صرف گولی مارنے کی اجازت ہے، شرم مگر تم کو نہیں آتی

صرف گولی مارنے کی اجازت ہے، شرم مگر تم کو نہیں آتی!!!
عقیل انجم اعوان
گزشتہ دن ایک تکلیف دہ دن تھا۔ ڈیڑھ سال قبل پسند کی شادی کرنے والے جوڑے کو قبیلے والوں نے دعوت پر بلایا مگر وہ کھانے کی نہیں ’’ غیرت دکھانے ‘‘ کی دعوت تھی ۔ دونوں کو لے جا کر ایک چٹیل میدان میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ وہاں 19 بلوچی مرد کھڑے ہیں جن میں سے پانچ کے پاس لوڈڈ اسلحہ ہے بڑی سی چادر میں لپٹی24سالہ بانو اور 32سالہ زرک کو گاڑیوں کے قافلے میں قتل گاہ پر لاکر اتارا جاتا ہے۔ بانو جس کے ہاتھ میں قرآن تھا قبیلے کے مردوں کے سامنے یہ کہتے ہوئے سکون سے آگے بڑھتی ہے ’’ صرف گولی مارنے کی اجازت ہے‘‘، جبکہ اس کی اجازت کسی نے طلب ہی کب کی تھی؟۔ وہ قتل گاہ کی جانب خود بڑھی اسے معلوم تھا اپنا انجام اس لیے نہ اس کے پائوں کانپے نہ آنکھوں میں التجا تھی نہ لبوں پر چیخ نہ دامن میں رحم کی بھیک۔ اس کی خاموشی میں وہ شور تھا، جو ان سب چیخوں پر بھاری تھا جو ظلم کے خلاف کبھی نہ نکل سکیں۔ پھر ایک گولی نہیں نو گولیاں ماری گئیں۔ نہ کوئی عدالت نہ صفائی کا موقع نہ کوئی وکیل نہ کسی ادارے کی مداخلت۔ الزام یہ تھا کہ وہ عورت تھی۔ بس یہی جرم کافی تھا۔ کوئی فریاد نہ سنی گئی کوئی دلیل نہ چلی بس بندوق کی آواز تھی اور خاموشی کی چادر۔ سوال یہ ہے کہ کیا عورت ہونا واقعی جرم بن چکا ہے؟ یہ پہلا واقعہ نہیں۔ نہ آخری۔ نہ بلوچستان واحد خطہ ہے جہاں یہ ظلم ہوتا ہے نہ یہ المیہ کسی مخصوص قبیلے یا نسل سے وابستہ ہے۔ غیرت کے نام پر قتل پاکستان کی ہر صوبے ہر شہر اور ہر دیہات میں جاری ایک وہ ناسور ہے جس نے ہزاروں زندگیوں کو نگلا ہے اور بدقسمتی سے ریاست اس ظلم پر مسلسل خاموش ہے۔ غیرت کے نام پر قتل وہ جرم ہے جو فرد نہیں پورے معاشرے کی منافقت قانون کی ناکامی اور انسانیت کے زوال کا ثبوت ہوتا ہے۔ جب ایک مرد کسی عورت کو اس لیے قتل کر دیتا ہے کہ وہ خاندان یا قبیلے کی غیرت کے خلاف گئی ہے تو درحقیقت وہ اپنے جرائم کو’’ غیرت‘‘ کا لباس پہنا کر عزت دار بننے کی کوشش کرتا ہے۔ بدکاری، محبت، انکار، شادی سے انکار، طلاق یا صرف یہ کہ عورت نے اپنی مرضی سے زندگی جینے کا ارادہ کیا۔ یہ سب وجوہات غیرت کے نام پر قتل کے لیے کافی سمجھی جاتی ہیں۔ اعداد و شمار چیخ چیخ کر ہمیں بتا رہے ہیں کہ یہ صرف قصے کہانیاں نہیں بلکہ روزمرہ کی حقیقت ہے۔
2024 ء میں پاکستان میں صنفی بنیاد پر تشدد کے 32ہزار سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے 384سے زائد واقعات صرف غیرت کے نام پر قتل کے تھے۔ ان میں پنجاب میں 139، سندھ میں 110، خیبر پختونخوا میں 82اور بلوچستان میں 53عورتیں مار دی گئیں اور یہ صرف وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے۔ سیکڑوں کیس ایسے ہوتے ہیں جو پولیس اسٹیشن تک پہنچتے ہی نہیں یا پہنچنے سے پہلے ہی صلح کی نذر ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ غیرت کے نام پر قتل اکثر قریبی رشتہ دار کرتے ہیں۔ والد، بھائی، شوہر یا چچا اور یہی رشتہ دار بعد میں مقتولہ کے وارث بھی بن جاتے ہیں اور قانونی نظام انہیں معاف کر دیتا ہے۔ اگرچہ 2016ء میں پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا تھا جس میں غیرت کے نام پر قتل کو ناقابلِ معافی جرم قرار دیا گیا تھا مگر عملی طور پر آج بھی یہی دیکھا جاتا ہے کہ قاتل باعزت بری ہو جاتے ہیں۔ پولیس کی تفتیش کمزور، عدالتوں کا نظام سست اور سماجی دباؤ اتنا شدید ہوتا ہے کہ انصاف ایک خواب بن جاتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کی فطرت اتنی وحشیانہ ہے کہ یہ صرف جسم کا قتل نہیں بلکہ انسانیت کی تذلیل بھی ہے۔
