ColumnQadir Khan

سوریہ پر پابندیوں کا خاتمہ: کیا ہونے جارہا ہے ؟

سوریہ پر پابندیوں کا خاتمہ: کیا ہونے جارہا ہے ؟
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
جب تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں تو کبھی کبھی ایک لمحہ وہ ہوتا ہے جو نہ صرف ایک ملک کی تقدیر بدل دیتا ہے بلکہ پورے خطے کے سیاسی، معاشی اور سماجی منظر نامے کو ایک نئی شکل دیتا ہے۔ 30جون 2025ء کو جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوریہ پر عائد پابندیوں کے خاتمے کا اعلان کیا تو یہ لمحہ بھی شاید اسی طرح تاریخ کے صفحات پر ایک نئی داستان رقم کرنے جا رہا ہے۔ یہ فیصلہ، جو یکم جولائی 2025ء سے نافذ العمل ہوا، صرف ایک ایگزیکٹو آرڈر نہیں بلکہ ایک ایسی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے جو برسوں سے جاری شام تنازع کے بعد خطے میں استحکام کی ایک امید بن سکتا ہے۔ اسی طرح برطانیہ نے بھی شام سے تجارت بڑھانے کے لئے اقدامات کا اعلان کر دیا ہے اور پابندیاں اٹھالی گئیں ہیں۔
شام وہ ملک جو ایک دہائی سے زائد عرصے تک خانہ جنگی کی آگ میں جھلس رہا تھا، جہاں لاکھوں جانوں کا نقصان ہوا، کروڑوں لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر مہاجر بن گئے، اور جہاں معیشت ایک ایسی دلدل میں دھنسی کہ بحالی کا تصور بھی محال لگتا تھا۔ بشار الاسد کی آمرانہ حکومت، جس نے 1971ء سے سوریہ پر قبضہ جمائے رکھا، دسمبر 2024 ء میں ایک تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال میں گر گئی۔ حزب مخالف کی فوجوں، خاص طور پر حیات تحریر الشام ( ایچ ٹی ایس) کی قیادت میں، دمشق پر قبضہ کر لیا گیا، اور الاسد روس کی طرف فرار ہو گئے جہاں انہیں سیاسی پناہ مل گئی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب شام کی تاریخ نے ایک نیا موڑ لیا۔ نئی حکومت کی قیادت احمد حسین الشرعا نے سنبھالی، جو کبھی ابو محمد الجولانی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ الشرعا کا ماضی، جو القاعدہ سے وابستگی اور امریکی قید تک پھیلا ہوا ہے، ان کے موجودہ اعتدال پسند کردار سے بالکل متضاد ہے۔امریکی پابندیاں، جو 1970ء کی دہائی سے سوریہ پر مختلف شکلوں میں عائد تھیں، 2011ء کے بعد سیزر ایکٹ کے تحت مزید سخت کر دی گئی تھیں۔ ان کا مقصد بشار الاسد کی حکومت کو دبا میں لا کر سیاسی تبدیلی لانا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پابندیاں شامی عوام کے لیے ایک عذاب بن گئیں۔ معیشت تباہ ہوئی، بنیادی ضروریات جیسی بجلی، پانی اور خوراک تک رسائی محدود ہو گئی، اور انسانی بحران نے لاکھوں لوگوں کو مہاجرت پر مجبور کیا۔ لبنان، اردن اور ترکی جیسے ہمسایہ ممالک میں شامی مہاجرین کی موجودگی نے خطے میں نئے تنا کو جنم دیا۔ اس پس منظر میں امریکی فیصلہ کہ وہ پابندیاں اٹھائے گا، ایک ایسی پیش رفت ہے جو نہ صرف سوریہ بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔
امریکہ نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ اس کے پیچھے کئی وجوہ ہیں جو سیاسی، معاشی اور سفارتی عوامل کا ایک پیچیدہ امتزاج ہیں۔ سب سے پہلے، نئی سوری حکومت کی قیادت احمد الشرعا نے اپنے آپ کو ایک اعتدال پسند رہنما کے طور پر پیش کیا ہے۔ انہوں نے القاعدہ سے اپنی سابقہ وابستگی کو ختم کیا، غیر ریاستی مسلح گروہوں کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا، اور مذہبی اقلیتوں جیسے کہ عیسائیوں اورعلویوں کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی۔ ان کی سعودی عرب، فرانس اور دیگر ممالک کے رہنماں سے ملاقاتیں اس امر کی عکاسی کرتی ہیں کہ وہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا چاہتے ہیں۔ امریکی محکمہ خزانہ نے 518سوری افراد اور اداروں کو پابندیوں کی فہرست سے ہٹا دیا اور جنرلLICENSE25 جاری کیا، جو پہلے ممنوعہ لین دین کو مجاز بناتا ہے۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ امریکہ نئی شامی قیادت کو ایک موقع دینے کے لیے تیار ہے۔ دوسری اہم وجہ خطے کے اتحادیوں کا دبا ہے۔ سعودی عرب اور ترکی، جو دونوں ہی مشرق وسطیٰ میں اہم کھلاڑی ہیں، نے شام کی بین الاقوامی برادری میں واپسی کی وکالت کی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورہ مشرق وسطیٰ کے دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقاتیں کیں، جہاں اس فیصلے پر تبادلہ خیال ہوا۔ سعودی عرب، جو خود خطے میں استحکام چاہتا ہے، سوریہ کی معاشی بحالی کے لیے سرمایہ کاری کے مواقع دیکھ رہا ہے۔ ترکی، جو لاکھوں شامی مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، ان کی واپسی کے لیے ایک مستحکم سوریہ کو ضروری سمجھتا ہے۔ یہ دبا امریکی پالیسی پر اثر انداز ہوا، اور ٹرمپ کی ’’ امریکہ پہلے‘‘ پالیسی کے تحت اسے ایک اسٹریٹجک موقع کے طور پر دیکھا گیا۔
تیسری وجہ معاشی اور انسانی ہے۔ برسوں کی پابندیوں نے شام کی معیشت کو مفلوج کر دیا تھا۔ بجلی کی شدید قلت، پانی کی کمی، اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی نے شامی عوام کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا تھا۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور محکمہ خزانہ کی رپورٹوں کے مطابق، پابندیاں اٹھانے سے نہ صرف معاشی بحالی ممکن ہو گی بلکہ یہ مہاجرین کی واپسی کو بھی سہولت دے گا۔ لاکھوں شامی، جو جنگ کے دوران ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے، اب ایک مستحکم سوریہ کی طرف واپس لوٹ سکتے ہیں، جو خطے کے دیگر ممالک پر دبا کو کم کرے گا۔
لیکن کیا یہ فیصلہ اتنا سادہ ہے جتنا کہ نظر آتا ہے؟ حقیقت اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ احمد الشرعا کا ماضی، جو القاعدہ اور النصرہ فرنٹ سے وابستہ رہا، اس فیصلے کو متنازع بناتا ہے۔ 2003ء میں وہ عراق میں امریکی فوجوں کے خلاف لڑے، اور 2006ء سے 2011ء تک امریکی قید میں رہے۔2012ء میں انہوں نے النصرہ فرنٹ کی بنیاد رکھی، جو اس وقت القاعدہ کی شاخ تھی۔ اگرچہ 2016ء میں انہوں نے القاعدہ سے دوری اختیار کی اور ایچ ٹی ایس کی قیادت سنبھالی، لیکن ان کا ماضی اب بھی سوالات اٹھاتا ہے۔ کیا ایک سابق جنگجو واقعی ایک اعتدال پسند رہنما بن سکتا ہے؟ کیا ان کی قیادت سوریہ کو ایک جمہوری اور جامع مستقبل کی طرف لے جائے گی، یا یہ صرف ایک نئی شکل میں پرانے مسائل کا تسلسل ہو گا؟
امریکہ کے لیے، یہ فیصلہ سفارتی اور اسٹریٹجک فوائد کا حامل ہے۔ سعودی عرب اور ترکی جیسے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات مضبوط ہوں گے، جو خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو بڑھائیں گے۔ اس کے علاوہ، یہ فیصلہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ ایک مستحکم شام دہشت گرد گروہوں کے لیے کم سازگار ہو گا۔ کچھ رپورٹس میں یہ بھی ذکر کیا گیا کہ ٹرمپ انتظامیہ سوریہ میں اقتصادی مواقع، جیسے کہ دمشق میں ٹرمپ ٹاور کی ممکنہ تعمیر، کو بھی ایک موقع کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ یہ ’’ امریکہ پہلے‘‘ پالیسی کا ایک عملی مظہر ہے، جہاں سفارتی فیصلے معاشی مفادات سے بھی جڑے ہوتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button