ColumnImtiaz Ahmad Shad

ذرا سوچئےہوشیاری اور علم: دو پر، ایک پرندہ

ذرا سوچئے
ہوشیاری اور علم: دو پر، ایک پرندہ
امتیاز احمد شاد
دنیا کے ہر انسان کے دل میں بہتر زندگی گزارنے کی خواہش موجود ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ اُس کی دنیا سنور جائے، اُس کا کاروبار خوب چلے، عزت بڑھے اور معاشرے میں مقام حاصل ہو۔ یہ خواہش نہ صرف فطری ہے بلکہ جائز بھی ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اپنے تمام تر شعور، محنت اور ہوشیاری کو صرف دنیا ہی تک محدود رکھتے ہیں؟ یا یہ ہوشیاری ہماری آخرت کی تیاری میں بھی ہمارے ساتھ رہتی ہے؟
یہ سوال اُسی وقت ہمارے ذہن پر دستک دیتا ہے جب ہم حضرت مولانا جلال الدین رومی کی ایک حکایت سنتے ہیں جو نہایت بصیرت آموز ہے۔
یہ حکایت صرف ایک تیلی ( تیل بیچنے والے) کی کہانی نہیں بلکہ ہر اس شخص کے لیے آئینہ ہے جو دنیا کے نفع نقصان کے حساب کتاب میں تو ماہر ہے لیکن اپنی آخرت کے حساب کتاب سے غافل ہے۔
کہانی کچھ یوں ہے، کسی بادشاہ نے ایک تیلی سے دریافت کیا کہ ایک من تلوں سے کتنا تیل نکلتا ہے؟ تیلی نے کہا دس سیر۔ پھر پوچھا دس سیر میں سے؟، تیلی نے کہا اڑھائی سیر۔ بادشاہ نے پوچھا، اڑھائی سیر میں سے؟، تیلی نے کہا اڑھائی پائو۔۔ سلسلہ سوالات کے آخر میں بادشاہ نے پوچھا، ایک تل میں سے کتنا تیل نکل سکتا ہے؟، تیلی نے جواب دیا کہ جس سے ناخن کا سرا تر ہو سکے۔ کاروبار میں تیلی کی اس ہوشیاری سے بادشاہ بہت خوش ہوا اور کہا کہ علم دین سے بھی کچھ واقفیت ہے؟، تیلی نے کہا نہیں۔ بادشاہ نے ناراض ہو کر کہا دنیاوی کاروبار میں اس قدر ہوشیار اور علم دین سے بالکل بے خبری۔ اس کو قید خانہ میں لے جائو۔ جب تیلی کو قید خانے میں لے جانے لگے تو تیلی کا لڑکا خدمت میں عرض کرنے لگا، میرے باپ کے جرم سے مجھے مطلع فرمائیں تو کرم شاہانہ سے بعید نہ ہوگا۔ بادشاہ نے کہا تیرا باپ اپنے کاروبار میں تو اس قدر ہوشیار ہے لیکن علم دین سے بالکل بے بہرہ ہے۔ اس لیے اس کی غفلت کی سزا میں اس کو قید خانے بھیجا جاتا ہے۔ تیلی کے لڑکے نے دست بستہ عرض کی حضور! یہ قصور اس کے باپ کا ہے جس نے اس کو تعلیم سے بے بہرہ رکھا، نہ کہ میرے باپ کا؟، میرے با پ کا قصور اس حالت میں قابل مواخذہ ہوتا اگر وہ مجھے تعلیم نہ دلاتا۔ لیکن میرا باپ مجھے تعلیم دلا رہا ہے۔ باقی حضور کا اختیار ہے۔ بادشاہ لڑکے کے اس جواب سے بہت خوش ہوا اور کہا تمہاری تھوڑی سی تعلیم نے نہ صرف تمہارے باپ کو مصیبت قید سے چھڑا لیا بلکہ تم کو بھی مستحق انعام ٹھہرایا۔ چنانچہ بادشاہ نے تیلی کو رہا کر دیا اور اس کے لڑکے کو معقول انعام دے کر رخصت کیا۔
یہ چھوٹی سی حکایت ہمیں کئی بڑے بڑے سبق دیتی ہے۔
پہلا سبق یہ کہ دنیاوی ہوشیاری اچھی ہے، لیکن اُس کا فائدہ اُسی وقت ہے جب ہم اُسے دین کی روشنی کے ساتھ جوڑیں۔ ایک پرندہ ایک پر کے ساتھ نہیں اُڑ سکتا، اُسے دونوں پروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح انسان کی کامیابی بھی دنیا اور دین دونوں کی ہوشیاری اور علم سے ممکن ہے۔
ہم میں سے ہر شخص اپنے کاروبار، ملازمت یا پیشے میں مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ اچھی بات ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہم دین کی بنیادی تعلیمات سیکھیں تاکہ ہم دنیا کے ساتھ اپنی آخرت کو بھی سنوار سکیں۔
ایک اور اہم سبق یہ ہے کہ اگر ہمارے والدین یا بڑوں سے کوئی کوتاہی ہو گئی ہو اور وہ ہمیں تعلیم نہ دے سکے ہوں تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی اولاد کو تعلیم ضرور دیں۔ یہی اصل کامیابی ہے۔ ایک نسل اگر جہالت کا شکار ہو جائے تو اگلی نسل کو اندھیروں میں چھوڑ دینا ظلم ہے۔
آج کے دور میں بھی ہم اپنے اردگرد ایسے بے شمار لوگ دیکھتے ہیں جو کاروبار کے اتنے ماہر ہیں کہ ایک پیسے کا بھی نقصان برداشت نہیں کرتے۔ لیکن جب بات نماز، روزہ، اخلاق یا اپنی آخرت کی فکر کی ہو تو بالکل غافل ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ نہیں ہے؟
علم انسان کو بصیرت دیتا ہے، فرق کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔ دنیاوی علم انسان کو روزی کمانا سکھاتا ہے اور دینی علم اُسے مقصدِ حیات سکھاتا ہے۔ جس طرح ایک بغیر روح کے جسم بیکار ہے، اُسی طرح بغیر دین کے دنیا کی ہوشیاری بھی ناقص ہے۔
یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ بادشاہ نے تیلی کو سزا صرف اس لیے دی کہ اُس نے اپنی زندگی کو صرف دنیا تک محدود کر لیا تھا۔ لیکن جب اُس کے بیٹے نے دلیل دی کہ اُس نے اپنی اولاد کو تعلیم دلوا کر اپنی غلطی کی تلافی کر دی ہے تو بادشاہ نے اُسے معاف کر دیا۔ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر ہم سے غلطیاں ہو بھی جائیں تو اُنہیں دہرانا نہیں چاہیے بلکہ آئندہ نسل کو صحیح راستے پر ڈالنا چاہیے۔ یہی حقیقی اصلاح ہے۔
’’ علم وہ دولت ہے جو انسان کو زمین پر بھی عزت دیتا ہے اور آسمان پر بھی مقبول بناتا ہے۔ اپنی اولاد کو اس دولت سے مالا مال کیجئے، یہی اُن کے اور آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہے‘‘۔
آج ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دلائیں۔ اُنہیں بتائیں کہ دنیا ایک عارضی قیام گاہ ہے اور اصل زندگی آخرت کی ہے۔ اپنے کاروبار، ملازمت یا کسی بھی کام میں محنت ضرور کریں لیکن اپنی نماز، اخلاق، دیانت اور آخرت کی فکر کو بھی نہ چھوڑیں۔ یہی ایک کامیاب انسان کی پہچان ہے۔

جواب دیں

Back to top button