Column

تھرڈ امپائر۔۔۔۔۔۔۔۔

تھرڈ امپائر۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی آبادی ایک سنگین مسئلہ
تحریر : محمد ناصر شریف
قدرت نے انسانی آبادی میں توازن ہمیشہ رکھا ہے جب آبادیاں بڑھ جاتی ہیں اور وسائل کم پڑنے لگتے ہیں تو قدرت خود ہی اس کا انتظام کر دیتی ہے، چاہے وہ وبائی امراض کی شکل میں ہو یا جنگیں، سیلابی صورتحال ، طوفان اور زلزلے اس کا ذریعہ بنیں، قدامت پسند اس دلیل کے ساتھ بہبود آبادی کے کبھی حامی نہیں رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان طویل عرصے سے آبادی میں بے تحاشہ اضافے کا شکار ہے۔
پاکستان میں ہر سال آبادی میں 61لاکھ کا اضافہ ہوتا ہے، ہماری آبادی میں اضافہ ایک سرکش اور سرپٹ دوڑتے گھوڑے کی طرح ہے جس پر کسی کا کوئی اختیار نہیں نتیجتاً ریاست اس آبادی کیلئے مناسب سہولتیں مہیا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی، چنانچہ تعلیم ، صحت، مکانات، پانی اور دیگر شہری سہولتیں ناکافی ثابت ہورہی ہیں اور جو سہولتیں میسر ہیں وہ آبادی کے بے جا بوجھ کی وجہ سے غیر معیاری اور ناقص ہوچکی ہیں۔ دوسری طرف والدین اپنے بچوں کو اُن کی تعداد کے پیشِ نظر وہ سہولتیں مہیا نہیں کر پاتے جو والدین کی خواہش اور بچوں کا حق ہوتا ہے ۔اعداد و شمار کے مطابق 68فیصد بیماریاں گندا پانی پینے سے پھیلتی ہیں۔ ہیپاٹائٹس کے مریضوں میں پاکستان سب سے آگے ہے۔ 2کروڑ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں جبکہ پاکستان کے 40فیصد بچے غذائیت کی قلت کے باعث کمزور ہیں، ان کی نشو و نما نہیں ہو پاتی ۔
پاپولیشن کونسل کی رپورٹ ’’ پاکستان 2050‘‘ کے اعدادوشمار کے مطابق اگر پاکستان کی آبادی اس طرح بڑھتی رہی تو 2050ء تک پاکستان آبادی تقریباً38کروڑ 60ہو جائے گی لیکن پاکستان اگر سی سی آئی کے فیصلوں پر عمل درآمد کرتا ہے اور آبادی میں اضافے کی رفتار میں کمی لاتا ہے تو آبادی 33کروڑ 80لاکھ تک محدود رہے گی۔ اسی طرح موجود ہ صورتحال رہی تو 2050ء تک 115ملین نئی ملازمتوں کی ضرورت ہوگی جبکہ سی سی آئی کے فیصلوں پر عمل درآمد سے یہ تعداد 97ملین تک محدود رہے گی۔
معیشت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو سی سی آئی کے فیصلوں پر عمل کرکے شرحِ بارآوری کو 2.2فیصد کی سطح پر لا کر جی ڈی پی گروتھ کو5.1فیصد تک بڑھایا جا سکتا ہے جو موجودہ صورتحال کے تسلسل کے نتیجے میں صرف 3.4فیصد تک محدود رہے گی۔ دوسری جانب موجود صورتحال کے تسلسل سے فی کس ماہانہ آمدنی 27ہزار روپے رہے گی جس کو سی سی آئی کے فیصلوں پر عمل درآمد سے 36ہزار تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
مالی سال 25۔2024کے قومی اقتصادی سروے میں بتایا گیا کہ ملک کی اہم فصلوں کی پیداوار میں 13.49فیصد کمی آئی ہے۔ مکئی کی پیداوار میں 15.4فیصد، چاول میں 1.4فیصد کمی ہوئی۔ کپاس میں 30فیصد، گندم میں 8.9فیصد، گنے کی پیداوار میں 3.9فیصد کمی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق زرعی شعبے میں اضافہ صرف 0.6فیصد رہا۔ آلو کی فصل میں 11.5فیصد، پیاز میں 15.9فیصد اضافہ ہوا۔ ملکی معیشت استحکام کی جانب گامزن ہے مہنگائی پر قابو پا لیا گیا ہے۔ رواں مالی سال جی ڈی پی گروتھ 2.7فیصد رہی افراط زر 4.6فیصد ہے۔
وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال اس مسئلے کو بھرپور انداز سے اٹھا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں آبادی 3.6فیصد کے حساب سے بڑھ رہی ہے ، پاکستان میں ہر سال آبادی میں 61لاکھ کا اضافہ ہوتا ہے، ایران اوربنگلہ دیش اسے 2 فیصد تک کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ پاکستان کی آبادی دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگر آبادی کی بڑھنے کی شرح کو کنٹرول نہیں کیا گیا تو کوئی قومی پالیسی یا پلان کامیاب نہیں ہوگا اور پالیسیوں اور منصوبہ بندی کی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔اگر پاکستان نے ترقی کی منازل طے کرنی ہیں تو ہمیں اپنی آبادی اور وسائل میں توازن پیدا کرنا ہوگا جس کیلئے سی سی آئی کے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔ دوسری صورت میں پاکستان کے موجودہ مسائل میں ابتری آنے کا خدشہ ہے۔ اس حوالے سے میڈیا کو اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگا اور خبروں کے ذریعے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے پیدا ہو نے والے مسائل پر توجہ دلا کر حکومتوں کو خاندانی منصوبہ سازی کی سہولیات کی فراہمی میں بہتری لانے پر قائل کرنا ہوگا۔
آبادی میں یہ ہوشربا اضافہ ملکی وسائل پر مزید دبائو کا باعث بن رہا ہے۔ پہلے ہی ملک کی غذائی ضروریات مقامی پیداوار سے پوری نہیں ہو پا رہیں، روزگار کے مواقع بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ توانائی کی کھپت اتنی زیادہ ہے کہ بجلی اور گیس کی بلا تعطل فراہمی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ تعلیمی اداروں اور مراکزِصحت کی تعداد بھی ناکافی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ملکی آبادی میں نوجوانوں کا حصہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس وقت قریب دو تہائی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، جنہیں تعلیم، تربیت اور روزگار کے مواقع چاہئیں مگر کمزور معیشت کے سبب یہ سب نہیں ہو پا رہا۔ بڑھتی آبادی حقیقی معنوں میں اس وقت ام المسائل بن چکی ہے، جس پر قابو پانے کیلئے جامع منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔مانع حمل اقدامات کے فروغ پر ورکشاپ کروا کے حکومت کو لگتا ہے کہ اس نے تو اپنا کام پورا کر لیا ہے۔ حکومت کا سارا زور مانع حمل اقدامات کے استعمال پر لگ گیا ہے، یہ فرصت کسی کو نہیں کہ یہ بھی سوچا جائے کہ ان اشیا کے استعمال کو یقینی کیسے بنایا جائے؟۔
اور دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا حل آبادی کو کم یا زیادہ کرنے کا تو ہے ہی نہیں بلکہ سارا مسئلہ وسائل کی کمی کا ہے۔ تو لہٰذا ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، جس میں بڑھتی ہوئی آبادی پر اس طرح سرمایہ کاری کی جائے، جس میں ہر قسم کے لوگوں کے لئے معاشی مواقع فراہم کئے جا سکیں۔
بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل کی کمی کا مسئلہ وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر سرفہرست ہونا چاہیے۔ لیکن جہاں وفاقی اور صوبائی سیاست کے حربے اور وسائل کی تقسیم ہی آبادی پر چل رہے ہوں، وہاں کسی کو کیا فکر کہ کتنے بچے پیدا ہوئے اور کیسے مر گئے؟۔ اور وسائل کہاں سے پیدا کئے جائیں گے۔

جواب دیں

Back to top button