ڈیم بہت ضروری ہیں

ڈیم بہت ضروری ہیں
تحریر : رفیع صحرائی
خبر ہے کہ پاکستان کے حصے کا پانی روکنے کی دھمکی دینے والا بھارت شدید بارشوں کے باعث سیلابی صورتِ ِحال سے دوچار ہونے جا رہا ہے جس کے باعث وہ ممکنہ طور پر دریائے ستلج کو طغیانی کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ پتا چلا ہے کہ خشک ستلج میں پانی کی سطح بلند ہونا شروع ہو چکی ہے۔ ضلع قصور میں گنڈا سنگھ کے مقام پر اریگیشن ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ وہاں پانی کی سطح دس فٹ بلندی تک ریکارڈ کی گئی ہے جس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے جبکہ تلوار چیک پوسٹ کے مقام پر پانی کا اخراج 11000کیوسک تک پہنچ گیا ہے۔ دو سال قبل 2023ء میں دریائے ستلج میں بہت اونچے درجے کا سیلاب آیا تھا جس میں سیکڑوں دیہات متاثر ہوئے تھے۔ ڈپٹی کمشنر قصور کے مطابق فی الحال دریا میں سیلابی صورتِ حال نہیں ہے تاہم ہنگامی حالات سے نمٹنے کے تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔
پاکستان کو قائم ہوئے 78سال ہو گئے ہیں۔ اور اتنے ہی برسوں سے ہر سال جولائی اگست میں ہم سنتے آ رہے ہیں کہ ہندوستان نے پاکستان پر آبی جارحیت کر کے اسے سیلاب میں ڈبو دیا ہے۔ ہر سال پانی چھوڑنا ہندوستان کی مجبوری ہے۔ وہ ایسا نہ کرے تو خود سیلاب میں ڈوب جائے۔ وہ خوشی سی ہماری طرف پانی نہیں چھوڑتا۔ اس کی خوشی تو اس میں ہے کہ پاکستان کو پانی کی ایک بوند بھی نہ ملے۔ ابھی حال ہی میں اس نے سندھ طاس معاہدہ یک طرفہ طور پر ختم کرنے کا اعلان کر کے اپنے مکروہ عزائم ظاہر کر دیئے ہیں۔ وہ اپنے دریائوں پر مسلسل ڈیم بنا کر ہمارا پانی روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتا چلا آ رہا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ ہمارے دریا خشک ہو جائیں۔ پاکستان پانی کے ایک ایک قطرے کو ترسے۔ پانی وہ اسی وقت چھوڑتا ہے جب اسے سنبھال نہیں پاتا۔
بھارت کے ہر سال چھوڑے ہوئے پانی کو پاکستان بھی ہر سال سنبھالنے سے قاصر ہوتا ہے جس کے نتیجے میں کبھی نچلے یا درمیانے درجے کا اور کبھی اونچے درجے کا سیلاب آ جاتا ہے۔ لوگ گھر سے بے گھر ہو جاتے ہیں۔ سینکڑوں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ ہزاروں مویشی پانی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کے کچے اور پکے مکانات گر جاتے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقے کو آفت زدہ قرار دے دیا جاتا ہے اور لوگوں کے نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے حکومتی سروے شروع ہو جاتا ہے۔ بہت کم لوگوں کی دادرسی ہو پاتی ہے۔ زیادہ تر لوگ حکومتی امداد سے محروم ہی رہتے ہیں۔ وہ اپنی مدد آپ کے تحت خود کو بحال کرتے ہیں اور اگلے سال دوبارہ اسی صورتِ حال کا شکار ہو جاتے ہیں۔
