Column

گمشدہ نقشے، بکھرا ہوا کراچی

گمشدہ نقشے، بکھرا ہوا کراچی
تحریر : جاوید اقبال

ایک شہر جو کبھی منصوبہ بندی کی مثال تھا، آج بے ہنگم پھیلائو کی داستان بن چکا ہے
کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا اور معاشی اعتبار سے سب سے اہم شہر، اپنی تاریخ، ثقافت اور تجارتی حیثیت کے باعث ہمیشہ مرکز نگاہ رہا ہے۔ یہ شہر نہ صرف بندرگاہ اور مالیاتی سرگرمیوں کا مرکز ہے بلکہ لاکھوں افراد کے لیے روزگار کا وسیلہ بھی۔ کراچی کی موجودہ وسعت اور بے ہنگم ترقی کو دیکھتے ہوئے یہ بات حیرت انگیز لگتی ہے کہ کبھی اس شہر کی بنیاد باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت رکھی گئی تھی۔ کراچی کے لیے پہلا ماسٹر پلان 1923ء میں برطانوی راج کے ٹائون پلاننگ ماہرین نے ترتیب دیا جن میں سرفہرست جیمس تھامس، چیف ٹائون پلانر اور کراچی میونسپلٹی کے میونسپل انجینئر شامل تھے۔ جس کا مقصد شہری سہولیات کی فراہمی اور رہائشی و تجارتی زونز کی منظم ترتیب دینا تھا تاکہ شہر کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تجارتی اہمیت کے پیش نظر اس کی ترقی ایک منظم انداز میں ہو۔ اس وقت کراچی کی آبادی تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ کے درمیان تھی۔
1923 ء کے ماسٹر پلان کے تحت مختلف طبقات اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے الگ الگ رہائشی علاقے بسائے گئے۔ جیسے گارڈن کوارٹر باغبانی سے وابستہ ملازمین کے لیے، سولجر بازار فوجی اور پولیس اہلکاروں کے لیے، اور سول لائنز اعلیٰ سرکاری افسران کے لیے مخصوص تھے۔ اسی طرح جمشید کوارٹر، لائنز ایریا، فرئیر ٹائون اور دیگر علاقوں کو بھی خاص منصوبہ بندی کے تحت ترتیب دیا گیا۔ بندر روڈ ( موجودہ ایم اے جناح روڈ)، برنس روڈ، آئی آئی چندریگر روڈ ( جسے پاکستان کی وال اسٹریٹ کہا جاتا ہے)، اور میکلوڈ روڈ جیسی شاہراہیں اسی ماسٹر پلان کا حصہ تھیں، جو آج بھی کراچی کی پہچان سمجھی جاتی ہیں۔
کراچی کے پہلے ماسٹر پلان کی کامیابی کی بڑی وجہ اس وقت کی حکومت کی جانب سے شہری سہولیات کی فراہمی میں سنجیدگی اور خلوص نیت تھی۔ اس کے علاوہ، اس دور میں سیاسی محاذ آرائی یا ووٹ بینک کے چکر میں مخصوص علاقوں کو ترقی دینا یا نظر انداز کرنا عام روایت نہیں تھی۔ تمام علاقوں میں شہری ترقی کے اصول یکساں تھے، جس کے باعث شہر متوازن انداز میں آگے بڑھتا رہا۔
1946-47 ء کے دوران انگریز حکومت نے کراچی کے لیے ایک نیا ماسٹر پلان تیار کرنے کی کوشش کی، مگر تقسیمِ ہند کے بعد برطانوی حکام کے انخلاء کے باعث اس پر عملی طور پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
پاکستان بننے کے بعد کراچی کے لیے پہلا باضابطہ ماسٹر پلان 1952ء میں بنایا گیا، جس میں شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی اور تجارتی سرگرمیوں کے پیش نظر ترقیاتی منصوبے شامل کیے گئے۔ کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ (K.I.T)اس ماسٹر پلان کی نگرانی اور عملدرآمد کا ذمے دار ادارہ تھا۔ اس دور میں نارتھ ناظم آباد، ناظم آباد، لانڈھی، کورنگی اور دیگر رہائشی و صنعتی علاقوں کی منصوبہ بندی کی گئی۔ اگرچہ ابتدائی برسوں میں اس پلان پر کسی حد تک عمل ہوا، مگر بعد میں سیاسی مفادات اور ادارہ جاتی کمزوریوں کے باعث یہ بھی ادھورا رہ گیا۔
