Column

امانت اور اعانت

تحریر : محمد ناصر اقبال خان

ہر ماں کو ممتا،مہانتااورصادق جذبوں کاایک زندہ وتابندہ جہاں کہنا بیجا نہیں ہوگا۔ماں کادوسرانام صلہ رحمی ہے جو اپنے بچوں پر اپنی محبت کے چاندسورج نچھاورکرتے وقت سودوزیاں نہیں دیکھتی۔ہرماں کے اندرمحبت کے سات نہیں بلکہ ستر سمندر ہوتے ہیں اوران میں بچوں کے سواکوئی غوطے نہیں لگاسکتا ۔ایک طرف ماں ہے جس کی محبت کوماپا نہیں جاسکتااوردوسری طرف اپنے سچے اللہ ربّ العزت کی بلند ترین شان دیکھیں جواپنے بندوں کو سترمائوں سے زیادہ چاہتا اورہماری ’’ خطائوں‘‘ کے باوجود اپنی’’ عطائوں‘‘ کاسلسلہ دراز کرتا رہتا ہے۔جس انسان کامعبودبرحق اسے ستر مائوں سے زیادہ پیارکرتا ہووہ بدنصیب نہیں ہوسکتا۔ بچوں کیلئے ان کی’’ ماں‘‘ ہر آفت اورمصیبت سے ’’ اماں‘‘ ہے،ان مائوںکویادکریں جو اپنے بچوں کاپیٹ بھرنے کیلئے خود کئی بار بھوک برداشت کرتی تھیں۔ان مائوں کوبھی یاداورا نہیں گلہائے عقیدت پیش کریں جوبچوں کواپنے خون اورجنون سے سینچتی ہیں۔آپ نے کئی مائوں کواپنے بچوں کی زندگی بچاتے ہوئے موت کے ساتھ بھڑتے ہوئے بھی دیکھا ہوگا،مائوں کی فداکاریوں اورجانثاریوں کوفراموش نہیں کیا جا سکتا۔ زندگی کی چلچلاتی دھوپ میں مائوں سے زیادہ کوئی ٹھنڈی میٹھی چھائوںنہیں ہوسکتی لہٰذاء ہر بچے کواپنی ماں پربڑا’’ مان ‘‘ ہوتا ہے۔ہماری سراپامحبت اور شفیق ومہرباں ماں کی زندگی اپنے باوفا اورباصفاشوہر کی اطاعت ، چھ بچوں کی پرورش سمیت تعلیم وتربیت کیلئے انتھک محنت اورمعبود برحق کی عبادت سے عبارت تھی۔اب راقم کا شمار بھی ان افراد میں ہوتا ہے جومائوں کی پرخلوص دعائوں اور وفائوں سے محروم ہیں،راقم کی صمیم قلب سے دعا ہے اللہ ربّ العزت ہم سب کے مرحوم ماں باپ سمیت تمام مسلمین اورمسلمات کواپنامقرب اورجنت الفردوس میں اپنا مہمان خاص بنائے۔ جو خوش نصیب ابھی تک اپنی مائوں کی گھنی چھائوں میں بیٹھتے ہیں وہ ان سے بے پایاں محبت ، جی جان سے ان کی عزت اور خدمت کریں،یادرکھیں بارگاہ الٰہی اوربارگاہ نبویؐمیں حضرت اویس قرنی ؓ کامنفردمقام بیشک اپنی ماں کی انتھک خدمت کرنے کاانعام ہے ۔ماں محبت کی فراوانی اورقربانی کادوسرانام ہے،مائوں کی قدر کریں ۔
ریاست کوماں جیسی کہناہرگز راست گوئی نہیں کیونکہ ماں کاکوئی متبادل نہیں ہوسکتا،ہماری ریاست میں تو ماں والی کوئی بات نہیں۔ سیاسی پنڈت بتاتے ہیں ماں جیسی ریاست اپنے بچوں کی ضروریات کواپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھتی ہے لیکن جوریاست مٹھی بھر اشرافیہ کے ہاتھوں میں یرغمال اورکرپشن کے بوجھ سے نڈھال ہووہاں عام لوگ جدیدسہولیات تودرکنار بنیادی ضروریات اور اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔جہاں سرمایہ دار طبقہ مزدور کی تقدیر رقم کرتاہووہاں مزدور کارنجورہونا طے ہے۔ جہاںسرمایہ داروں کا’’ راج‘‘ ہوتا ہے وہاں مزدور’’ اناج‘‘ تک سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ہماری مقتدر اشرافیہ کے اندرون وبیرون ملک اثاثوں سے ظاہر ہے وہ ریاست سمیت نادار و مفلس عوام کے ساتھ مخلص نہیں ۔ جہاں حکمران اپنے پیٹوں سے زیادہ اپنے دنیا میں آنیوالے بیٹوں اوربیٹیوں اوران کے بچوں کیلئے اپنی تجوریاں بھرتے اوربڑے بڑے قصر تعمیرکرتے ہوں وہاں غذائوں یاصدائوں کا قحط پڑے نہ پڑے لیکن عام لوگ بھوک کے روگ سے ضرور مرتے ہیں۔اگرحکمرانوں کے دعوئوںکی روسے اسٹیٹ بینک بھرا ہوا ہے توپھرعوام کے پیٹ کیوں خالی ہیں۔ اگرارباب اقتدار کے نزدیک پاکستان ٹیک آف کررہا ہے توپھرعوام کی امیدوں کے پرچم کیوں سرنگوں ہیں۔
بدقسمتی سے ہماری نام نہاد قیادت نے عالمی مالیاتی اداروں سے ان کی شرطوں پر بار بار’’ قرض‘‘ کے حصول کو’’ فرض‘‘ سمجھ لیاجبکہ بحیثیت قوم یہ ہماری کامیابی نہیں بلکہ بدترین ناکامی ،بدنامی اورغلامی ہے۔یادرکھیںدنیا کاکوئی مقروض ملک خودمختاراورخوددار نہیں ہوسکتا ۔ پاکستان کے معاشی افق پرشدید’’ حبس‘‘ حکمران اشرافیہ کی’’ ہوس‘‘ کاشاخسانہ ہے،جوچندمخصوص سیاسی خاندان چار دہائیوں سے مقروض پاکستان کے محدود وسائل میں نقب لگا رہے ہیں لیکن پھر بھی ان کا’’ نفس‘‘ نہیں بھرتا انہیں سپرد’’ قفس ‘‘ کیوں نہیں کیاجاتا ۔امارت کے باوجود حکمران طبقات کو مراعات کے پیچھے دوڑنے کے سواکوئی کام نہیں۔جب ان کے نجی محلات میں بیسیوں گاڑیاں موجود ہوتی ہیں تو پھر انہیں منفعت بخش وزارت کے ساتھ سرکاری بنگلے اور گاڑیاں دینے کاکیا جواز ہے ۔مخصوص سیاسی قیادت کی سیاست ریاست کے ساتھ’’ وفائوں‘‘ کی بجائے محض ’’ تنخواہوں ‘‘تک کیوں محدودہے۔یہ ووٹ کیلئے’’ خادم‘‘ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد’’ مخدوم ‘‘بن جاتے ہیں، یہ حصول اقتدار کیلئے عوام کو’’ استعمال‘‘ جبکہ دوام اقتدار کیلئے عوام کا’’ استحصال‘‘ کرتے ہیں ۔ان کی سیاست مفادات سے شروع اورمراعات پرختم ہوتی ہے۔
ہمارے معاشرے کامخصوص طبقہ سمجھتا ہے سیاستدان مرکزیاصوبوں کے منتخب ایوان تک رسائی کیلئے کروڑوں روپے صرف کرتے ہیں ،اس تاثرمیں ہرگزکوئی سچائی نہیں بلکہ الٹا ان کیلئے انتخابی سیاست ایک منفعت بخش تجارت بن گئی ہے کیونکہ انہیں اپنے اپنے شہر،قصبہ اور حلقہ کی بااثر شخصیات ،متعددسپانسرز ،فنانسر اوربدنام زمانہ مافیا ممبران کی طرف سے الیکشن فنڈز کے نام پربڑے بڑے ’’ نیوندرے‘‘ ملتے ہیں ،یہ اب اپنے نجی وسائل سے تو ایک ٹیڈی پیسہ تک استعمال نہیں کرتے۔ان میں سے زیادہ ترنام نہاد عوامی نمائندے بدعنوانی کے بل پر’’ محلے‘‘ سے نکل کراب’’ محلات‘‘ میں’’ بس‘‘ رہے ہیں لیکن پھر بھی ’’ بس‘‘ نہیں کررہے۔زیادہ تر قومی چوروں کاپیسہ چوہوں کی خوارک بنتا ہے لیکن یہ پھر بھی مزیدچوریوں سے باز نہیں آتے۔ متعددمقتدراوربااثرسیاسی شخصیات کے بیرون ملک دوروں کامالی بوجھ بھی اوورسیزپاکستانیوں کوبرداشت کرناپڑتا ہے،ان کی مغربی ملکوں میں سیروسیاحت کیلئے ہوائی جہازکے ٹکٹ سمیت وہاں قیام وطعام اور شاپنگ پربھی اوورسیزپاکستانیوں کے وسائل صرف ہوتے ہیں ۔