خطرات ٹلے نہیں ۔۔۔

خطرات ٹلے نہیں ۔۔۔
تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض)
اشرف المخلوقات بنائی گئی مخلوق حضرت انسان بہرطور کسی اور کی خلق کی گئی مخلوق ہے اور بے شک اس کو اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے لیکن اس کا ہرگز مقصد یہ نہیں کہ یہ عقل کل ہے اور جو کچھ یہ سوچے، سمجھے، کرے وہ شتر بے مہار ہو یا حضرت انسان حدود و قیود سے مبرا ہو کہ حدود و قیود سے مبرا صرف اور صرف ’’ خالق‘‘ ہے مخلوق قطعا نہیں۔ انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر، اس دنیا میں بھیجا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ، زندگی گزارنے کا ایک طریقہ کار و ہدایت نامہ بھی ہر دور میں اس کو دیا جاتا رہا ہے کہ اسے کرہ ارض پر زندگی بہرطور اس نصاب کے مطابق گزارنی ہے تاہم نبی آخر الزماں محمد مصطفیؐ کے بعد الہامی /آفاقی ہدایت و رشد تمام ہو چکی اور اب بنی نوع انسان کے لئے لازم ہے کہ وہ نبی آخر الزماں کی شریعت پر عمل پیرا ہو کر، اپنی زندگی گزاریں۔ انسان کی اشرف المخلوقیت کا ایک امتحان یہ بھی ہے کہ وہ خلق جس تک رشد و ہدایت نہیں پہنچی اور وہ نبی آخرالزمانؐ سے قبل موجود مذاہب کے پیروکار ہیں، اپنی اشرف المخلوقیت کی اہلیت کو صحیح شریعت کی تلاش میں آزمائیں اور زندگی گاارنے کا صحیح طریقہ، جس پر ’’ خالق‘‘ نے مہر تصدیق یوں ثبت کی ہے کہ نبی اکرمؐ پر اتاری گئی الہامی کتاب کی حفاظت کا تا قیامت ذمہ خود رب العزت نے لے رکھا ہے، اس کی حقانیت کو تسلیم کرتے ہوئے، شریعت محمدی کے تابع ہو جائیں۔ تاہم صد افسوس کہ نبی اکرمؐ کے امتیوں نے کلمہ گو ہونے کا شرف تو حاصل کر رکھا ہے لیکن خود کو صد فیصد شریعت کے تابع نہیں کیا، جس کے باعث آج امت محمدی شدید زبوں حالی کا شکار ہے اور دن بدن قعر مذلت میں دھنستی دکھائی دیتی ہے۔ قرآن مجید میں رب کریم نے مومنین کو مخاطب کرتے ہوئے انتہائی واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ یہود و نصاریٰ کبھی بھی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے اور آج کی دنیا میں ’’ مومنین‘‘ واقعتا اس حقیقت پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے یہود و نصاریٰ کے علاوہ یہود کے دوست ہنود کو بھی اپنا دوست نہیں مانتے، لیکن فی زمانہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکمران و ذاتی مفادات کے اسیران سے تعلقات ہی کیا، اپنے دفاع کی لئے بھی ان پر انحصار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب مسلم حکمران اپنے دفاع سے اس درجہ غفلت برتیں گے تو یقینی طور پر اپنی دفاعی ضروریات کے لئے کفار ہی کے دست نگر ہونا پڑے گا اور اس ضمن میں کفار کو اپنے آنگن میں لانا ان مسلم حکمرانوں کی مجبوری ہو گی، کفار جیسے چاہیں جہاں چاہیں اور جو چاہیں، فیصلے ایسے کمزور حکمرانوں سے کرائیں، انہیں کوئی مشکل درپیش نہیں ہو گی جبکہ وہ مسلم ریاستیں جو قرآن ہی کی ہدایت کے مطابق، خواہ وہ ہلکی ہی کیوں نہ ہوں، کفار سے مقابلے کے لئے نکلیں گی تو اللہ رب العزت کی نصرت ان کے ہمراہ ہوگی اور وہ میدان جنگ میں کامیاب ٹھہریں گے یا کم از کم دشمن کے دانت کھٹے ضرور کریں گے۔ اس امر کا اظہار ہم نے ایران کے اسرائیل و امریکہ پر جوابی وار سے بخوبی دیکھا ہے کہ ایک طرف وہ ایران جس کے اپنے آنگن میں نہ صرف یہود و نصاریٰ کے دشمن جاسوس ڈیرے جمائے بیٹھے تھے بلکہ یہود کے حمایتی ہنود بھی اس کھیل میں پوری طرح شریک تھے جبکہ مسلم بھائی چارے بلکہ جن پر مشکل وقت میں ایران نے اپنے دروا کئے تھے، چند مفادپرست بھی یہود و نصاریٰ و ہنود کے ساتھ، ایران کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے دکھائی دئیے لیکن کیا ایران ان سے نبرد آزما نہیں ہوا اور بہترین انداز میں اس بحران سے نہیں نکلا؟ کیا ایران پر آشکار نہیں ہوا کہ جن مسلم پڑوسیوں کے خلاف وہ ان ’’ غداروں/جاسوسوں‘‘ کی وجہ سے بروئے کار آیا، انہی غداروں اور جاسوسوں نے ایران کو دشمن کے ہاتھوں جنگ کے عین نصف النہار پر نہیں بیچا اور ایرانی مفادات و خود مختاری و سالمیت کو شدید ترین زک نہیں پہنچائی؟ امید تو یہی کی جانی چاہئے کہ ایران مستقبل میں اپنی سمت درست رکھے گا اور مزید ایسی غلطیوں سے اجتناب کریگا جو دوست اور پڑوسیوں کو ایک دوسرے کے خلاف کرے اور ایسے غداروں کے ہاتھوں میں نہیں کھیلے گا۔
اس ایرانی کامیابی کے حوالے سے اپنی ایک گزشتہ تحریر بعنوان ’’ کامیابی سے پہلے ۔۔۔ حصہ دوم ‘‘، بتاریخ 22جون 2025ء میں لکھا تھا کہ ایران کی یہ کامیابی بہرطور حتمی نہیں ہو گی کہ اسرائیل کی مہم جوئیاں اس وقت تک ختم نہیں ہوں گی جب تک وہ گریٹر اسرائیل کا ہدف حاصل نہیں کر لیتا اور اس کے لئے اسرائیل کا لائحہ عمل کیا ہوگا، نشانیاں کیا ہوں گی اور اسرائیل کیونکر اپنا ہدف حاصل کرے گا، یہ سب کچھ تحریر کیا تھا بہرحال اس میں سے ایک چھوٹا سا اقتباس قارئین کی نذر کرنا چاہوں گا اور یادداشت تازہ کرنا چاہتا ہوں کہ، علاوہ ازیں! گریٹر اسرائیل کے منصوبہ کو ذہن میں رکھیں تو یہ اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک غیر مسلم دنیا کھل کر اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑی نہیں ہوتی اور اسرائیلی یلغار کو آگے بڑھنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے عقب کو محفوظ بنا کر ہی پیش قدمی کرے وگرنہ اسرائیل کو ہمیشہ عقب سے حملے کا خطرہ رہے گا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو شامی قیادت کا اسرائیلی حمایت کا اعلان واضح کرتا ہے کہ الجولانی بھی بہرطور اسرائیلی مہرے کے طور پر ہی کام آئے گا اور اردن کے موجودہ کردار کو سامنے رکھیں تو اسرائیل کو اس سے بھی کوئی خطرہ نظر نہیں آتا، لبنان کی صورتحال بھی کوئی بہت زیادہ مختلف دکھائی نہیں دیتی یا اس کو بھی تب تک قابو کر لیا جائیگا، باقی ترکیہ بچتا ہے، جس کے بوقت ضرورت پر کاٹنے میں اسرائیل و ہمنوا کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، اس کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
