ہم اتنے ہی فیاض ہیں تو پھر ہمارے ملک میں غربت کیوں ؟

ہم اتنے ہی فیاض ہیں تو پھر ہمارے ملک میں غربت کیوں ؟
عقیل انجم اعوان
یقیناً یہ ہمارے لیے فخر کا مقام ہے کہ ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کے دل میں سخاوت کی لو ہمیشہ روشن رہی ہے۔ ہم اس خیرات پر نازاں ہیں جو ہم دن رات بانٹتے ہیں۔ کبھی سڑک کنارے کسی بھوکے کو روٹی تھماتے ہیں تو کبھی کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ کبھی کسی مسجد کے چندہ بکس میں نوٹ ڈال دیتے ہیں تو کبھی کسی مدرسے کی سالانہ تقریب میں دل کھول کر عطیہ کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہماری تربیت کا حصہ ہے۔ ہمارے عقیدے کا پرتو ہے۔ ہمارے اجتماعی شعور کی گواہی ہے۔ ہمیں اس پر بجا طور پر فخر ہے۔ مگر اس شان دار داستان کے پس منظر میں ایک خاموش مگر چبھتا ہوا سوال اپنی جگہ قائم ہے۔ اگر ہم واقعی اتنے ہی فیاض ہیں تو پھر ہمارے ملک میں غربت کیوں بڑھتی جا رہی ہے؟ اگر ہم دنیا کی سب سے زیادہ خیرات کرنے والی اقوام میں شامل ہیں تو پھر ہر گلی ہر کوچے میں مانگنے والے کیوں نظر آتے ہیں۔ اگر ہمارے دلوں میں اتنا ہی درد ہے تو پھر ہم اپنے بھائیوں بہنوں کو ننگ و نوا کیوں دیکھتے ہیں۔ عالمی بینک کی تازہ ترین رپورٹ ہمیں یہ چونکا دینے والی خبر سناتی ہے کہ پاکستان کی قریب نصف آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ یہ محض ایک شماریاتی بیان نہیں بلکہ ہماری قومی خودی کے ماتھے پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ تو کیا ہم جھوٹ بول رہے ہیں جب ہم خود کو سخاوت کی علامت بتاتے ہیں۔ کیا ہماری خیرات ریاکاری ہے۔ کیا ہم دکھاوا کرتے ہیں ہرگز نہیں۔ یہ سوال نیت پر نہیں طریقے پر اٹھتا ہے یہ تنقید ہمارے جذبے پر نہیں بلکہ اس طرز پر ہے جس سے ہم اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں خیرات کا مفہوم زیادہ تر فوری امداد سے جڑا ہوا ہے کسی کو کھانا دے دیا کسی کو کچھ روپے تھما دئیے کسی کو سردی میں کمبل مہیا کر دیا۔ یہ سب کچھ دل کی آواز پر کیا جاتا ہے، خلوص سے کیا جاتا ہے مگر یہ وقتی سہارے اگر مستقل روایت بن جائیں تو یہی خیرات غربت کے خاتمے کے بجائے غربت کے تسلسل کا سبب بن جاتی ہے۔ اسلام نے خیرات کا تصور ضرور دیا مگر ساتھ ہی خود داری کا درس بھی دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اس حدیث میں صرف دینے کی فضیلت نہیں بلکہ لینے سے بچنے کی تلقین بھی ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اصل سخاوت وہ ہے جو کسی کو سہارے سے نکال کر خود مختاری کی طرف لے جائے۔ محض ہاتھ پکڑ لینا کافی نہیں ہاتھ تھام کر اٹھانا ضروری ہے۔ مدد اس وقت تک مفید ہے جب تک وہ کسی کو سہارا دے کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل نہ بنا دے بصورت دیگر یہی مدد انسانی خودی کے لیے زہر بن جاتی ہے۔ جب ہم خیرات ایسے انداز میں دیتے ہیں جو لینے والے کی عزت نفس کو مجروح کرے تو ہم لاشعوری طور پر اس کی انسانی حیثیت سے کھیل رہے ہوتے ہیں ایک خود دار انسان کے لیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا ایک اذیت ناک مرحلہ ہوتا ہے۔ مگر جب ہم اس اذیت کو معمول بنا دیتے ہیں تو ہم اس انسان کو ایک ایسے دائرے میں دھکیل دیتے ہیں جہاں اس کے لیے مانگنا ہی واحد راستہ بچتا ہے۔ ہم خیرات دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے فرض ادا کر دیا۔ مگر ہم یہ نہیں دیکھتے کہ اس خیرات نے لینے والے کو کہاں پہنچایا۔ کیا وہ کل کو کسی اور کا سہارا بن سکے یا وہ مزید مدد کا محتاج ہو گیا۔ یہ بات ہرگز نہیں کہ خیرات بند کر دی جائے۔ بلکہ یہ عرض ہے کہ اسے حکمت کے ساتھ دیا جائے۔ اسے محض وقتی امداد نہ سمجھا جائے بلکہ ایک طویل مدتی منصوبے کا حصہ بنایا جائے۔ ہم ایسے ادارے تشکیل دیں جو خیرات کو ترقی کا ذریعہ بنائیں۔ ہم ایسے ماڈل اپنائیں جو غربت کے دائروں کو توڑیں اور خود کفالت کے راستے کھولیں۔ ہم خیرات کو رحم دلی کا نہیں بلکہ ذمہ داری کا ایک شعوری اظہار بنائیں۔ دنیا میں اس سوچ کی کئی زندہ مثالیں موجود ہیں۔ بنگلہ دیش میں بی آر اے سی جیسے ادارے نے تعلیم اور ہنر کے ذریعے لاکھوں افراد کی زندگی بدل دی۔ خاص طور پر خواتین کو کاروبار کے مواقع دے کر انہیں نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا کیا بلکہ معاشرے میں ایک موثر کردار بخشا۔ ترکی کا زکوٰۃ فائونڈیشن بھی محض راشن بانٹنے پر قناعت نہیں کرتا بلکہ پناہ گزینوں کو معاشی سرگرمیوں میں شامل کرتا ہے۔ انہیں چھوٹے کاروبار شروع کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرتا ہے۔ چین نے تو اس سے بھی آگی بڑھ کر پائیدار ترقی کے منصوبے متعارف کرائے۔ سڑکیں بنائیں۔ اسکول قائم کیے۔ ٹریننگ سینٹر کھولے۔ اور اس منصوبہ بندی کے ذریعے آٹھ سو ملین سے زائد افراد کو غربت سے نکال دیا۔ ان سب مثالوں میں ایک نکتہ مشترک ہے۔ اور وہ یہ کہ عزت نفس کے ساتھ کی گئی ترقی ہمیشہ دیرپا ہوتی ہے۔ وہ نظام جو انسان کو محض امداد کا عادی نہ بنائے بلکہ اس کے اندر موجود صلاحیت کو بیدار کرے وہی کامیاب ہوتا ہے۔ وہی نظام حقیقی خیرات کا مظہر ہوتا ہے۔ پاکستان بھی اسی سمت میں قدم بڑھا سکتا ہے۔ ہمارے یہاں خیرات سے چلنے والے ادارے اگر صرف راشن بانٹنی کی بجائے ہنر سکھانے لگیں۔ اگر وہ ٹریننگ سنٹرز کھول دیں۔ اگر وہ چھوٹے کاروباروں میں سرمایہ کاری کریں۔ اگر وہ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع دیں۔ تو ہم ان خاندانوں کی تقدیر بدل سکتے ہیں جو آج محرومی کے اندھیروں میں گم ہیں۔ ہمیں ایسے ماڈل اپنانے ہوں گے جو خود مختاری پر مبنی ہوں۔ ہمیں ایسے منصوبے بنانے ہوں گے جو خیرات کو ایک متحرک قوت میں بدل دیں۔ ہم تعلیم اور تربیت کے میدان میں خیرات کو بروئے کار لا سکتے ہیں۔ ہم چھوٹے کاروباروں کے لیے قرضہ اسکیمیں چلا سکتے ہیں۔ ہم خواتین کے لیے روزگار کے محفوظ اور عزت دار مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔ ہم یتیموں کے لیے جدید تعلیمی ادارے قائم کر سکتے ہیں۔ اور ہم ان تمام سرگرمیوں کو شفافیت کے اصولوں کے تحت چلا سکتے ہیں تاکہ ہر دیا گیا پیسہ ایک مقصد کو حاصل کرے۔اگر ہم اپنے وسائل کو درست سمت میں استعمال کریں تو یہ قوم اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے۔ ہم ایک ایسے پاکستان کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جہاں نہ کوئی بھوکا سوئے نہ کوئی تعلیم سے محروم ہو۔ جہاں خیرات صرف وقتی سہارا نہ ہو بلکہ مستقل آزادی کا ذریعہ ہو۔ یہ بات ہمارے دل پر نقش ہونی چاہیے کہ کسی کو کھانا دینا عظیم کام ہے مگر کسی کو کھانا کمانے کے قابل بنانا اس سے کہیں زیادہ بڑا کام ہے۔ کسی کو کپڑا دینا احسان ہے مگر کسی کو روزگار دینا اس کی عزت بچانا ہے۔ کسی کو ایک رات کے لیے چھت دینا نیکی ہے مگر کسی کو اپنی چھت کا مالک بنانا صدقہ جاریہ ہے۔ ہمیں خیرات کے اس نکتے کو سمجھنا ہوگا۔ ہمیں اپنی سوچ کا داءرہ وسیع کرنا ہوگا۔ ہمیں وقتی مدد سے نکل کر پائیدار ترقی کی طرف آنا ہوگا۔آج جب ہم خیرات کرتے ہیں تو ہمیں ایک لمحے کے لیے رک کر سوچنا چاہیے کہ کیا ہمارا دیا ہوا صدقہ کسی کی زندگی میں روشنی لا رہا ہے یا محض ایک عادت کو تقویت دے رہا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارے عطیے سے کسی کی منزل قریب ہوئی یا وہ مزید بھٹک گیا۔ ہمیں ہر امداد کو ایک بیج سمجھنا ہوگا۔ ایک ایسا بیج جو اگر درست زمین میں بویا جائے تو ایک درخت بن سکتا ہے۔ ایک سایہ دار درخت جو دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکے۔ ہمیں وہ قوم بننا ہے جو صرف دیتی نہیں بلکہ اٹھاتی ہے۔ جو صرف سہارے نہیں دیتی بلکہ خود مختاری عطا کرتی ہے۔ جو صرف راشن نہیں بانٹتی بلکہ خواب دیتی ہے۔ جو صرف آج کی بھوک نہیں مٹاتی بلکہ کل کے لیے خود کفالت کا بندوبست کرتی ہے۔ ہم واقعی ایک عظیم قوم ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی عظمت کو ایک نئی شکل دیں۔ ایسی شکل جو دنیا کے سامنے مثال بنے۔ جو ہمارے آنے والے بچوں کے لیے امید کی کرن بنے اور جو ہمیں اس منزل تک پہنچائے جس کا خواب ہم نے قیام پاکستان کے وقت دیکھا تھا۔ اب ہمیں وہ قوم بننا ہے جو ہر ہاتھ کو خالی نہیں چھوڑتی بلکہ ہر ہاتھ کو محنت کا ہنر سکھاتی ہے جو ہر آنکھ سے آنسو نہیں پونچھتی بلکہ ہر آنکھ میں خواب جگاتی ہے جو ہر دل میں صرف درد نہیں بانٹتی بلکہ حوصلہ اور ہمت بھی ڈالتی ہے اور جو ہر فرد کو صرف محتاجی سے نہیں نکالتی بلکہ خود کفالت کی منزل پر لا کھڑا کرتی ہے۔ یہی اصل خیرات ہے یہی اصل سخاوت ہے اور یہی پاکستان کی اصل پہچان بن سکتی ہے۔





