علی امین اور عدم اعتماد

علی امین اور عدم اعتماد
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
آج کل وزیراعلیٰ خیبر کے پی کے علی امین گنڈاپور کے خلاف عدم اعتماد کی باز گشت ہے۔ چاروں صوبوں میں صرف کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے نتیجہ میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کو ایوان میں اضافی نشستوں کے ملنے سے مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کے باوجود پی ٹی آئی کو تمام جماعتوں پر عددی برتری حاصل رہے گی۔ ڈی چوک کے سانحہ کے موقع پر علی امین کا راہ فرار اختیار کرنے سے پی ٹی آئی حلقے انہیں شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھتے ہیں ان کے نزدیک علی امین طاقت ور حلقوں کے آدمی ہیں۔ وفاقی حکومت نے علی امین گنڈا پور کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانے کے دعوئوں کی تردید کی ہے لیکن اندرون خانہ کچھ نہ کچھ بات ضرور ہے۔ جے یو آئی جو پی ٹی آئی کے بعد کے پی کے میں سب سے زیادہ مضبوط جماعت سمجھی جاتی ہے کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے علی امین گنڈا پور کے خلاف عدم اعتماد میں فریق نہ بننے کا اعلان کیا ہے۔ معروف صحافی اور کالم نگار حاجی نواز رضا نے اپنی کتاب میں خاص طور پر مولانا کا ذکر کیا ہے، وہ عمران خان کے اقتدار میں آتے ہی ان کے خلاف عدم اعتماد لانے کے لئے سرگرم ہو گئے تھے۔ علی امین گنڈا پور ڈیرہ اسماعیل خان کے حلقہ سے جے یو آئی کے امیر کو شکست دے کر منتخب ہوئے تھے لہذا مولانا کی یہ بات ناقابل یقین ہے وہ علی امین گنڈا پور کے خلاف عدم اعتماد کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لانے کے لئے انہیں سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے بھی کہا تھا، جو اس امر کا غماز ہے جے یو آئی کے امیر کو اداروں کی آشیر باد حاصل رہتی ہے۔ حال ہی میں وفاقی حکومت نے ایف سی کی ایک پلاٹون مولانا کی حفاظت کے لئے متعین کی، جس سے اس تاثر کو غلط قرار نہیں دیا جا سکتا وہ طاقتور حلقوں کے آدمی ہیں۔ علی امین گنڈا پور نے دعویٰ کیا ہے ان کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ بہرکیف اس سلسلے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا آیا علی امین گنڈا پور کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کب تک لائی جائے گی۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا سپریم کورٹ سے مخصوص نشستوں کے حالیہ فیصلے سے وفاقی حکومت کے گرائے جانے کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں۔ گو پی ٹی آئی کے بانی کی مقبولیت ختم کرنے کے لئے ہر سطح پر کوششوں کے باوجود عمران خان کی مقبولیت میں فرق نہیں آیا بلکہ عوام کی اکثریت اس کی ہمنوا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے پی ٹی آئی میں بعض لوگ ایسے ہیں جو حالات کے ساتھ اپنی وابستگیاں تبدیل کرنے والے ہیں۔ اس بات سی بھی انکار ممکن نہیں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پر جس رفتار سے جھوٹ بولا جا رہا ہے وہ بھی ریکارڈ ہے۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی ایک رہنما کا کہنا تھا جیلوں میں قیدیوں کو یعنی پی ٹی آئی کے لوگوں کو گندا پانی پلایا جا رہا ہے اور انہیں کھانے میں گولیاں دی جا رہی ہے تعجب خیز ہے۔ یہ بات میں دعویٰ سے کہتا ہوں پنجاب کی جیلوں میں پانی کے بور ہیں اور قیدیوں کو صاف اور تازہ پانی ہمہ وقت میسر ہے اور کھانے میں گولیاں دینے کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہم کیسے مسلمان ہیں ہمارے دین نے ہمیں جھوٹ بولنے سے سختی سے منع کیا ہے اس کے باوجود ہم روزمرہ زندگی میں جانے کتنے جھوٹ بولتے ہیں۔ علی امین گنڈا پور کے خلاف عدم اعتماد میں کتنی صداقت ہے مجھے نہیں لگتا علی امین کے خلاف عدم اعتماد لائی جائے گی کیونکہ وہ تو طاقتور حلقوں کے سمجھے جاتے ہیں وزیراعلی علی امین گنڈا پور اداروں کے ساتھ چل رہے ہیں اور ادارے ان پر اعتماد کرتے ہیں تو ان کے خلاف عدم اعتماد کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ بات درست ہے وزیراعلیٰ کے خلاف پی ٹی آئی کے حلقوں میں اضطراب ضرور پایا جاتا ہے پی ٹی آئی اس وقت گروہ بندی کا شکار ہے ماسوائے عمران خان کی بہنوں کے کوئی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے حق میں نہیں ہے۔ دراصل پی ٹی آئی کو سانحہ ڈی چوک نے بہت نقصان پہنچا یا ہے سانحہ سے پی ٹی آئی ورکرز کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ شائد اسی لئے عمران خان اور ان کی جماعت کے رہنما احتجاج کی صورت میں اسلام آباد کا رخ کرنے سے گریزاں ہیں۔ اس وقت جو صورت حال پیدا ہو چکی ہے اس میں نہ تو پی ٹی آئی بھرپور طریقہ سے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی پوزیشن میں ہے نہ ہی پارٹی ورکرز سڑکوں پر آنے کو تیار ہیں نہ ہی علی امین گنڈا پور کے خلاف عدم اعتماد لائی جا سکے گی جس وجہ انہیں طاقتور حلقوں کی پوری آشیر باد حاصل ہے لہذا ایسی صورت میں ان کے خلاف عدم اعتماد محض خواب ہو سکتا ہے۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہے انتخابات جب بھی منصفانہ ہوئے عوام کی اکثریت پی ٹی آئی کو ووٹ دے گی۔ اگرچہ عمران خان کے خلاف حکومت نے مقدمات بناکر اس کی مقبولیت کم کرنے کی بھرپور کوشش کی جیل میں رہتے ہوئے اس کی مقبولیت کم ہونے کی بجائے اور زیادہ ہو گئی ہے جسے کم کرنے کے لئے حکومت کے پاس کوئی قابل عمل حل نہیں ہے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق سیاسی رہنمائوں میں عمران خان اور رانا ثناء اللہ ایسے سیاست دان ہیں جو جیل میں رہنے کے باوجود گھبرائے نہیں بلکہ حوصلہ مندی سے قید و بند کا عرصہ گزارا ہے۔ جیل کے اعلیٰ افسر نے بتایا فیصل آباد کی سینٹرل جیل میں رانا ثناء اللہ کو سہولتوں کی فراہمی کی آفر گئی تو انہوں نے لینے سے انکار کر دیا تھا۔ بہرکیف علی امین گنڈا پور کے خلاف عدم اعتماد کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے۔