سوال یہ ہے کہ مرد کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ عورت کی زندگی کا فیصلہ کرے؟ اور اگر عورت واقعی خاندان کی عزت کے خلاف گئی تھی تو کیا اس کا حل موت ہی تھا؟ اگر بیٹا گناہ کرے، باپ کسی ناجائز رشتے میں پڑے، بھائی بازاروں میں عورتوں کو چھیڑے تو کیا کبھی انہیں بھی اسی طرح قتل کیا گیا ہے؟ نہیں۔ کیونکہ ہمارا معاشرہ مرد کے جرم کو بھی برداشت کر لیتا ہے مگر عورت کی آزادی کو گناہ سمجھتا ہے۔ پولیس کا کردار اکثر قاتل کے معاون کے طور پر سامنے آتا ہے۔ ایف آئی آر درج کرنے سے انکار، قاتل کو فرار ہونے کا موقع یا تفتیش میں جان بوجھ کر کمزوریاں پیدا کرنا یہ سب معمول بن چکا ہے۔ عدالتیں سالہا سال کیس سننے کے بعد اکثر ’’ عدم ثبوت‘‘ یا ’’ صلح‘‘ کی بنیاد پر ملزمان کو رہا کر دیتی ہیں اور یوں ایک اور قتل ایک اور عورت کی جان خاموشی کے اندھیرے میں دفن ہو جاتی ہے۔
2024 ء میں غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں سے صرف 3فیصد کیسز میں سزائیں ہوئیں۔ باقی سب میں قاتل آزاد ہو گئے۔ کسی کو معافی ملی کسی نے صلح کر لی اور کسی کے خلاف کوئی مقدمہ ہی نہ بن سکا۔ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو بھی معاشرتی دباؤ کا سامنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی عورت اپنی عزت بچا کر عدالت چلی جائے تو اسے عدالت میں بھی گندی نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی صحافی یا کارکن آواز اٹھائے تو اسے دھمکیاں ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جرم مسلسل بڑھ رہا ہے اور ریاست صرف اعداد و شمار گن کر اپنا فرض ادا سمجھتی ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کے مسئلے کا حل صرف قانون سازی نہیں بلکہ سماجی شعور میں تبدیلی ہے۔ ہمیں اپنے تعلیمی نصاب میں خواتین کے حقوق، انسانی اقدار اور مساوات کے اسباق شامل کرنے ہوں گے۔ ہمیں مسجد، مدرسہ، اسکول اور میڈیا کے ذریعے یہ پیغام دینا ہوگا کہ عورت عزت کی علامت ہے غیرت کا بوجھ نہیں۔ ہمیں یہ سوچ تبدیل کرنی ہوگی کہ عورت خاندان کی عزت ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عورت ایک آزاد انسان ہے جسے اپنی زندگی جینے کا حق حاصل ہے۔ حکومت کو متاثرہ خاندانوں کی مدد کرنی چاہیی اور پولیس کو اس جرم کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنانی چاہیے۔ عدلیہ کو ایسے مقدمات میں فوری سماعت کر کے فیصلے سنانے چاہئیں تاکہ قاتلوں کو یہ احساس ہو کہ قانون ان کے خلاف کھڑا ہے۔ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ غیرت کے نام پر قتل صرف جرم نہیں بلکہ قتلِ انسانیت ہے۔ یہ صرف ایک عورت کی جان نہیں لیتا بلکہ پورے سماج کو زہر آلود کرتا ہے۔ جب ایک لڑکی قتل ہوتی ہے تو باقی ہزاروں لڑکیاں خاموش ہو جاتی ہیں، خوف زدہ ہو جاتی ہیں اپنے خواب دفن کر دیتی ہیں۔
اگر ہم سچ میں مہذب معاشرہ بننا چاہتے ہیں تو ہمیں عورت کو جینے کا حق دینا ہوگا۔ بلوچستان کی وہ عورت جو مجمع کے سامنے قتل ہوئی وہ صرف ایک عورت نہیں تھی۔ وہ ہمارے معاشرے کا آئینہ تھی۔ وہ چیخ تھی سوال تھی اور ایک صدیوں پرانے ظلم کا ثبوت تھی۔ وہ زندہ نہ رہ سکی مگر اس کی تصویر نے ہمیں جگا دیا۔ اب اگر ہم پھر خاموش رہے، تو کل کوئی اور ماں، بہن یا بیٹی ہماری خاموشی کی بھینٹ چڑھ جائے گی۔ ریاست کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ قاتل کے ساتھ ہے یا مظلوم کے۔ معاشرے کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ غیرت کے نام پر جھوٹی عزت بچانا چاہتا ہے یا سچ کے لیے کھڑا ہونا چاہتا ہے۔ اور ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم خاموش تماشائی رہیں گے یا آواز اٹھائیں گے۔