1952 ء کے ماسٹر پلان کے بعد کراچی یتیم سا ہو گیا۔ تمام سیاسی و سماجی تنظیموں نے کراچی کے وسائل کو بے دریغ استعمال کیا مگر وہ اس کی ترقی و ترویج میں کسی بھی طرح کا مثبت کردار ادا کرنے میں ناکام رہیں۔ حکمرانوں نے سیاسی مصلحتوں سے کام لیتے ہوئے شہر کی ترقی کے لیے بنائے گئے ماسٹر پلانز کو پس پشت ڈال دیا اور سیاسی مفادات کے تحت ہر جائز و ناجائز اقدام کیے۔ پارکس اور گرائونڈز تک کو بلڈرز مافیا کے ساتھ مل کر غیرقانونی تعمیرات کے لیے فروخت کر دیا گیا۔ حکمرانوں کی لالچ، سیاست دانوں کی مصلحت اور سرکاری اداروں کی نااہلی نے شہر کو بغیر کسی منصوبہ بندی کے کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کر دیا۔
کراچی میں 1970ء کی دہائی میں ’’ کراچی میٹروپولیٹن ریجن پلان1974 ( 85 )MRV‘‘ کے نام سے ایک اور ماسٹر پلان ترتیب دیا گیا، جس کا مقصد شہر کے مرکز پر دبا کم کرنا اور مضافاتی علاقوں کو منظم انداز میں ترقی دینا تھا۔ اس پلان کے تحت سپر ہائی وے، نیشنل ہائی وے، حب اور ملیر کے علاقوں کو صنعتی، رہائشی اور زرعی زونز میں تقسیم کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ مگر مالی وسائل، ادارہ جاتی بدانتظامی اور سیاسی قیادت کی عدم دلچسپی کے باعث یہ بھی ناکام رہا۔ اس دوران شہر میں اورنگی ٹائون، لیاری کے اطراف، کیماڑی، کورنگی، ملیر، گڈاپ، سچل گوٹھ، شیرپا گوٹھ، اور محمود آباد جیسے علاقوں میں کچی آبادیاں اور غیرقانونی بستیاں تیزی سے قائم ہوتی گئیں، جنہوں نے شہر کے نکاسی، پانی اور ٹریفک کے نظام پر مزید دبائو بڑھایا۔
2000ء کی دہائی کے آغاز میں ’’ کراچی اسٹریٹجک ڈیولپمنٹ پلان 2020 (KSDP-2020) ترتیب دیا گیا، جس میں شہری سہولیات، ٹریفک، پانی، نکاسی، صفائی اور ماحولیات کے تمام پہلوں کو مدنظر رکھا گیا۔ مگر بدقسمتی سے یہ منصوبہ بھی سیاسی عدم استحکام، اداروں کے درمیان اختیارات کی کھینچا تانی، اور فنڈنگ کی کمی کے باعث ادھورا رہ گیا۔ نتیجتاً، نئی کچی آبادیاں وجود میں آتی رہیں اور پرانی بستیوں کے مسائل مزید سنگین ہوتے گئے۔
کراچی کی آبادی میں مسلسل اضافہ ایک مستقل چیلنج کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ 1923ء کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی تقریباً دو کروڑ تیس لاکھ ظاہر کی گئی تھی، مگر موجودہ اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد حقیقتاً تین کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق کراچی میں ہر ماہ ملک بھر سے تقریباً 45ہزار افراد روزگار کے لیے آتے ہیں، مگر ان کا کوئی باضابطہ ریکارڈ موجود نہیں۔ اندازوں کے مطابق تقریباً 75فیصد علاقوں میں سیوریج کے سنگین مسائل موجود ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد نے اپنے دور میں کراچی میں ماسٹر پلان پر عملدرآمد کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کئی سخت فیصلے دئیے۔ نسلہ ٹاور سمیت متعدد غیرقانونی عمارتوں کو گرانے کے احکامات دئیے گئے تاکہ شہری منصوبہ بندی اور قانون کی عملداری کو یقینی بنایا جا سکے۔ جسٹس گلزار احمد بارہا اس بات کی نشان دہی کرتے رہے کہ کراچی میں ماسٹر پلان محض کاغذوں تک محدود ہے، جبکہ زمینی سطح پر سیاسی اور مالی مفادات کی خاطر شہر کی اصل شکل مسخ کی جا رہی ہے۔
