹی فورسز برسرپیکار ہیں اور جلد ہی ان کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوں گی۔ جنگ مئی میں دُنیا بھر میں بھارت کا تشخص اُس کی اوچھی حرکتوں کی وجہ سے برباد ہوکر رہ گیا ہے، ذلت اور رسوائی اُس کا مقدر بنی ہے، جھوٹ کے بل پر کامیابی سمیٹنے کے متمنی بھارت کے اوسان خطا ہوگئے ہیں۔ دُنیا نے بھارت کو بُری طرح مسترد کردیا ہے۔ بھارت کا رویہ جنگ مئی میں ہزیمت کے کچھ روز بعد سے پھر سے کسی طور مناسب قرار نہیں پاتا۔ اُس کی طرف سے مسلسل لفظی گولہ باریاں جاری ہیں۔ پاکستان اب بھی تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس کو تصفیہ طلب مسائل پر بامعنی مذاکرات کی پیشکش کی گئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب مسائل پر بامعنی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ وزیراعظم سے برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ نے ملاقات کی اور پاک برطانیہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا۔ ملاقات کے دوران وزیراعظم نے کنگ چارلس سوئم اور وزیراعظم کیئر اسٹارمر کے لیے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اس سال کے اواخر میں برطانیہ کی قیادت کے ساتھ اپنی ملاقات کے منتظر ہیں۔ انہوں نے برطانوی حکومت کی جانب سے پی آئی اے کی پروازوں کی بحالی کے حالیہ فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس مثبت پیش رفت سے برطانوی پاکستانی کمیونٹی کو درپیش مشکلات کو دُور کرنے کے ساتھ لوگوں کے درمیان تبادلے کو بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔ انہوں نے اس سلسلے میں ہائی کمشنر کے مثبت کردار کو خاص طور پر سراہا۔ وزیراعظم نے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان دوطرفہ تعاون کی مثبت رفتار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان حال ہی میں ہونے والی تجارتی مذاکرات باہمی طور پر فائدہ مند ثابت ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی برطانیہ کے ساتھ قریبی تعاون کر رہا ہے، جس کی اس وقت پاکستان کے پاس صدارت ہے۔ ملاقات میں جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی علاقائی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نے پاک بھارت کشیدگی میں کمی کے لیے برطانیہ کے کردار کو سراہتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تمام تصفیہ طلب مسائل پر بامعنی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ ہائی کمشنر نے وزیراعظم کو اپنے حالیہ دورہ لندن کے بارے میں بتایا جہاں انہوں نے پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تعلقات کو بڑھانے کے حوالے سے وسیع مشاورت کی۔ ہائی کمشنر نے وزیراعظم کے وژن اور قیادت میں گزشتہ ڈیڑھ سال میں حکومت کی معاشی کارکردگی کو سراہا، جس سے تمام اہم میکرو اکنامک اشاریوں میں نمایاں بہتری آئی۔ وزیراعظم نے برطانوی ہائی کمشنر کی ملاقات خاصے خوش گوار ماحول میں ہوئی ہے۔ پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات خاصے گہرے اور کئی عشروں پر محیط ہیں۔ پاکستان کے شہری بڑی تعداد میں برطانیہ میں مقیم اور وہاں کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ آگے چل کر یہ تعلقات مزید مضبوطی اختیار کریں گے۔ بھارت پر خطے کا چودھری بننے کا خبط سوار ہے اور وہ کسی طور امن کا خواہاں نہیں۔ اس کے باوجود وزیراعظم شہباز شریف نے کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے امن کی جانب بڑی پیش رفت کی ہے، اُسے مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دی ہے، اب یہ بھارت پر منحصر ہے کہ وہ اس پیشکش کو قبول کرتا ہے یا روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ بھارت کے حق میں بہتر یہی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے اللہ واسطے کے بیر کو ہمیشہ کے لیے ختم کرے۔ اپنے وسائل مہنگے ترین ہتھیاروں کی خرید پر خرچ کرنے کے بجائے اپنے عوام کی حالتِ زار بہتر بنائے، کیونکہ جنگِ مئی میں ثابت ہوچکا ہے کہ مہنگے اور جدید ہتھیار کسی کام نہیں آتے۔ جنگ جذبے سے لڑی اور جیتی جاتی ہیں، جس کا بھارتی فوج میں شدید فقدان پایا جاتا ہے۔ بہتری اسی میں ہے کروڑوں بھارتی عوام کی زندگی کو بہتر بنایا جائے۔ اُنہیں بیت الخلائ ایسی سہولتیں بہم پہنچائی جائیں۔ کروڑوں بھارتی سڑکوں پر سوتے ہیں، اُن کو سائبان فراہم کیے جائیں۔
چینی کی مہنگے داموں فروخت
پچھلے سات ماہ مسلسل قیمتیں بڑھنے کے بعد چینی کا بحران اب شدت اختیار کر چکا ہے۔ گزشتہ دنوں حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرتے ہوئے چینی کی ایکس مل قیمت اور بازاروں میں دستیابی کے نرخ مقرر کیے تھے، لیکن ملک کے کسی بھی گوشے میں چینی حکومتی مقرر کردہ نرخوں پر دستیاب نہیں۔ عوام مہنگے داموں اور اکثر مقامات پر 200 روپے فی کلو چینی خرید رہے ہیں۔ مصنوعی قلت پیدا کرکے بہت ساروں نے اپنی تجوریاں دہانے تک بھرلی ہیں۔ اس بار بھی عوام کی جیبوں پر بڑی نقاب لگانے والے محفوظ نظر آتے ہیں۔ حکومتی دعوئوں کے باوجود چینی کی173روپے کلو پر فروخت کو یقینی نہیں بنایا جاسکا اور چینی 200روپے فی کلو ہی فروخت کی جارہی ہے، مقدمات اور جرمانے کے خوف سے بعض علاقوں میں دکان داروں نے چینی کی سرے سے فروخت ہی بند کردی ہے، انتظامیہ کی جانب سے چینی کی مہنگے داموں فروخت کے خلاف کریک ڈائون بھی جاری ہے اور مختلف شہروں میں کارروائیاں کرتے ہوئے زائد قیمت پر چینی فروخت کرنے والے دکان داروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف مقدمات درج کر کے جرمانے عائد کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 24گھنٹے میں 2950دکانداروں کے خلاف کارروائیاں کر کے 28افراد کو گرفتار کیا گیا،182افراد کے خلاف مقدمات درج کئے گئے، 2740افراد کو جرمانے عائد کئے گئے۔ چینی مہنگے داموں فروخت کرنے والوں کے خلاف کریک ڈائون احسن قدم ہے۔ پورے ملک میں ان کوششوں میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ بہت ہوچکا، اب عوام کو چینی اور دیگر اشیاء کے مصنوعی بحرانوں سے نجات دلانے کی جانب قدم بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ چینی کے اس سنگین بحران کے ذمے داروں کا تعین کیا جائے۔ ان کو پکڑا جائے جنہوں نے اس بحران کے ذریعے عوام کی جیبوں پر بڑا ڈاکہ ڈالا اور اپنی دولت و ثروت میں بے پناہ اضافے کیے، ان کو ہر صورت عبرت ناک سزائیں دی جائیں کہ آئندہ یہ چینی کا مصنوعی بحران پیدا کرنے کی جرات نہ کر سکیں۔

جواب دیں

Back to top button