Column

ظلم کے خلاف قیام کا مہینہ

ظلم کے خلاف قیام کا مہینہ
تحریر: صائمہ ظہیر
حیات اسلام کا سفر قربانی سے شروع ہوتا ہے اور قربانی پر ہی ختم ہوتا ہے۔ اس سے یہ معلوم کرنا نہایت سہل ہے کہ ایک مسلمان کی تمام زندگی قربانیوں سے معمور ہے۔ ماہ ذوالحجہ کی 10تاریخ کو حضرت اسماعیل ٌ رضائے الٰہی کی خاطر اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کرتے ہیں جبکہ ماہ محرم الحرام کی 10تاریخ کو حضرت امام حسینؓ رضائے الٰہی کی خاطر سجدے کی حالت میں اپنا سر کٹوا کر دین اسلام کو حیات ابدی عطا کر دیتے ہیں اور اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دیتے ہیں کہ یہ سر اللہ کے حضور کٹ تو سکتا ہے مگر کسی ظالم اور جابر کے سامنے جھک نہیں سکتا۔ یہ تاریخ انسانیت کی بہت بڑی قربانی تھی جو ماہ محرم الحرام میں پیش آئی۔
اسلامی سال کا آغاز جس مہینے سے ہوتا ہے وہ محرم الحرام ہے، جسے قرآن و سنت کی روشنی میں حرمت والا، عظمت والا اور احترام والا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں تاریخ اسلام کی ان لازوال قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جو صبر، استقامت، ایثار اور حق پر ڈٹے رہنے کی مثالیں قائم کرتی ہیں۔ محرم کا مہینہ خصوصاً واقعہ کربلا کی نسبت سے ہمیں صبر کی اعلیٰ ترین تعلیمات دیتا ہے۔ صبر محض ایک اخلاقی خوبی نہیں بلکہ ایک روحانی مقام ہے جس کا انعام اللہ کی طرف سے بے حساب ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس مہینے کی روحانی کیفیت، جذباتی وابستگی اور فکری پیغام ہر صاحبِ ایمان کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ امت مسلمہ کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر وحدت، یگانگت، یک جہتی اور اخوت و بھائی چارے کا جذبہ پیدا کرے۔
ہر سال ماہِ محرم الحرام کا چاند اپنے ساتھ غم و اندوہ، مصائب و آلام، گریہ و اشک زاری اور حضرت فاطمہ زہراء ؓ کو ان کے لخت جگر، میوہ دل، نورِ عین حضرت ابا عبداللہ الحسینؓکا پرسہ دینے کے لیے فرشِ عزاء بچھانے کا پیغام لے کر طلوع کرتا ہے لیکن حقیقت میں ہر سال محرم الحرام کی آمد ہمیں مقصد حسینی کی یاد دِلاتی ہے کہ کبھی بھی اور کہیں بھی ظلم کے خلاف خاموشی اختیار نہ کریں اور ہر ایک اپنی توان و طاقت اور استطاعت کے مطابق ظلم کے خلاف قیام کرے۔ واقعہ کربلا میں ہمیں جاں نثاری و فداکاری، ایثار و قربانی، وفاداری و وفا شعاری، اطاعت و فرمانبرداری اور شہادت طلبی کے ایسے بے مثال نمونے ملتے ہیں جو کسی اور واقعے میں نہیں پائے جاتے۔