کراچی کو بے ہنگم اور غیر منصوبہ بند توسیع، بنیادی سہولیات کے فقدان، اور کچی آبادیوں کے پھیلا سے پیدا ہونے والی بھیانک صورتحال سے نکالنے کے لیے محض اعلانات یا وقتی اقدامات کافی نہیں، بلکہ ٹھوس، جامع اور پائیدار حکمت عملی اپنانا ضروری ہے۔ سب سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی کے موجودہ اور سابقہ ماسٹر پلانز کو ازسرنو جائزہ لے کر، زمینی حقائق کے مطابق اپ ڈیٹ کیا جائے اور ان پر فوری اور یکساں عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔ اس کے لیے سندھ حکومت، بلدیہ عظمیٰ کراچی (KMC)، کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (KDA)، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA)، کنٹونمنٹ بورڈز اور ڈیفنس ہاسنگ اتھارٹی (DHA)جیسے خودمختار اداروں کے درمیان اختیارات کی واضح تقسیم اور باہمی ہم آہنگی ناگزیر ہے۔
یہ امر قابل غور ہے کہ کنٹونمنٹ بورڈز اور ڈی ایچ اے جیسے ادارے کراچی کے بڑے اور اہم حصے اپنے دائرہ اختیار میں رکھتے ہیں، مگر ان کی منصوبہ بندی اور ترقیاتی سرگرمیاں بلدیاتی اداروں سے الگ چلتی ہیں۔ اس انتظامی تقسیم کی وجہ سے شہر کا مجموعی ماسٹر پلان عملی طور پر غیر موثر ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ایک مرکزی کراچی میٹروپولیٹن اتھارٹی تشکیل دی جائے، جو تمام سول اور ملٹری اداروں کے اختیارات کو ہم آہنگ کرتے ہوئے ایک مربوط نظام کے تحت شہری ترقی کا عمل آگے بڑھائے۔
پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے کے۔4منصوبے کو سیاسی مداخلت سے بالاتر ہو کر مکمل کیا جانا چاہیے، جبکہ واٹر بورڈ جیسے ادارے کو غیرسیاسی اور خودمختار بنایا جائے تاکہ وہ صرف پانی کی فراہمی پر توجہ دے سکے۔ نکاسی آب کے نظام کی بہتری کے لیے سیوریج نیٹ ورک کو جدید خطوط پر اپ گریڈ کرنا ہوگا، جس کے لیے عالمی مالیاتی اداروں اور تکنیکی ماہرین سے مدد لی جا سکتی ہے۔
ٹریفک کے مسائل کے حل کے لیے کراچی سرکلر ریلوے، بس ریپڈ ٹرانزٹ (BRT)سسٹم، انڈر پاسز، فلائی اوورز اور ماس ٹرانزٹ منصوبوں کو سنجیدگی اور شفافیت کے ساتھ بروقت مکمل کرنا ہوگا۔ کچی آبادیوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکومت کو ایک موثر ریگولرائزیشن پالیسی تشکیل دینی ہوگی، جس کے تحت پرانی بستیوں کو باقاعدہ نقشے میں شامل کر کے انہیں بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں، مگر نئی غیرقانونی آباد کاری کو سختی سے روکا جائے۔
عوامی تفریح اور ماحولیاتی بہتری کے لیے نہ صرف نئے پارکس، گرین بیلٹس اور کھیل کے میدان قائم کیے جائیں، بلکہ بلڈرز مافیا کے قبضے سے رفاہی پلاٹوں کو واگزار کروا کر ان کی اصل حیثیت بحال کی جائے۔ اس ضمن میں کنٹونمنٹ بورڈز اور ڈی ایچ اے کے اندر موجود پارکس و کھیل کے میدان بھی شہر کے اجتماعی مفاد کے تحت کھولے جائیں اور ان کی حالت بہتر بنائی جائے۔
سیاسی سطح پر سب سے اہم بات یہ ہے کہ کراچی کی ترقی کو سیاست سے بالاتر کر کے ایک غیرجانبدار اور بااختیار میٹروپولیٹن اتھارٹی کے سپرد کیا جائے، جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز، سندھ حکومت، وفاقی حکومت، کنٹونمنٹ بورڈز، ڈی ایچ اے، بلدیاتی ادارے اور عوامی نمائندے مل بیٹھ کر فیصلے کریں۔ میڈیا، سول سوسائٹی اور تعلیمی اداروں کو بھی یہ شعور بیدار کرنے میں کردار ادا کرنا ہوگا کہ شہری سہولیات کا تحفظ صرف حکومت کی نہیں بلکہ ہر شہری کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
کراچی محض عمارتوں، شاہراہوں اور بازاروں کا مجموعہ نہیں، بلکہ کروڑوں انسانوں کے خوابوں اور زندگیوں کا مرکز ہے۔ اگر اسے سنوارنے کی سنجیدہ کوشش نہ کی گئی، تو صرف شہر نہیں، پورا معاشرہ اس کی قیمت ادا کرے گا۔

جاوید اقبال

جواب دیں

Back to top button