Column

حکومت کو کوئی خطرہ نہیں

تحریر : سیدہ عنبرین
صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان کا زمانہ اقتدار تھا، ملک میں ہونے والی اقتصادی ترقی کا جشن منایا جا رہا
تھا۔ بجلی پیدا کرنے کیلئے منگلا اور تربیلا ڈیم، نہری نظام، گندم میں خود کفالت کی منزل، کپاس اور پٹ سن کی ایکسپورٹ کے علاوہ پاکستان کے خوشبودار چاول اور پھلوں کی دنیا میں دھوم مچی تھی، کرنسی مستحکم، ڈالر چھ روپے میں دستیاب تھا۔ سونا چند روپے تولہ بک رہا تھا۔ ملاوٹ نام کی چیز نہ تھی، بد قماش اور بد کردار افراد رشوت لینا چاہتے تھے مگر ڈرتے رہتے تھے۔ جب کوئی پکڑا جاتا تو دین و دنیا اندھیر ہو جاتی، فقط دس روپے میں آٹے کا بیس سیر کا تھیلا دستیاب تھا، آٹھ آنے میں یعنی پچاس پیسے میں پانچ روٹیاں ملتی تھیں، تنور پر بیٹھ کر روٹی کھانے والے مزدور کو دو روٹیوں کے ساتھ دال مفت میں دی جاتی تھی، جبکہ برف کے ٹھنڈے پانی کا ڈرم نما کولر ہر شخص کی پیاس بجھانے کیلئے ہر وقت موجود رہتا تھا، ڈاکٹر مریض کے گھر آکر معائنہ کرتا تو فیس طلب کرتے ہوئے شرماتا تھا، مہذب لوگ لفافے میں پانچ روپے کا نوٹ رکھ کر اس کی جیب میں ڈال دیتے تو کبھی لفافہ کھول کر نہ دیکھتا، آج کی سرکاری زبان میں اسے بیان کیا جائے تو کہہ سکتے ہیں پاکستان پرواز کر رہا تھا، کوئی شخص ایسا نہ نظر آتا جس کا رزق اس کی پرواز میں کوتاہی کا سبب بنتا، بھارت کی طرف سے مسلط کردہ سترہ روزہ جنگ بھی اس پرواز کو ختم نہ کر سکی، سرحدوں کے کامیاب اور موثر دفاع نے دنیا بھر میں پاکستان کو نیک نامی عطا کی، خاکی وردی کو وہ عزت نصیب ہوئی جس کا کبھی کوئی تصور نہ کر سکتا تھا، یہی جذبات ایئر فورس اور نیوی کیلئے تھے، افواج پاکستان کے شہیدوں اور غازیوں نے ایک نئی تاریخ رقم کردی، حکومت مزید مضبوط ہوگئی، اس ز مانے کی ایک حیرت انگیز بات، ہر شہر میں ایک سرکاری دفتر روزگار ہوتا تھا، کوئی بھی شخص کسی بھی درجے کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہاں جاتا، اپنی رجسٹریشن کراتا اور ٹھیک چند روز بعد اسے ایک کارڈ موصول ہوتا، جس میں بتایا جاتا فلاں سرکاری دفتر میں آپ کی تعلیم کے مطابق فلاں نوکری، فلاں گریڈ میں موجود ہے، آپ جائیں اور اسے جوائن کریں، بے روزگار شخص رات بھر مارے خوشی کے سو نہ پاتا، صبح سویرے اس دفتر میں جاکر افسر مجاز سے ملتا، اسے اپنا دفتر روزگار کا جاری کردہ کارڈ دکھاتا ، اسی وقت اسے متعلقہ شعبے میں بھیج دیا جاتا، اس کی حاضری شروع ہو جاتی، وہ چند روز میں کام سمجھ جاتا، پہلی تاریخ کو تنخواہ ملنے پر پھولا نہ سماتا، گھر واپس آتے ہوئے ایک سیر مٹھائی کا ڈبہ لانا نہ بھولتا، جس سے ہمسایوں کا منہ میٹھا کرایا جاتا، مٹھائی پانچ روپے سیر تھی، یعنی آج کے ایک کلو سے کچھ زیادہ، برسر روزگار ہونے والا شخص اپنی اس کامیابی کو ماں کی دعا بتاتا، جب سے اب تک بس یہی بات نہیں بدلی، باقی سب کچھ بہت بدل گیا ہے۔
