ان سیاحوں کے نام ۔۔۔۔۔۔

ان سیاحوں کے نام ۔۔۔۔۔۔
روشن لعل
سفر چاہے جس بھی مقصد کے تحت کیا گیا ہو، ایک پرانی کہاوت کے مطابق، سفر کو ’’ وسیلہ ظفر ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ’’ سفر وسیلہ ظفر‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک فاصلہ طے کرنے کا عمل، کامیابیوں کا وسیلہ بنتا ہے۔ سیاحت کے دوران بھی ایک مقام سے دوسرے مقام تک سفر کیا جاتاہے لیکن اسے عام سفر سے مختلف سمجھا جاتا ہے۔ عام سفر میں کامیابی غیر متعین ہوتی ہے مگر سیاحت کی غرض سے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں پہنچنے پر جو بے مثال اطمینان، راحت اور خوشی ملتی ہے وہی اس سفر کی یقینی کامیابی ہوتی ہے۔ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے خاندان کے جو لوگ سیاحت کی غرض سے سوات گئے ان کا مطمع نظر بھی اطمینان ، راحت اور خوشی کا حصول تھا۔ سیالکوٹ کے اس خاندان کی سیاحت کا دریائے سوات کے بپھرے ہوئے پانی کے ہاتھوں بے بسی کے عالم میں موت کے منہ میں جانے کا جو انجام ہوا اسے پوری دنیا نے دیکھا۔ جو خوشیوں کی تلاش میں سوات آئے تھے وہ اپنے خاندان کے زندہ بچ جانے والے لوگوں کو ایسا غم دے کر گئے جو تکلیف دو اور افسوس ناک یاد بن کر ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گا۔ اس ناقابل فراموش غم کے ساتھ ایک سوال بھی ابھرا کہ جو لوگ ایک دوسرے کے سامنے ڈیڑھ گھنٹہ تک ایک ایک کر کے موت کے منہ میں جاتے رہے ، کیا ان کی زندگی کے تحفظ کا کوئی امکان نہیں تھا۔
اس سوال کے جواب میں نہ صرف پاپولر بلکہ سوشل میڈیاپر سرگرم لوگ بھی بال کی کھال اتارنے میں مصروف ہیں۔ تقریباً تمام لوگ، اس معاملے میں سیاست در سیاست کرتے ہوئے دوسروں کو تو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں لیکن میڈیا پرسنز سمیت کوئی بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جو سوال سیالکوٹ کے بدنصیب خاندان کے لوگوں کی زندگیوں کے تحفظ کے امکان کے متعلق پوچھا جارہا ہے ، اس کا جواب یہ ہے کہ دریائے سوات کے اندر ہونے والی ہلاکتیں عام دنوں میں نہیں بلکہ ایسے وقت میں ہوئیں جسے پاکستان میں فلڈ سیزن کہا جاتا ہے۔ دریائوں میں پانی کا بہائو تو پورا سال جاری رہتا ہے لیکن جس عرصہ کو فلڈ سیزن کہا جاتا ہے اس میں سیلاب کے امکان کو مد نظر رکھتے ہوئے سرکار اور سرکاری اداروں کو ہنگامی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو طے شدہ قواعد و ضوابط کے مطابق ہر وقت تیار رہنا ہوتا ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ دریائے سوات میں ہلاک ہونے والوں کی زندگیوں کے تحفظ کا کس قدر ممکن تھا ، ہمیں دیکھنا ہوگا کہ فلڈ سیزن کے دوران سرکاری اداروں کے لیے مفاد عامہ میں کس قسم کی تیاری لازمی ہوتی ہے اور خیبر پختونخوا کی سرکار اور سرکاری اداروں نے سیلاب سے نمٹنے کے لیے خود کو کس حد تک تیار کیا ہوا تھا۔
واضح رہے کہ سیلاب پانی کی وجہ سے پیدا ہونے والی سونامی ، طوفان، قحط، زمینی کٹائو اور وبائی امراض جیسی قدرتی آفات میں سے ایک آفت ہے۔ سیلاب کی عام فہم تعریف یہ ہے کہ جب کوئی ایسی جگہ یا مقام جو عام طور پر خشک اور پانی کی پہنچ سے دور رہے ، عارضی طور رپر طوفان ، بارش یا کسی آبی گزر گاہ کے بہتے ہوئے پانی کی زد میں آجا ئے تو ایسی صورتحال کو سیلاب کہا جاتا ہی۔ سیلاب ایسی قدرتی آفت ہے جس کی شدت میں اضافہ بارشوں کی شدت میں اضافے یا پہاڑوں پر پڑی برف کے تیز ترین پگھلائو کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں سیلاب کو بھی زلزلے کی طرح اچانک رونما ہونے والی قدرتی آفت تصور کیا جاتا تھا۔ اچانک رونما ہونے والی آفت ہونے کی وجہ سے اس کے نقصانات سے بچائو نا ممکن سمجھا تھا۔ سائنس کی ترقی نے اب حالات اس قدر تبدیل کر دیئے ہیںکہ پیشگی اطلاع کے نظام کی وجہ سے سیلاب اب آناً فاناً ظاہر ہونے والی آفت نہیں رہا۔ سیلاب کی پیشگی اطلاع کے نظام کے باوجود اس قدرتی آفت کے نقصانات سے سو فیصد بچائو اب بھی ممکن نہیں ہے تاہم سائنسی ترقی کی بدولت ہم عصر دنیا میں ایسے بہت سے انتظامات کر لیے گئے ہیں جن کی بدولت سیلاب کے نقصانات کو کم سے کم حد تک رکھا جاسکتا ہے۔ سیلاب کے نقصانات کی حد کو کم سے کم رکھنے کے لیے پیشگی احتیاطی انتظامات کے ساتھ اس آفت کی رونما ہونے کے دوران بچائو کے طریقے بھی وضع کیے گئے ہیں۔ سیلاب سے بچائو کی پیشگی احتیاطی تدابیر میں یہ باتیں شامل ہیں کہ سیلاب کے خطرے کی زد میں موجود علاقوں میں آبادیاں نہ بسائی جائیں۔ اگر زرعی سرگرمیوں کی وجہ سے آبادکاری سے گریز ممکن نہ ہو تو ضروری ہے کہ وہاں کی تعمیرات کو اس طرح سے ڈیزائن کی جائے کہ سیلاب کا پانی انہیں نقصان پہنچائے بغیر ان کے نیچے سے گزر جائے۔
سیلاب پانی کے بہائو کی ایک خاص کیفیت کا نام ہے۔ اس کیفیت کے حامل دریائی پانی کا سیلاب کسی بھی قسم کے دوسرے سیلابوں سے زیادہ خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ دریائی سیلاب کے ممکنہ خطرات اور نقصانات سے نمٹنے کے لیے اس سیلاب کی کیفیت کو مختلف درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر دریا میں سیلاب کے درجوں کی پیمائش کے لیے پانی کے بہائو کی مختلف حدیں مقرر کی جاتی ہیں۔ سیلاب کے ان درجوں کے علاوہ ہر دریا کے لیے پانی کے بہائو کی ایک معمول کی حد بھی طے ہوتی ہے۔ سیلاب کے خطرے سے خبردار رکھنے اور خطرے کے مطابق امدادی کاموں کے لیے وارننگ اور ریلیف کے دو علیحدہ شعبے قائم کیے جاتے ہیں۔ دریائوں میں پانی کے معمول سے زیادہ بہائو کی صورت میں وارننگ دینے والاشعبہ ریلیف سے متعلق شعبے کو نہ صرف اس بات سے باخبر رکھتا ہے کہ سیلاب کا درجہ کیا ہے بلکہ ساتھ ہی یہ اطلاع بھی دیتا ہے کہ دریا کے کسی خاص حصے میں پانی کس قدر بلند ہورہا ، کم ہو رہا ہے یا اس کی سطح جوں کی توں ہے۔ اس اطلاع کے بعد امداد پر مامور شعبہ آئندہ کے لیے حکمت عملی طے کرتا ہے۔ سیلاب کے دنوں میں وارننگ اور ریلیف کا کام کرنے والے شعبوں کی معاونت کے لیے محکمہ موسمیات خاص طور پر تیار رہتا ہے۔ محکمہ موسمیات نہ صرف مختلف علاقوں میں ہو چکی بارش کی مقدار کے متعلق اطلاع دیتا ہے بلکہ آئندہ ممکنہ طور پر برسنے والی بارشوں کی پیش گوئی بھی کرتا ہے۔ محکمہ موسمیات کی اطلاعات وارننگ اور ریلیف کے کاموں پر مامور ذمہ داروں کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔
سطور بالا میں فلڈ سیزن کے دوران جس قسم کی لازمی تیاری کا ذکر کیا گیا ہے طے شدہ پروٹوکول کے مطابق کے پی کے میں ایسی تیاری ہونا ضروری تھا کیونکہ پورے ملک میں 15جون کو فلڈ سیزن کا آغاز تسلیم کیا گیا ہے۔ اگر کے پی کے میں فلڈ وارننگ اور ریلیف کے شعبوں سے وابستہ لوگوں نے طے شدہ پروٹوکول کے مطابق اپنی تیاریاں مکمل کی گئی ہوتیں تو دریائے سوات میں ہلاک ہونے والے سیاحوں کی زندگیوں کا تحفظ عین ممکن ہوتا ۔ افسوس کہ یہاں میڈیا کے لوگ پیشگی تیاریاں نہ ہونے کی نشاندہی کرنے کی بجائے، ہمیشہ کوئی جان لیوا حادثہ رونما ہونے کے بعد سرگرم ہوتے ہیں۔ افسوس کہ صرف خیبر پختونخوا ہی نہیں پورے پاکستان میں سیلاب کی آفت سے نمٹنے کے لیے پیشگی حفاظتی اقدامات کی بجائے صرف کارروائیاں ڈالی جاتی ہیں۔





