ColumnTajamul Hussain Hashmi

اب وہ عالم بن چکا تھا

اب وہ عالم بن چکا تھا
تجمّل حسین ہاشمی
یہ میرے رب ہے جس کی ذات ہمیں مضبوط کئے ہوئے ہے، ورنہ ایسی ایسی ویڈیو، معلومات دنیا بھر سے سامنے آ رہی ہیں، جن کو دیکھ ، سن کر انسان نفسیاتی دبائو کا شکار ہونے لگتا ہے، اللّہ پر یقین انسان کو ترو تازہ رکھتا ہے اور باعث سکون ہے۔
مجھے یاد ہے جب میں نے ماسٹر ان اکنامکس میں داخلہ لیا اور ساتھ میں بچوں کو پڑھانے کا سلسلہ بھی شامل رکھا ، بہت خوب صورت سلسلہ تھا، یادیں انسان کو زندہ رکھتی ہیں، اگر یادیں تعمیری ہوں تو ایسا سکون دیتی ہیں جو ساتھ چلتی ہیں۔اگرآپ کے پلے میں دو نمبر کام ہی ہوں گے، قبر میں جس منہ کے ساتھ جائیں گے۔ اپنی اولاد کو کیا بتائیں گے کہ ہم مافیا تھے، ڈاکو تھے، شریف انسانوں کی زندگیوں کو عذاب بنایا کرتے تھے۔ تھوڑا سوچیں اور اللّہ کے دین کی طرف لوٹ آئیں ۔ وہ میرے ساتھ اکثر نماز پڑھتا، جب بھی ملتا بڑے ادب سے سلام کرتا، ’’ استاد جی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا، مجھے دلی خوشی ہوتی کہ چلو ہمارا ماضی قابلِ احترام تو ہے۔ انسان ویسے بھی بہت کمزور ہے، دوسروں سے عزت چاہتا ہے لیکن خود کسی کو عزت دینے میں دوسرے کو کمیوں میں گنتی کرتا ہے۔ ایسے رویے کڑواہٹ پیدا کرتے ہیں۔ میرے شاگرد کا نام غفران ہے، یہ کوئی 2006ء کی بات تھی، ایک لمبا عرصہ بہت کم نظر آیا۔ بہت پیاری فیملی سے تعلق ہے، آج کل مسجد میں اکثر ملتا ہے، میں نے کبھی تفصیل نہیں پوچھی کہ وہ کن حالات میں ہے یا تھا۔ بس ایک دن اس نے ذاتی مشورہ لیا، میں نے بھی اسے مشورہ دیا، لیکن میں پھر بھی تفصیل میں نہیں گیا کہ وہ کیا کرتا ہے، زندگی کا سفر کیسا چل رہا ہے، مجھے کسی کی ذاتی زندگی میں زیادہ گھسنے کا شوق نہیں اور مجھے خود بھی اچھا نہیں لگتا کہ کوئی میری ذاتی زندگی پر زیادہ سوالات کرے۔ ایک دن نماز عشاء کیلئے میں لیٹ ہو چکا تھا، میں نے سوچا کہ مسجد جا کر ہی نماز ادا کروں، حقیقت بتائوں کہ مسجد میں نماز ادا کرنے کا سکون ہی الگ ہے، خاص کر جب مسجد میں خاموشی ہو، پھر اللّہ سے کھول کر بات کرنے کی کیفیت ہی مختلف ہوتی ہے۔
بہرحال میں اور عدنان مسجد میں اکیلے تھے، وہ میرے پاس آیا اور ایسے ہی بات چیت شروع ہوئی، اس نے مجھے بتایا کہ وہ عالم بن چکا ہے اور مفتی بھی بن چکا ہے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں حیران بھی تھا کیوں عدنان سٹوڈنٹ لائف میں بہت شراتی اور تعلیم کی طرف بہت کم توجہ دیتا تھا با نسبت اپنے دوسرے بھائی بہنوں کے، وہ تھوڑا تیز اور دیگر کاموں میں ایکٹو تھا۔ سن کر بہت خوش ہوا۔ صحافتی کیڑا جگا اٹھا۔ میں نے عدنان سے پوچھا کہ اتنی بڑی تبدیلی کیسے ممکن ہوئی؟ کہنے لگا استاد جی یہ 2010ء کی بات ہے، مجھے حضورؐ سے دل و جان سے محبت ہو گئی تھی، وہ ایسی کیفیت تھی جس کو میں بیان نہیں کر سکتا، بس میں اس کے بعد تبلیغ کے لیے چلا گیا، کافی وقت تبلیغ میں لگایا ۔ قرآن کو سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ درس نظامی میں چلا گیا، میں بچوں کے ساتھ بیٹھتا اور عالم بن رہا تھا۔ میں نے تھوڑا محسوس کیا کہ اس کی باتوں میں تھوڑی دوری، تھوڑی بے چینی تھی۔ میں نے سوال کیا کہ اب آپ کی پہلے والی کیفیت کیسی ہے ؟، اس بات پر عدنان تھوڑا روکا اور بولا استاد جی مت پوچھیں، میں نے اپنی زندگی کئی نامی گرامی عالم دین کے ساتھ گزاری ہے، میں آپ کو کھل کر تفصیل نہیں بتا سکتا، اس کیلئے انتہائی معذرت، لیکن شاید میں تھوڑا جذباتی ہوں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے کئی عالم دین اصل مقصد سے بہت دور جا چکے ہیں، میں یہ الفاظ سب کیلئے نہیں کہہ رہا لیکن جن کے چرچے ہیں، ان میں سے کئی عالم دین حقیقی مقصد سے بہت دور چلے گئے ہیں ، میں نے پھر ایک سوال پوچھا لیکن اس بار میں جو بھی پوچھ رہا تھا وہ سب انتہائی ادب کے ساتھ تھا، بے شک وہ میرا شاگرد ہے، لیکن اس وقت ایک عالم دین میرے ساتھ بیٹھا تھا۔ اس کا ادب و احترام مجھے پر لازم ہے، بے شک وہ مجھے بار بار استاد جی استاد جی کہہ کر بات کر رہا تھا۔ ہم مسجد میں بیٹھے اللّہ کے احکامات اور اس کے نبیؐ کی سنت پر چلنے کا عہد بھی کر رہے تھے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی، یار کمال آدمی ہے، میں نے بہت سنا تھا کہ جو بچے اپنے لڑکپن میں بہت شرارتی ہوتے ہیں وہ اپنی جوانی میں کافی سنجیدہ اور نام پیدا کرتے ہیں، عدنان میرے سامنے تھا اور میں اسے دیکھا کر خوشی محسوس کر رہا تھا۔ اس کی باتوں میں ایک پکا عالم بول رہا تھا، ایک کیفیت تھی، الفاظ میں وژن تھا، باتوں میں گہری تھی، ہر لفظ اللّہ کی وحدانیت پر ختم تھا۔ میں نے ادب سے دوبارہ سوال کیا کہ عدنان مجھے بتائو کہ 2010ء والی کیفیت اور آج کا عدنان کہاں کھڑا ہے۔ بس بہت محتاط الفاظ کے ساتھ جواب دے رہا تھا، کہنے لگا جناب استاد بس اب دل میں ایک ڈر خوف ہے کہ اللّہ مجھے معاف کر دے اور بس جنت میں جگہ ملے جائے ، زندگی کے ان کے سالوں میں جو کچھ میں کئی عالم دین حضرات میں دیکھ چکا ہوں، بہت ڈر سا گیا ہوں، بس اللّہ پاک سے اپنی بخش کی دعا کرتا ہوں کہ اللّہ پاک مجھے اس مقصد پر قائم رکھے جس کیلئے ہمیں پیدا فرمایا ہے ۔

جواب دیں

Back to top button