Column

برین ڈرین

برین ڈرین
علیشبا بگٹی
پلس پوائنٹ
ایک دور دراز سلطنت میں ایک عادل و دانش مند بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اُس کی سلطنت خوشحال تھی، فوج طاقتور، خزانے بھرے ہوئے، اور رعیت مطمئن۔ مگر بادشاہ کو ایک تشویش رہتی تھی کہ’’ میرے دربار میں سب ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ کیا کوئی ایسا نہیں جو سوچتا ہو؟ سوال کرتا ہو؟ نئی راہیں دکھاتا ہو؟‘‘۔ چنانچہ بادشاہ نے سلطنت بھر میں اعلان کرایا ’’ جو شخص نئی سوچ، نیا نظریہ، یا انوکھا سوال لے کر آئے گا، اُسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا‘‘۔ کئی لوگ آئے۔ کسی نے شاعری سنائی، کسی نے پرانے قصے، کسی نے مشورے دئیے۔ مگر بادشاہ کی آنکھوں میں وہ چمک نہ آ سکی جو وہ تلاش کر رہا تھا۔ پھر ایک دن ایک نوجوان درباری لباس میں آیا۔ اُس کی آنکھوں میں چمک، ہاتھ میں کاغذ اور لہجے میں لرزش تھی۔ ’’ حضور۔ اگر اجازت ہو تو ایک سوال عرض کروں؟‘‘، بادشاہ خوش ہوا۔۔’’ پوچھو‘‘۔ نوجوان نے کہا ’’ ہم دشمنوں سے تو مضبوط ہو گئے، مگر اگر ہماری سوچ ساکت ہو جائے، تو کیا ہم خود اپنے دشمن نہیں بن جائیں گے؟‘‘۔ دربار میں خاموشی چھا گئی۔ کچھ وزیروں کے چہرے بگڑ گئے۔ ایک وزیر بولا ’’ بادشاہ سلامت، یہ تو گستاخی ہے، ماضی کو جھٹلانے کی کوشش ہے‘‘۔ دوسرا بولا ’’ یہ نوجوان کچے ذہن کا ہے، بچکانہ بتائیں کرنے آیا ہے‘‘۔ بادشاہ خاموش سنتا رہا۔ نوجوان کی آنکھوں میں عزم، لیکن دل میں خوف تھا۔ آخر بادشاہ بولا ’’ اسے انعام نہیں، جلاوطنی دو۔ یہاں ایسے سوال نہیں پوچھے جاتے جو سکون کو پریشان کریں‘‘۔ نوجوان کا سر جھک گیا، وہ دربار سے نکلا، شہر چھوڑا، وطن چھوڑا۔ اور ایک دوسرے ملک چلا گیا۔ سالوں بعد وہی نوجوان، ایک عالمی موجد، فلسفی، اور استاد بن گیا۔ دنیا اُس کے علم کی قدردان بنی۔ ہر جگہ اُس کے خیالات کی روشنی پھیلنے لگی۔ ایک دن ایک سفیر بادشاہ کے دربار میں آیا اور اُس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ ’’ حضور۔ یہ کتاب اس شخص نے لکھی ہے جسے آپ نے کبھی جلاوطن کیا تھا۔ دنیا اُسے’’ عقلِ نو‘‘ کہتی ہے‘‘۔ بادشاہ نے کتاب کھولی۔ آغاز میں لکھا تھا ’’ دماغ، دل کی طرح وہاں جاتے ہیں جہاں ان کی قدر ہو اور جہاں قدر نہ ہو وہاں صرف خاموشیاں رہ جاتی ہیں‘‘۔ بادشاہ کو افسوس ہوا۔ اُس نے تاج اُتار کر زمین پر رکھا اور آسمان کی طرف دیکھا اور کہا ’’ قومیں تلواروں سے نہیں، افکار سے بنتی ہیں اور دماغ اگر قدر نہ پائے تو ہجرت کر جاتا ہے پھر نہ وہ ملک آگے بڑھتا ہے، نہ وہ بادشاہ عظیم رہتا ہے‘‘۔
ہزاروں سال پر پھیلی انسانی تاریخ اگر ایک لفظ میں سمٹائی جائے، تو وہ لفظ ہوگا ’’ قدر‘‘۔ ہر انسان یہی چاہتا ہے کہ اُس کی سوچ، شخصیت، محنت اور اُس کے وجود کو ’’ سمجھا‘‘ ، ’’ سراہا جائے‘‘ اور اس کی قدر کی جائے۔ صدیوں سے اس دُنیا کی یہی روایت ہے یہاں ذہانت، قابلیت اور نئی سوچ کو پذیرائی کم، اور مزاحمت زیادہ ملتی ہے۔ ہم نے سقراط کو زہر کا پیالہ پلایا، منصور کو سولی چڑھایا۔ ابنِ رشد کو جلا وطن کیا، ابنِ سینا کو بے وطن کر دیا۔ گلیلیو کو خاموش کرایا، فیض کو قید کیا، ٹیگور کو تضحیک کا نشانہ بنایا۔ صرف اس لیے کہ وہ عام سے مختلف سوچتے تھے۔ اور پھر ہم نے بعد میں اُن کے مجسمے بنائے، اُن کے نام پر ادارے رکھے، اور اُن کی کتابیں نصاب کا حصہ بنائیں۔ افسوس، ہم نے وقت پر دماغوں کو سنا نہیں۔ مرنے کے بعد یاد ضرور رکھا۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب کوئی معاشرہ دانشوروں کو عزت دیتا ہے تو وہ عظیم بن جاتا ہے۔ یورپ کے Renaissanceدور میں فلورنس اور وینس جیسی ریاستیں تخلیقی مرکز بن گئیں۔ کیونکہ وہاں فلاسفروں اور سائنسدانوں کی سرپرستی کی گئی۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران جب یورپ نے یہودی دانشوروں کو رد کیا، تو امریکہ نے ان کو قبول کر کے دنیا کی سپر پاور بننے کی بنیاد رکھی۔ اسی طرح آج کی Silicon Valleyاس لیے کامیاب ہے کہ وہاں نئے خیالات، تجربات اور عقل کی قدر کی جاتی ہے، چاہے وہ کسی بھی طبقے یا قوم سے ہو۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی بنیاد صرف وسائل پر نہیں، دماغوں کی عزت پر رکھی گئی۔ وہاں سوال کرنا جرم نہیں، جستجو کرنا عبادت ہے۔ وہاں کسی نوجوان کا ’’ کیوں؟‘‘، کہنا گستاخی نہیں، ترقی کی پہلی سیڑھی ہے۔
برخلاف اس کے، ہمارے معاشروں میں اگر بچہ اسکول میں نیا سوال کرے، تو اُسے بدتمیز کہا جاتا ہے۔ نوجوان نیا آئیڈیا دے، تو اُسے ناپختہ ذہن کہا جاتا ہے۔ نئی سوچ لائے، تو اُسے خطرناک یا بیوقوف سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں ہر جگہ وہی سنا جاتا ہے جو ’’ پسندیدہ‘‘ ہو، اور وہی بولا جاتا ہے، جو ’’ مروجہ‘‘ ہو۔ ایسے ماحول میں ذہانت سانس نہیں لے سکتی، اور پھر وہ دماغ یا تو خاموش ہو جاتا ہے، یا ہجرت کر جاتا ہے۔ جسے ہم ’’ برین ڈرین‘‘ کہتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button