Column

ایران۔ اسرائیل حالیہ جنگ: طاقت کا کھیل یا سیاست کا جال؟

تحریر : شارف احمد خیال

13جون 2025ء کو ایران کی ایئر بیس پر 200سے زائد طیارے داخل ہوئے۔ ان کا ہدف 100سے زیادہ مقامات پر حملہ کرنا تھا۔ اس اچانک حملے میں 80سے زائد افراد ہلاک اور 130زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری شامل تھے۔ اس حملے میں کئی اعلیٰ پروفائل شخصیات کا اسیسینیشن ( قتل) بھی کیا گیا، جن کا تعلق ایران کے جوہری پروگرام سے تھا، اور ان میں میٹری کے سائنس دان اور سکیورٹی ماہرین شامل تھے۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال بھی ان دونوں ملکوں کے درمیان جھڑپ ہو چکی تھی، لیکن اس بار حالات اس وقت سنگین ہو گئے جب اسرائیل نے اچانک یہ بڑا حملہ کر دیا۔ جب اسرائیلی حکام سے اس کارروائی کی وجہ پوچھی گئی تو ان کا موقف تھا کہ یہ سب ’’ اپنے دفاع‘‘(Self-Defense)کے تحت کیا گیا۔
اسی دن یعنی 13جون کو ہی ایران نے جوابی کارروائی کی اور درجنوں میزائل اور ڈرونز سے حملے کیے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر حملے اسرائیلی دفاعی نظام نے ناکام بنا دئیے، لیکن کچھ مقامات پر دھماکے دیکھنے کو ملے۔ اگلے چند دنوں تک دونوں ملکوں کے درمیان شدید جھڑپیں جاری رہیں، جس میں دونوں طرف تباہی ہوئی اور کئی افراد ہلاک ہوئے۔
اسی دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ کو دھمکی دی گئی کہ ’’ ہمیں معلوم ہے آپ کہاں چھپے ہیں‘‘ اور ساتھ ہی دو ہفتوں کی مہلت دی گئی کہ اگر ایران نے جوہری معاہدے کے حوالے سے سرنڈر نہ کیا تو امریکہ اپنی فوجی کارروائی شروع کر دے گا۔ جواب میں ایران نے دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی صورت سرنڈر نہیں کرے گا۔
تاہم صرف دو دن بعد، 21جون کی رات ایران کی ایئر بیس پر 125امریکی طیارے داخل ہوئے۔ ان کا ہدف ایران کی تین بڑی جوہری تنصیبات تھیں۔ ان تنصیبات کو تباہ کرنا آسان نہیں تھا کیونکہ یہ زمین کے بہت نیچے بنی ہوئی تھیں۔ اس لیے انہیں خصوصی بموں (Bunker Buster Bombs)سے نشانہ بنایا گیا، جو زمین کے اندر گہرائی تک جا کر دھماکہ کر سکتے ہیں۔
21جون کے اس حملے میں 14سے زائد بنکر بسٹر بم ایران کی جوہری تنصیبات پر گرائے گئے۔
اس حملے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے مکمل کامیاب آپریشن قرار دیا، جبکہ امریکی حکام نے دعویٰ کیا کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔
یہاں تک پہنچتے پہنچتے پوری دنیا کے ماہرینِ جیو پولیٹکس کہہ رہے تھے کہ تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ ایران نے 23جون کو جوابی حملہ کیا اور قطر میں موجود امریکہ کے سب سے بڑے ایئر بیس کو نشانہ بنایا، جو مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے اہم ایئر بیس سمجھا جاتا ہے اور عراق، شام اور افغانستان میں امریکی کارروائیوں کا مرکزی کردار ادا کرتا رہا ہے۔
ایرانی حملے میں 19میزائل داغے گئے جن میں سے صرف ایک میزائل اس ایئر بیس کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوا۔ ایران نے قطر کو پہلے ہی مطلع کر دیا تھا کہ وہ اس امریکی ایئر بیس پر حملہ کرنے جا رہا ہے، جس کی وجہ سے امریکہ نے اپنے کئی جہاز وہاں سے ہٹا لیے اور بڑے نقصان سے بچ گیا۔ اس حملے سے اگرچہ زیادہ تباہی نہیں ہوئی، لیکن اس کے اثرات اتنے شدید تھے کہ یو اے ای، قطر اور بحرین کی فضائی حدود سے تمام پروازیں آٹھ گھنٹوں کے لیے معطل کر دی گئیں اور پورے خطے میں حالات نہایت کشیدہ ہو گئے۔ ہر طرف خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ یہ صورتحال تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کے اگلے ہی دن اچانک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور اسرائیل کے درمیان مکمل جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ اس غیر متوقع جنگ بندی کے بعد ہر کوئی حیران تھا کہ یہ سب اچانک کیسے ہوا؟ کئی سوالات کھڑے ہو گئے جن کے جوابات ابھی تک نہیں مل سکے۔
اس دوران اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پر کرپشن کے مقدمات چل رہے تھے، اور اسرائیل کے سابق آئی ڈی ایف ( اسرائیلی ڈیفنس فورس) جنرل نی کہا کہ نیتن یاہو جان بوجھ کر غزہ کی جنگ کو طول دیتے رہے تاکہ ان کے خلاف جاری ٹرائل ملتوی ہوتے رہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ انہوں نے نیتن یاہو کے خلاف چلنے والے مقدمات ختم ہونا چاہیے۔ اس کے جواب میں نیتن یاہو نے بھی ٹویٹ کر کے ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا۔
یہ ساری صورتحال اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان یہ جنگ دراصل اسرائیلی داخلی سیاست اور نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کیسز سے توجہ ہٹانے کے لیے شروع کی گئی تھی، اور جنگ بندی بھی اسی پس منظر میں اچانک عمل میں آئی۔
مندرجہ بالا تمام تفصیلات کے بعد اب فیصلہ آپ پر ہے۔ کیا واقعی کہانی اتنی سادہ ہے جتنی دکھائی دے رہی ہے، یا اس کے پیچھے کچھ اور حقائق چھپے ہیں؟
کیا واقعی یہ سب محض ایران اور اسرائیل کا تنازعہ تھا یا اس کے پیچھے کچھ اور چھپی کہانی ہے؟
کیا عالمی سیاست میں جنگیں بڑے لیڈروں کی ذاتی مفادات کے لیے شروع اور ختم ہو سکتی ہیں؟
کیا قطر جیسا ملک مشرق وسطیٰ میں طاقتور ممالک کے کھیل میں صرف ایک مہرہ بن کر رہ گیا ہے؟
کیا ایک اچانک جنگ بندی واقعی امن کی کامیابی ہے یا کسی بڑے سیاسی منصوبے کا حصہ؟
کیا ڈونلڈ ٹرمپ کا اس بحران میں کردار انہیں نوبل انعام کا حق دار بنا سکتا ہے؟
یہ تنازع ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کو یاد دلاتا ہے کہ عالمی سیاست میں طاقتور ممالک کے مفادات کس طرح چھوٹے اور کمزور ملکوں کو کھیل کا میدان بنا دیتے ہیں۔
مستقبل قریب میں یہ کشیدگی کس طرف رخ کرے گی، کیا یہ وقتی خاموشی ہے۔

جواب دیں

Back to top button