کربلا میں شش ماہِ شیرخوار سے لے کر 80سال کے بوڑھے افراد تک موجود ہیں، جو جوش و جذبے اور مروّت و جوانمردی میں کسی سے کم نظر نہیں آتے۔ جیسے اصحاب حضرت امام حسینؓ کو ملے، نہ اِس سے پہلے کسی کو ملے اور نہ رہتی دنیا تک کسی کو ملیں گے۔ امام عالی مقام کے باوفا اصحاب کے نقشِ پاء میں دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ہر قسم کا بے مثال اور بے نظیر نمونہ موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ کربلا قیامت تک انسانوں کے لیے ایک ناقابل انکار دائمی درسگاہ ہے جو مسلسل حرّیت و آزادی اور ایثار و فدا کاری کا پیغام دے رہی ہے۔ لہٰذا ہر سال ماہِ محرم الحرام کی آمد تمام انسانوں بالخصوص حسینیوں کے اعتقادی، فکری اور ذہنی دریچوں کو کھولنے اور تجدیدِ عہد کے لیے ایک بہترین فرصت ہے، جسے ہرگز ہاتھ سے نہیں دینا چاہیے۔
کربلا کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایسا روشن باب ہے جو تا قیامت انسانیت کو حریت، قربانی، اور صبر کی تعلیم دیتا رہے گا۔ نواسہ رسول حضرت امام حسینؓ نے وقت کے جابر حکمران یزید کے ظلم کے خلاف سراپا احتجاج بن کر صرف اپنی جان ہی نہیں قربان کی بلکہ اپنی اولاد، اعزائ، اصحاب اور اہل بیت کی جانوں کو بھی قربان کر دیا۔ یہ قربانی محض ایک سیاسی احتجاج نہ تھا، بلکہ دین کے اصل روح کو محفوظ رکھنے کی جدوجہد تھی۔ امام حسینؓ نے فرمایا: میں یزید کی بیعت اس لیے نہیں کرتا کہ وہ فاسق، فاجر، شرابی، قاتل نفس محترمہ اور دین کے احکام کو پامال کرنے والا ہے۔ امام حسینؓ کی شہادت نے امت مسلمہ کو یہ درس دیا کہ اگر دین کو بچانے کے لیے جان دینی پڑے، تو یہ ایک سعادت ہے۔ یہ مہینہ بیداری، شعور، اصلاح اور تقویٰ کی تجدید کا موقع بھی ہے۔
آئمہ معصومین کی سیرت ہمیں سکھاتی ہے کہ کس طرح اس مہینے کی تعظیم و تکریم کریں اور اس کی روحانی و فکری تیاری کریں۔ صبر کامل یقین اور اللہ کی رضا پر راضی رہنے کا نام ہے۔ آج جب مسلم معاشرہ اخلاقی، سماجی اور سیاسی بحرانوں سے دوچار ہے، تو محرم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ایمان، اخلاص اور صبر کے بغیر ہم ظلم، ناانصافی اور باطل قوتوں کے سامنے کامیاب نہیں ہو سکتے۔ امام حسینؓ نے ہمیں یہ سبق دیا کہ حق کے لیے جان کی بازی لگا دینا ہی اصل کامیابی ہے۔
محرم الحرام کا مہینہ ہمیں تقویٰ، عبادت، صبر، قربانی اور سچائی کے ساتھ جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ یہ مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حق کی خاطر کھڑے ہونا، اگرچہ جان کا نذرانہ ہی کیوں نہ دینا پڑے، سب سے بڑی کامیابی ہے۔ کربلا کے میدان میں امام حسینؓ اور ان کے جانثاروں نے ثابت کر دیا کہ صبر کرنے والے ہی اصل فاتح ہوتے ہیں اور ظالم وقت کی دھول میں گم ہو جاتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم محرم کی ظاہری رسومات کے ساتھ ساتھ اس کے باطنی پیغام، یعنی صبر، قربانی، استقامت اور حق پر ڈٹے رہنے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ تبھی ہم خود کو ’’ امت حسینی‘‘ کہلوانے کے قابل ہو سکیں گے۔ اگرچہ اہل عزاء ہر سال محرم الحرام کے آغاز سے قبل ہی پیغمبر خدا کی لخت جگر حضرت فاطمہ زہرائؓ کو ان کے میوہ دل اور نورِ عین حضرت امام حسینؓ اور دیگر اعزائ، اقرباء اور انصار کا پرسہ دینے کا اہتمام کرتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button