سیاست میں سرگرم اوورسیز پاکستانیوں کواپنے نادارومفلس رشتہ داروں کی مالی مدد کرتے ہوئے موت پڑجاتی ہے لیکن وہ سیاستدانوں کی’’ تر‘‘ بڑے شو ق سے بن جاتے ہیں۔سیاستدان طبقہ اپنی اوورسیز’’ تروں‘‘ کے ساتھ تصویربنواتے بنواتے ان کی تقدیراورتوقیر کا مختار بن جاتا اوران سے کئی طرح کے فائدے بٹورتاہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں کسی گورنر سمیت ان کے ماتحت سرکاری عہدیداران کوتجارت کرنے کی قطعی اجازت نہیں تھی لیکن آج اسلامی ملکوں کے حکمرانوں سمیت ان کے بیوی بچے ،عزیز واقارب اور سہولت کار تجارت کی آڑ میں ناجائز ہتھکنڈوں سے خوب پیسہ بنارہے ہیں۔ ہردوسراکاروبار حکمران خاندانوں اوران کے حواریوںکی دسترس میںہے،اب تو ان کی ’’ منشاء ‘‘سے ان کے’’ منشی‘‘ بھی اربوں اورعربوں میں کھیلتے ہیں ۔ارباب اقتدار واختیار اپنے پاس آنیوالی اہم ترین اوربیش قیمت معلومات کابھرپورفائدہ اٹھاتے ہیں۔اگراسلامی تعلیمات کی روسے دیکھا جائے تواقتدار کی طرح ہرریاستی راز حکمرانوں کے پاس’’ امانت‘‘ ہوتا ہے لیکن یہ اپنی اوراپنوں کی مالی’’ اعانت‘‘ کیلئے اس میں بدترین خیانت کاارتکاب کرتے ہیں۔اہم عہدوں پربراجمان افراد کی طرف سے منفعت بخش کاروباری معلومات کو باقاعدہ فروخت کیاجاتا ہے،ا س کے ساتھ ساتھ یہ لوگ براہ راست کرپشن بھی کرتے ہیں۔اس کے باوجود حکمران اشرافیہ کے درمیان حالیہ ہوشربا تنخواہوں کی آڑ میں مقروض ملک کے وسائل کی بندربانٹ ایک بڑاسوالیہ نشان بلکہ قومی سانحہ ہے۔ حکومت اوراپوزیشن کاکوئی اعلیٰ عہدیدار یا ممبر پارلیمنٹ ہوشربا مراعات سے دستبردار نہیں ہوا ۔ تعجب ہے لاہورجمخانہ سمیت بڑے بڑے نجی ہوٹل اورکلب اپنی ممبر شپ اورمراعات کے عوض ممبران سے سالانہ اور ماہانہ بنیادوں پر بھاری واجبات وصول کرتے ہیں لیکن سینیٹ سمیت ہمارے سرکاری ایوان ( جو ایک طرح سے کلب بنے ہوئے ہیں) ان کا دو، تین یاپانچ برس کیلئے چیئرمین ، سپیکر یا ممبر منتخب ہونے پر الٹا ممبران کو تاحیات مراعات دی جاتی ہیں، یہ بدترین تضاد کیوں۔ بدقسمتی سے قومی وسائل ہڑپ کرنے کے باوجود اشرافیہ کے پیٹ کا دوزخ نہیں بھرتا کیونکہ یہ صرف قبور کی مٹی سے بھرے گا۔ پاکستان میں ہونیوالی اعلانیہ کرپشن کے واقعات زبان زد عام ہیں لیکن نیب نے آج تک کسی بڑے مگر مچھ کا احتساب نہیں کیا، سو کیوں نہ اس سفید ہاتھی سے چھٹکارا پا لیا جائے۔ اینٹی کرپشن کا زور بھی صرف پٹواریوں اور تھانیداروں پر چلتا ہے، آج تک کوئی بڑی اور گندی مچھلی اس کے شکنجے میں کیوں نہیں آئی۔ جو احتساب پر مامور محکمے سرکاری وسائل پرہاتھ صاف کرنے کے باوجود بدعنوان عناصر کا محاسبہ یا محاکمہ کرنے میں ناکام ہیں، بہتر ہو گا ان کا باب بند کر دیا جائے۔

جواب دیں

Back to top button