سیلاب کا اثر پورے ملک پر پڑتا ہے۔ زرعی پیداوار بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ سبزیوں کا ریٹ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ تازہ دودھ کی دستیابی میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ سیلابی علاقے قحط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہاں وبائی امراض پھوٹ پڑتے ہیں۔ لاکھوں لوگ گھر سے بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پورے 78سال سے یہ سلسلہ چلتا آ رہا ہے۔ سیلابی پانی ہمارے لیے ہر سال زحمت بن جاتا ہے مگر کبھی کسی حکومت نے اس زحمت کو نعمت میں بدلنے کا نہیں سوچا۔ کسی نے مخالف ہوائوں کو اونچی اڑان بھرنے کے لیے مددگار نہیں بنایا۔ سیلاب کو خدائی عذاب سمجھ کر ہر سال کھربوں روپے کا نقصان برداشت کر لیا جاتا ہے۔
جاپان کا محلِ وقوع اس قسم کا ہے کہ اسے سارا سال زلزلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر جاپانیوں نے یہ نہیں سوچا کہ چونکہ زلزلوں سے بچنا ممکن نہیں لہٰذا ہم پختہ عمارتیں بنانے کی بجائے جھونپڑیوں میں رہا کریں گے۔ جاپان والوں نے اس کا حل نکالا۔ اس کے انجینئر سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے ایسے گھروں اور بڑی عمارتوں کے نقشے ڈیزائن کیے جو زلزلہ پروف تھے۔ آپ دیکھ لیں، جاپان میں کئی کئی منزلہ عمارتیں موجود ہیں۔ وہاں روزانہ زلزلے آتے ہیں مگر ان عمارتوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ جاپانیوں نے ان زلزلوں کے ساتھ رہنا اور ان کے نقصانات سے بچا کا توڑ نکالنا سیکھ لیا۔ ہم نے ہر سال سیلاب کا انتظار کرنے اور پھر اس کا شکار ہونے سے آگے کا کبھی سوچا ہی نہیں۔ ہم نے سیلاب کو خدائی عذاب سمجھ کر اس کی لپیٹ میں آنا اپنا مقدر سمجھ لیا ہے حالانکہ ڈیم بنا کر یہی سیلابی پانی اس میں ذخیرہ کر کے ملک کو سرسبز و شاداب بنایا جا سکتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے خود غرض سیاستدانوں نے کالا باغ ڈیم پر سیاست کر کے اسے متنازعہ بنا دیا۔ صوبہ کے پی کے سیاستدانوں نے اپنی سیاست بچانے کی خاطر ریاستی مفاد کو قربان کر دیا حالانکہ اسے بھی اس ڈیم سے اتنا ہی فائدہ پہنچنا تھا جتنا باقی صوبوں کو پہنچتا۔ سندھ کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں مزید آگے بڑھ گیا۔ وفاق نے بھی کبھی اس پر زیادہ سنجیدگی نہیں دکھائی ورنہ ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات اور سوشل میڈیا پر کالا باغ ڈیم بنانے کی ضرورت پر بھرپور مہم چلا کر لوگوں کو اس کی افادیت سے آگاہی دینا اور موٹیویٹ کرنا مشکل کام نہیں ہے۔
چلتے چلتے حسبِ حال ایک لطیفہ بھی پڑھ لیجیے۔ دو سال پہلے ایک بہت بڑا سمندری طوفان آیا تھا۔ خدشہ تھا کہ وہ کراچی کے ساحل سے بھی ٹکرائے گا مگر خوش قسمتی سے طوفان کا رخ مڑ گیا اور کراچی محفوظ رہا۔ اس پر کسی منچلے نے فقرہ کسا کہ ’’ طوفان کے نہ آنے سے سندھ حکومت کو اربوں روپے کا نقصان ہو گیا‘‘۔
کہیں ہمارے ہاں ڈیم نہ بنانے کا مقصد بھی غیر ملکی امداد کی صورت میں ملنے والے ان اربوں ڈالر کی امداد کا نقصان تو نہیں جو سیلاب آنے کی صورت میں ہمیں بطور بھیک ملتے ہیں۔ ورنہ کالا باغ ڈیم فی الحال ممکن نہیں تو کیا اس سے ہٹ کر چھوٹے چھوٹے درجنوں بلکہ سینکڑوں ڈیم نہیں بنائے جا سکتے۔ بھارت نے بھی تو اپنے دریائوں پر ہزاروں ڈیم بنا کر ہمارا پانی روک رکھا ہے نا۔ ہم ڈیم کیوں نہیں بنا سکتے؟۔ کیونکہ اس کے لیے قومی سوچ کی ضرورت ہے مگر ہماری تمام سیاسی لیڈرشپ قوم پر اپنی ذات اور سیاست کو ترجیح دیتی ہے۔







