
جگائے گا کون؟
ٹرمپ پاکستان پر مہربان کیوں؟
تحریر: سی ایم رضوان
پاکستان میں خلائی ٹیکنالوجی کے لئے استعمال ہونے والی بعض مہنگی اور نایاب قسم کی معدنیات کی اہمیت ان دنوں بہت زیادہ ہو گئی ہے، کیونکہ یہ معدنیات عصر حاضر کی سب سے زیادہ مانگ رکھنے والی خلائی ٹیکنالوجی کے مختلف شعبوں میں استعمال ہوتی ہیں اور اس خلائی ٹیکنالوجی کی ترقی اور کارکردگی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ پاکستان میں پائے جانے والی کچھ اہم معدنیات جو خلائی ٹیکنالوجی میں استعمال ہو سکتی ہیں ان میں تانبا سر فہرست ہے۔ یہ معدن الیکٹرانک آلات اور خلائی جہازوں کے پرزوں میں استعمال ہوتی ہے۔ اسی طرح کرومائیٹ ایسے خصوصی مرکبات بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو خلائی جہازوں کے ڈھانچے اور دیگر حصوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ لوہا بھی خلائی جہازوں کے ڈھانچے اور دیگر حصوں میں استعمال ہوتا ہے جبکہ کوئلہ توانائی کے ذرائع کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں پائی جانے والی قدرتی گیس بھی توانائی کے ذرائع کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ اسی طرح پاکستانی سیمنٹ بھی خلائی اڈوں اور دیگر ڈھانچے کی تعمیر میں بہتر طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ معدنیات نہ صرف خلائی جہازوں کی تعمیر اور دیکھ بھال میں استعمال ہوتی ہیں بلکہ خلائی تحقیق اور ترقی کے لئے بھی ضروری ہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ پاکستان اپنی معدنیات کا صحیح استعمال کرتے ہوئے خلائی ٹیکنالوجی میں خود کفالت حاصل کرنے کی کوشش کرتا اور خود اس ٹیکنالوجی پر دسترس رکھتا لیکن افسوس کہ دیگر شعبوں کی طرح اس شعبے میں بھی موجودہ دور میں جبکہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو ان معدنیات کی ضرورت ہے۔ اب بھی ہم تحقیق و ترقی کے حصول کی بجائے نقد پیسے کمانے اور کمیشن کھانے کے پروگرام پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔ اب جبکہ امریکہ میں سیاروں کے وسائل اور خلائی صنعتیں جیسے ناموں سے جدید دنیا میں بڑی بڑی کمپنیاں بن چکی ہیں جن کا مقصد سیارچوں پر معدنیات کی تلاش ہے جبکہ ہم ان کے بڑے مقاصد کی تکمیل کے لئے خام مال دے کر ہی خود کو بڑا کامیاب تصور کر رہے ہیں۔ یعنی اللّہ تعالیٰ نے تو اپنے فضل سے پاکستان کو ان معدنیات سی مالا مال کر رکھا ہے مگر ہماری اشرافیہ نے ان وسائل کو بھی محض اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے باپ کا مال سمجھ رکھا ہے۔ اب تک ہمارے جیسی قوموں کے لئے خلائی ٹیکنالوجی کا تصور محض چاند تک پہنچنے تک کا تھا لیکن آج کی حقیقت یہ ہے کہ اب اس دنیا کی بقاء کا بہت زیادہ دارومدار اسی تحقیق پر ہو گا۔ آج ہمارے لئے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم سیارچوں سے دھاتیں نکالنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ یاد رہے کہ قیام پاکستان کے وقت یہ خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ آئندہ چند سالوں میں ہم خلا میں موجود سیارچوں سے معدنیات نکال رہے ہوں گے لیکن آج پچھتر سال گزرنے کے بعد بھی ہم ابھی تک ان سیارچوں کے قریب تک نہیں پہنچے مگر کچھ بڑے ممالک اس تحقیق میں ہم سے اتنا آگے پہنچ گئے ہیں کہ ہم اس منزل کا صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ آج دنیا بھر میں روزانہ لاکھوں ٹن مختلف قسم کی خام معدنیات زمین سے نکالی جارہی ہیں جو کہ مذکورہ ممالک کی ضرورت ہے اور آئے روز ان کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان سے محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں کیونکہ وہ اور ان کے کچھ رشتے دار ان خلائی ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والی مہنگی ترین معدنیات کا کاروبار کر رہے ہیں جبکہ یہ معدنیات پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور کے پی کے میں وافر مقدار میں موجود ہیں۔ ٹرمپ ان دنوں پاکستان سے پیار محبت سے ان معدنیات کے حصول کے معاہدے کر رہے ہیں یا کر چکے ہیں جبکہ پاکستانی اشرافیہ تو اس بہتی گنگا سے خوب ہاتھ دھوئیں گے مگر عوام کے حصے میں وہی بدنصیبی آئے گی جو کہ 1947ء سے اس کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دو ماہ قبل وزیر اعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور متعدد وزرا نے اسلام آباد میں معدنیات کے متعلق منعقد ہونے والے 2روزہ پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم 2025ء سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں معدنیات کے ذخیروں، ان کی دریافت سے حاصل ہونے والے مالی وسائل سے متوقع ترقی اور سرمایہ کاری کے بارے میں امید افزا باتیں کی تھیں۔ وزیر اعظم نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ پاکستان میں کھربوں ڈالر کے معدنی ذخائر ہیں۔ ان معدنی ذخائر سے مستفید ہو کر پاکستان قرضوں کے چنگل سے آزاد ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کو بھی خیر باد کہا جا سکتا ہے۔ حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہونا یہ صرف قوم کو ٹرک کی ایک نئی بتی کے پیچھے لگانے کی کوشش تھی یا پھر دیہاڑی اور لگنے کی خوشی میں ان کے جوش نے بھرپور انگڑائی لی تھی۔ اسی طرح آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ مجھے پختہ یقین ہے کہ پاکستان عالمی معدنی معیشت میں ایک رہنما کے طور پر ابھرنے کے لئے تیار ہے۔ اگر ایسا کچھ ہوتا تو آج دو ماہ بعد ضرور کچھ نظر آ جاتا مگر رات گئی بات گئی۔ آج اگر پاکستانی عوام کے پیروں کے نیچے وسیع معدنی ذخائر، ہاتھوں میں مہارت اور حکومت کے پاس شفاف معدنی پالیسی ہے تو اس سب کے ہوتے ہوئے بھی مایوسی اور بے عملی کی کوئی کمی نہیں ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ یہ حکومت والے آگے بڑھتے اور بلاتاخیر جدوجہد کرتے۔ مگر یاد رہے کہ اسی تقریب کی انہی تقاریر میں انہوں نے معدنی ذخائر میں سرمایہ کاری کرنے اور مہارت فراہم کرنے والے ملکوں اور کمپنیوں کو مکمل سکیورٹی فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ یقیناً یہ وعدہ تو پورا ہو گیا ہو گا اور کام بھی شروع ہو گیا ہو گا مگر عوام کو تو پچھلے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک بڑے اضافے جیسا ریلیف ملا ہے۔ یعنی سول و عسکری قیادت کی یہ باتیں تو خوش آئند اور حوصلہ افزا ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ یہ معدنی ذخائر تلاش کرنے اور انہیں قومی معاشی ترقی میں بروئے کار لانے کے لئے سخت محنت، صبر اور ٹھوس منصوبہ بندی کہاں سے آئے گی۔ یہ کوئی ایسا منصوبہ نہیں ہے جس میں کوئی بھی شہری کدال اٹھا کر محنت کرے اور آرمی چیف کے بقول اپنی اور ملک کی تقدیر تبدیل کر دے۔ یعنی باتوں کی حد تک یہ سب خیالات خوش کن ضرور تھے مگر انہیں عملی جامہ پہنائے جانے کے بعد جس معاشی لہر بہر کی توقع دلائی گئی تھی اس کے آثار تو ابھی تک نظروں سے اوجھل ہیں۔ وزیر اعظم نے تو اپنی تقریر میں آسانی سے یہ فرما دیا تھا کہ پاکستان میں کھربوں ڈالر کی معدنیات دفن ہیں۔ بس اب انہیں تلاش کرنے اور بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ متعدد معدنیات جن میں ایسی نایاب زمینی منرلز بھی شامل ہیں جو جدید ہائی فائی خلائی ٹیکنالوجی میں استعمال ہوتے ہیں، کے بارے میں محض ابتدائی سروے یا قیاس آرائیاں ہی موجود ہیں۔ یہ تو قابل فہم ہے کہ وزیر اعظم شدید مہنگائی اور معاشی مشکلات کا سامنا کرنے والے پاکستانی عوام کو حوصلہ و امید کا پیغام دینا چاہتے ہیں لیکن انہیں ایسے مواقع پر الفاظ کے چنائو میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں پر حقیقی صورت حال واضح ہو اور کل کلاں کوئی سوشل میڈیا ٹرینڈ یہ دعویٰ کرتا دکھائی نہ دے کہ ملک سے کھربوں ڈالر کی معدنیات نکلی تھیں لیکن نا اہل اور بدعنوان سیاست دان انہیں ہڑپ کر گئے۔ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ کوئلے کے ذخائر کے علاوہ بلوچستان میں ریکوڈک کے مقام پر تانبے اور سونے کے معلوم ذخائر کا پتہ لگایا گیا ہے۔ تاہم انہیں دریافت کرنے، کانوں سے نکال کر کارآمد بنانے اور پھر ان دھاتوں کو فروخت کر کے مناسب آمدن یا قومی ٹیکنالوجی کی منزل کا حصول محض خواب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان منصوبوں سے قومی معیشت کے لئے سرمایہ حاصل کرنے کے عمل میں کئی دہائیاں صرف ہو سکتی ہیں۔ ریکوڈک کے مقام پر تانبے اور سونے کے ذخائر دریافت کرنے اور بروئے کار لانے کے لیے آئندہ پانچ سے دس سال کے دوران چار سے پانچ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہو گی۔ اس کے بعد آئندہ چالیس پچاس سال میں پچاس ساٹھ ارب ڈالر کی معدنیات نکالی جا سکیں گی۔ ان کی دریافت، تلاش اور قابل فروخت بنانے پر آنے والی لاگت نکال کر پاکستانی معیشت میں شامل ہونے والے وسائل کی شرح، وہ نہیں ہوگی جس کا تاثر وزیر اعظم کی تقریر سے ملا تھا کہ پاکستان کے پاس کھربوں ڈالر کی معدنیات ہیں جو ملک کو مالا مال کرنے والی ہیں۔ اسی طرح آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا یہ دعویٰ بھی حقیقت پسندانہ نہیں کہ پاکستان معدنی معیشت میں دنیا کی قیادت کرنے والا ہے۔ واضح ہونا چاہیے کہ معدنیات کی دریافت اور انہیں تلاش کر کے مصرف میں لانے تک کے سارے عمل میں پاکستان کو سرمایہ کاری اور تکنیکی سہولت کاری کے لئے بیرونی ملکوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔ پاکستان کے پاس نہ تو معدنیات کے ذخائر دریافت کرنے کے لئے مالی وسائل ہیں اور نہ ہی وہ تکنیکی طور سے ایسی مہارت کا حامل ہے کہ اس معاملہ میں ہی پاکستانی ماہرین خود کفیل ہوں۔ البتہ امریکی ماہرین اس قابل ہیں کہ وہ اپنی مطلوبہ معدنیات تلاش کر سکیں اور ان کو حاصل کر سکیں ٹرمپ کے رشتے دار بھی بڑے انویسٹر ہیں اور ان دنوں خاصی دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ ان دنوں بڑے ممالک کے درمیان خلائی ٹیکنالوجی کے استعمال کی دوڑ لگی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی پاکستان پر حد سے زیادہ مہربانی کر رہا ہے۔





