Column

پاک، افغان مذاکرات

پاک، افغان مذاکرات
افغانستان کے امن کے لیے پاکستان نے ناقابل فراموش خدمات سرانجام دی ہیں۔ افغان عوام کی بہتری کے لیے وطن عزیز کئی عشروں سے کوشاں ہے۔ پاکستان نے 43سال سے زائد عرصے تک افغان شہریوں کی میزبانی کے فرائض سرانجام دیے ہیں۔ سوویت یونین جب 1979ء میں افغانستان پر حملہ آور ہوا تو پاکستان نے لاکھوں افغان باشندوں کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے۔ افغانستان کے شہریوں کی تین نسلیں یہاں پروان چڑھیں۔ انہیں ہر شعبے میں بلاکسی تعصب بھرپور مواقع فراہم کیے گئے۔ افغان شہری پاکستان میں سالہا سال سے کاروبار کرکے اپنا رزق کما رہے ہیں۔ بعضے ان میں سے اربوں روپے کی جائیدادوں تک کے مالک بن چکے ہیں۔ امریکا کے افغانستان سے انخلا میں بھی پاکستان نے اہم کردار نبھایا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کی ہر ممکن مدد کی ہے۔ اس کو ہر طرح سے سپورٹ کیا۔ اس کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان مثالی تعلقات ہرگز نہیں کہلائے جاسکتے۔ پاکستان افغانستان کی بہتری کے لیے کوشاں رہتا ہے، بدلے میں اس کو اُس کو سرد مہری کے حامل رویے کا سامنا ہوتا ہے۔ بات یہیں تک محدود نہیں، جب سے افغان عبوری حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے، افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں افغانستان سے ٹی ٹی پی کے دہشت گرد کارروائیاں کرتے ہیں۔ دراندازی کی مذموم کوششیں کی جاتی ہیں، جن کو ہماری سیکیورٹی فورسز انتہائی جانفشانی سے ناکام بناتی ہیں۔ گزشتہ دنوں 30بھارتی حمایت یافتہ خوارج نی پاکستان میں افغانستان سے دراندازی کی کوشش کی، جسے سیکیورٹی فورسز نے ناکام بناتے ہوئے تمام دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا۔ منگل کو بھی ایسی ہی مذموم کوشش کو ناکام بناتے ہوئے 8دہشت گرد مارے گئے۔ وطن عزیز بارہا افغانستان سے مطالبات کرتا چلا آیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہونے دے، لیکن افغانستان کی جانب سے اس معاملے پر کبھی سنجیدگی نہیں دِکھائی گئی۔ گزشتہ مہینوں وزیر خارجہ اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے افغانستان کا دورہ کیا تھا، یہ دورہ انتہائی اہم نوعیت کا تھا۔ اس دورے کی بناء پر دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا مرحلہ شروع ہوا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایڈیشنل سیکریٹری سطح کے مذاکرات کا پہلا دور مکمل ہوگیا، جس میں 19اپریل کو اسحاق ڈار کے دورۂ کابل میں طے پانے والے فیصلوں پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستانی وفد کی قیادت ایڈیشنل سیکرٹری ( افغانستان اور مغربی ایشیا) علی اسد گیلانی نے کی، افغان وفد کی قیادت افغان وزارت خارجہ میں سیاسی ڈویژن کے ڈائریکٹر جنرل مفتی نور احمد نور نے کی۔ ملاقات میں دو طرفہ دلچسپی کے اہم شعبوں بشمول تجارت اور ٹرانزٹ تعاون، سیکیورٹی اور کنیکٹیویٹی کا احاطہ کیا گیا، دونوں اطراف نے دہشت گردی کو علاقائی امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرہ تسلیم کیا، پاکستان نے افغان سرزمین پر سرگرم دہشت گرد گروپوں کے خلاف ٹھوس کارروائیوں کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ایسے گروہ پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور علاقائی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ ترجمان کے مطابق ملاقات میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں 10فیصد پروسیسنگ فیس کے خاتمے، انشورنس گارنٹی کی فراہمی، اسکیننگ میں کمی اور ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو فعال کرنے کے فیصلوں پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا۔ فریقین نے ازبکستان، افغانستان، پاکستان ریلوے فریم ورک معاہدے کو جلد حتمی شکل دینے پر اتفاق، فریقین نے افغان شہریوں کی وطن واپسی سے متعلق امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ ملاقات کے دوران بریفنگ دی گئی کہ پاکستان نے جنوری 2024ء سے اب تک طبی، سیاحتی، کاروبار اور تعلیم کیلئے پانچ لاکھ سے زائد ویزے جاری کیے، دونوں اطراف نے سرحدوں کے آر پار افراد کی قانونی نقل و حرکت کو مضبوط بنانے کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ ترجمان کے مطابق دونوں فریقوں نے باہمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پائیدار روابط کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا، ایڈیشنل سیکرٹری مذاکرات کا اگلا دور باہمی طور پر مناسب تاریخوں پر بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایڈیشنل سیکرٹری کی سطح پر مذاکرات کے پہلے دور کی تکمیل اہم موقع ہے۔ یقیناً اس کے دونوں ملکوں کے تعلقات پر مثبت اثرات مرتب ہوں گی۔ مذاکرات کے سلسلے کو اسی طرح جاری رہنا چاہیے، تاکہ پیدا شدہ مسائل پر قابو پانے میں مدد مل سکے۔ مذاکرات کی تکمیل سے دونوں ملکوں کو کئی ایک شعبوں میں فوائد میسر آئیں گے۔ دونوں ملکوں کے عوام کو اس کا فائدہ پہنچے گا۔ ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھیں گے۔ معیشت پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ اس میں شبہ نہیں کہ پاکستان نے ہر بار ذمے داری کا ثبوت دیا ہے۔ افغانستان کی بہتری چاہی ہے۔ اس کی ہر ممکن مدد کی اور تعاون فراہم کیا ہے۔ پاکستان دہشت گردی سے متاثر ملک رہا ہے اور اس کے خلاف اس کی کوششیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پاکستان نے تن تنہا دہشت گردی پر 2015ء میں قابو پاکر بڑی کامیابی سمیٹی۔ اب افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی مقاصد کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ پڑوسی ملک اس سلسلے کو بند کرانے میں اپنا کردار نبھائے اور اپنے محسن کے خلاف اپنی سرزمین کسی طور استعمال نہ ہونے دے۔
بجلی بچت کیلئے حکومت کا بڑا فیصلہ
ملک عزیز میں اس وقت بجلی کی قیمتیں خطے کے دیگر ملکوں کی نسبت بے پناہ زیادہ ہیں، حالانکہ گزشتہ مہینوں میں حکومتی اقدامات کے طفیل بجلی کی قیمتوں میں بڑی کمی ہوئی ہے، اس کے باوجود بھی بجلی یہاں خاصی گراں ہے۔ موجودہ حکومت اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی بجلی نظام میں اصلاحات کے لیے اقدامات کرتی چلی آرہی ہے۔ اس کی جانب سے قومی خزانے پر سالہا سال سے بڑا بوجھ بننے والی کئی آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کو ختم کیا گیا ہے اور اس ضمن میں مزید کوششیں جاری ہیں۔ بجلی قیمتوں میں وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے کمی لانے کا عندیہ دیا گیا تھا۔ گزشتہ مہینوں حکومت نے بجلی فی یونٹ میں ساڑھے سات روپے کی کمی کی، جس سے ملک بھر کے صارفین کو بڑا فائدہ پہنچا۔ آگے بھی حکومت بجلی نرخ میں کمی کے لیے کوشاں ہے۔ بجلی بچت بھی حکومت کا مطمع نظر ہے۔ اس لیے اس حوالے سے بڑا قدم اُٹھایا گیا ہے۔ حکومت نے بجلی کے استعمال میں کمی اور صارفین کی بچت کے لیے ملک بھر میں چلنے والے پنکھوں سے متعلق اہم فیصلہ کر لیا ہے۔ وفاقی حکومت نے ملک میں بجلی کے استعمال میں کمی کے لیے بجلی سے چلنے والے عام پنکھوں کی تبدیلی کا پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت پورے میں مرحلہ وار موجودہ عام پنکھوں کو کم بجلی استعمال کرنے والے پنکھوں سے تبدیل کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے زیر صدارت وزیراعظم کے پنکھوں کی تبدیلی کے پروگرام پر اجلاس منعقد ہوا، جس میں وزیر توانائی اویس احمد لغاری اور گورنر اسٹیٹ بینک سمیت اسٹیک ہولڈرز نے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں سٹیک ہولڈرز نے پنکھا تبدیلی پروگرام کی عملی تیاری اور متوقع شیڈول، پیشگی شرائط کی تکمیل اور بینکنگ سسٹمز کے انضمام پر بریفنگ دی۔ وزیر خزانہ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پنکھے تبدیلی کا یہ پروگرام توانائی بچت اور اقتصادی استحکام میں اہم کردار ادا کرے گا۔ بجلی کے استعمال میں کمی سے صارفین کے طرز عمل میں مثبت تبدیلی لائے گا۔ انہوں نے پنکھے تبدیلی پروگرام کے پہلے مرحلے کا آغاز رواں ماہ سے کرنا ہے۔ اس لیے تمام ضروری اقدامات آئندہ دو سے تین ہفتوں میں مکمل کیے جائیں۔ بجلی بچت کے لیے یہ اہم قدم ہوگا۔ عوام پر بجلی بلوں کے بوجھ میں خاصی کمی آئے گی۔

جواب دیں

Back to top button