نبی اکرمؐ کی پیش گوئیوں کو ذہن میں لائیں تو واضح طور پر ارشاد گرامی ہے کہ یہودی آخر وقت میں سرزمین حجاز تک پہنچ جائیں گے لیکن اس کے باوجود وہ مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ اس حدیث نبویؐ کو سامنے رکھیں تو اس وقت بظاہر جو کامیابیاں ایران کا مقدر بنی نظر آتی ہیں، وہ عارضی ہی ہو ں گی تاہم ایران کے اس کردار کی اہمیت بہرطور تاریخ میں رقم ہو گی کہ ایسے وقت میں جب صرف ایرانی ریاست، جو چاروں طرف سے گھری ہوئی تھی، نے غزہ کے مسلمانوں کی مدد سے ایک لمحے کے لئے بھی ہاتھ نہیں کھینچا بلکہ اپنی حیثیت سے کہیں آگے بڑھ کر، صیہونی و نصرانی طاقتوں سے کم وسائل کے ساتھ بھی بھڑ گئی۔
موجودہ صورتحال میں یہ خبریں ایک بار پھر زیر گردش ہیں کہ اسرائیل ایک طرف شا م میں حملہ آور ہو چکا ہے، تو دوسری طرف اس کی نظریں بہرطور اس تجزیہ کے مطابق بے شک کم سمجھیں لیکن حالات کے تناظر میں اس کے بغیر چارہ ہی نہیں ہے کہ اسرائیل اپنے عقب کو محفوظ کئے بغیر اپنے اصل ہدف کی طرف بڑھے۔ گو کہ امریکہ نے ایک بار پھر، اسرائیل کے شام پر حملے کو رکوایا تو ہے لیکن اسرائیل نے پہلے کب امریکہ کی بات سنی یا مانی ہے کہ وہ اب سن لے گا دوسری بات یہ ہے کہ اصل ہدف کے حصول میں لائحہ عمل اس کے بغیر بنتا دکھائی ہی نہیں دیتا کہ شام میں حالات خراب کئے بغیر، اسرائیل کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ ترکیہ تک پہنچے لہذا ترکیہ تک پہنچنے کے لئے ازحد ضروری ہے کہ پہلے شام کے حالات کو ابتر کیا جائے بالخصوص اس وقت جب شام کی حکومت پہلے ہی سپردگی کا اظہار کر چکی ہو، اسرائیل کی حمایت کر چکی ہو گو کہ اس وقت شامی حکومت کے بیانات اسرائیل کے خلاف دکھائی دے رہے ہیں لیکن اصل حقیقت اسرائیل کے ایران پر حملوں کے دوران آشکار ہو چکی ہے، اس لئے اس وقت شامی حکومت پر اعتبار کرنا مناسب محسوس نہیں ہوتا خواہ اس کے بیانات کیسے ہی ہوں، اقدامات بھی کیسے ہوں، لیکن اعتبار بہت مشکل ہے۔ دوسری طرف یہود کا قریبی ’’ کزن‘‘ ہنود ہے جسے ’’ آپریشن سندور‘‘ میں تندور پر بیٹھنا پڑا تھا، تاحال اس کی گرمی سے نکل نہیں پایا کہ اس ’’ آپریشن تندور‘‘ میں اس کے بلند و بانگ دعوئوں کے علاوہ اس کی ’’ ساکھ‘‘ بری طرح جل کر ایسے راکھ ہو چکی ہے جیسے ہندو دھرم میں مردے کی لاش جل کر راکھ ہو جاتی ہے، ہنود اس کا بدلہ اب میدان جنگ کی بجائے پس پردہ رہ کر ریاستی دہشت گردی ، جس میں وہ کئی دہائیوں سے مصروف ہے، کی صورت پاکستان کے صوبے بلوچستان میں لینے کے لئے بروئے کار آرہا ہے اور اپنے یہودی کزن کی طرز پر بے گناہ نہتے شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، کرہ ارض جنگ کے شعلوں میں جھلستا دکھائی دے رہاہے اور یہ جنگیں فقط توسیع پسندی تک محدود دکھائی نہیں دیتی بلکہ پس پردہ بہرطور ’’ دین/مذہب‘‘ موجود ہے لہذا مسلم حکمرانوں کو اسے واضح طور پر سمجھتے ہوئے، نہ صرف اپنی صفیں درست کرنا ہوں گی ، آپس میں اتحاد بھی پیدا کرنا ہوگا بلکہ یہود و ہنود و نصاریٰ کو دشمن سمجھنا ہوگا کہ یہود و ہنود و نصاریٰ کے گٹھ جوڑ سے واضح ہے کہ ’’ خطرات ٹلے نہیں‘‘ ۔۔۔۔