اسی زمانے میں ہوا کے دوش پر پرواز کرتا پاکستان امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ بھارت کو کھٹکنے لگا، لہٰذا پاکستان میں ایوب خان کی حکومت کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا، سوا روپے فی سیر ملنے والی چینی ایک روپیہ چھ آنے سیر ہو گئی تو اس کمر توڑ مہنگائی کے بہانے ملک گیر مہنگائی کے خلاف تحریک شروع ہو گئی۔ لوگوں کو سڑکوں پر لایا گیا اور ان کے علم میں اضافہ کیا گیا کہ آپ کے ملک پر ایک فوجی حکمران مسلط ہے، جس نے نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے، اسے اکھاڑ پھینکنا بہت ضروری ہے، جس کے بعد جمہوریت آئیگی، اس کے ثمرات سے ہر شخص مالا مال ہو جائے گا، حتیٰ کہ مزدور کارخانوں کا مالک بن جائے گا۔ ایوب خان کے خلاف چلنے والی، مہنگائی کے خلاف شروع ہونے والی تحریک، تحریک بحالی جمہوریت بن گئی، جس کے نتیجے میں انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا، جمہوریت لانے کیلئے جنرل یحییٰ خان نے انتخابات کرا دئیے، اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو اقتدار نہ دیا، بھارت نے مشرقی پاکستان میں اپنی فوج داخل کر دی، باقاعدہ جنگ شروع ہو گئی، پاکستان دو لخت ہو گیا، ہتھیار ڈال دیئے گئے۔
دوسرے نمبر پر آنے والی سیاسی جماعت کو اقتدار بخش دیا گیا، بتایا گیا مغربی پاکستان کو بچا لیا گیا ہے، نئے پاکستان کی تعمیر شروع ہو گئی، ہزار سال جنگ لڑنے کی بات کسی کو یاد نہ رہی، نہ ہی کسی کو پھر یاد آیا کہ ملک میں چینی دو آنے مہنگی ہوگئی تھی۔
ایک روپے چھ آنے فی سیر ملنے والی چینی آج ایک سو پچانوے روپے فی کلو ہو چکی ہے، یعنی اس رقم میں بھی ملنے والی چینی ایک سیر سے کچھ کم ہے، مگر سرکار مطمئن ہے اور اپنے موقف پر قائم ہے ملک اڑ رہا ہے۔
گزشتہ سیزن میں ملکی ضروریات کے مطابق چینی ملک میں موجود تھی، اچانک مافیا متحرک ہوا، اس نے فیصلہ حاصل کر لیا کہ ملک میں چینی کے ذخائر ہماری ضرورت سے زیادہ ہیں، لہٰذا فاضل سٹاک ایکسپورٹ کر دیا جائے، یہ خبر باہر نکلی تو ملک کے کونے کونے سے آواز آئی یہ فیصلہ ہمارے مفاد میں نہیں ہے، اس سے چینی کی قیمت میں اضافہ ہو گا، کسی نے اس آواز پر کان نہ دھرے، چینی ایکسپورٹ کر دی گئی، ایک خاص طبقے نے خوب مال کمایا، چینی ایک سو ساٹھ روپے کلو سے بڑھتی چڑھتی ایک سو نوے روپے کلو تک پہنچ گئی، کسی کی کھال پر جوں نہ رینگی۔ عام آدمی کی کھال پہلے بجلی اور گیس کے بل اتار رہے تھے، زخموں پر چینی چھڑک کر نیرو خوش ہوتا رہا، اس کی بانسری نے نئی دھن چھیڑ دی کہ پاکستان نے چینی ایکسپورٹ کر کے زرمبادلہ کمایا ہے، کوئی گناہ نہیں کیا، گناہ تو درحقیقت عام آدمی کا ہے، وہ اب تک زندہ کیوں ہے، حالانکہ اسے موت کے گھاٹ اتارنے کی کوششیں ہر روز ہوتی ہیں۔ عجیب ڈھیٹ قوم ہے پھر بھی سانس لے رہی ہے، گو سسک رہی ہے مگر زندہ ہے، جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ملک میں چینی کی قلت پڑ گئی تو عوام کے مفاد میں پانچ لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ ہوا ہے، فیصلے کا اعلان اب ہوا ہے فیصلہ گزشتہ ماہ ہوا تھا۔ چینی کے جہاز کراچی پہنچ چکے ہیں، کراچی لینڈ کرنے والی چینی دو سو روپے کلو میں کراچی تک پہنچی ہے۔ مارکیٹ آتے آتے اس کا ریٹ اس سے مزید اوپر ہو گا، لیکن فکر کی کوئی بات نہیں، چینی مہنگی ہونے سے حکومت تبدیل ہونے کا کوئی خطرہ نہیں، قوم سو رہی ہے، پلیز ڈوناٹ ڈسٹرب۔

جواب دیں

Back to top button