Column

خزانہ چوسنے والی جونکیں

خزانہ چوسنے والی جونکیں
تحریر: رفیع صحرائی
مراعات یافتہ طبقے پر نوازشات کی بارش ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ابھی اراکین پنجاب اور قومی اسمبلی، وزرائ، مشیران، اسپیکرز اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں شاہانہ اضافے کی بازگشت ختم بھی نہیں ہوئی کہ ان پر ایک اور نوازش یہ کردی گئی ہے کہ وہ چھٹیوں پر بھی ہوں تو تمام مراعات کے حق دار ہوں گے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ گرمی اور سردی کی چھٹیوں میں اساتذہ کا کنوینس الائونس کاٹنے والی حکومتوں کی مراعات یافتہ طبقے پر نوازشات ہیں کہ ختم ہی نہیں ہو رہیں۔ یہ عارضی نوکریوں والے ملکی خزانے کو اندھے کی ریوڑیاں سمجھ کر اپنوں میں لٹا رہے ہیں جبکہ زندگی کے35 سے 40سال مستقل ملازمت کی صورت میں خدمات انجام دینے والے پنشنرز کو بوجھ سمجھ کر جان چھڑا رہے ہیں۔ پنشنرز کی بیوگان کو سرکاری طور پر بھیک مانگنے پر مجبور کرنے والے یہ عوامی نمائندگان بے حِسی اور خود غرضی کا نمونہ بن کر بزرگ خواتین کے لیے موت کے ہرکارے بن گئے ہیں۔ ملکی معیشت کی کشتی کو اپنی غلط پالیسیوں کے سبب بیچ منجدھار میں لا کر اس میں چھید کرنے کے بعد اس کشتی کا سب سے بے مایہ سامان یعنی پنشنرز کو کشتی سے دھکا دے کر کشتی کو بخیر و عافیت کنارے پر لے جانے کی کوشش سمجھ سے بالاتر ہے۔
کشتی کے کاریگر ملاح بخوبی جانتے ہیں کہ کشتی ڈوب رہی ہو تو ایسی صورتِ حال میں بھاری بھرکم بوجھ سے جان چھڑائی جاتی ہے۔ کشتی پر بوجھ کا بھاری پتھر بلکہ پہاڑ وہ مراعات یافتہ طبقہ ہے جس میں ہماری معیشت کی کشتی کے ناخدا یعنی پارلیمنٹیرینز بھی شامل ہیں۔
پاکستان میں ایک قانون یہ بھی ہے کہ کوئی شخص چاہے ایک دن کے لیے بھی وزیرِاعظم یا وزیرِ اعلیٰ رہا ہو تو وہ ساری زندگی کے لیے پنشن اور مراعات کا حق دار ٹھہرتا ہے۔ ان مراعات میں نقد پنشن کے علاوہ سیکورٹی گارڈ اور دیگر بہت سی مراعات بھی شامل ہیں۔ نگران وزرائے اعلیٰ اور وزرائے اعظم کیلیے بھی یہی پیکیج ہے۔ چونکہ یہ بڑے لوگ مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں لہٰذا انہیں چھیڑتے ہوئے حکومت کے پر جلتے ہیں مگر سرکاری ملازمین جنہوں نے اپنی زندگی کے پینتیس سے چالیس سال حکومت کو دئیے ہوتے ہیں وہ شودر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے حکومت کو بوجھ لگ رہے ہیں۔
آپ عوام کے خادم، نہ بکنے والے نہ جھکنے والے غیّور نمائندوں یعنی ایم پی ایز، ایم این ایز اور سینیٹرز کی مراعات دیکھیں تو لگتا ہے ہم آئی ایم ایف سے بھیک کی طرح قرض مانگنے والا ملک نہیں ہیں بلکہ آئی ایم ایف ہمارا مقروض ہے۔ ماہانہ مشاہرہ، لاکھوں کا ماہانہ ٹی اے، ڈی اے بل، مفت ہوائی جہاز اور ریل کی ٹکٹیں جنہیں استعمال نہ کرنے پر نقدی کی صورت میں معاوضہ، مفت پٹرول، بجلی، ٹیلیفون اور گیس کی دستیابی۔ ہزاروں کی تعداد میں ان کے سیکیورٹی گارڈز، ان کے منشیوں تک سب کو درج بالا سہولیات مفت حاصل ہیں۔ اس کے علاوہ پروٹوکول کے نام پر وزراء کے لیے سیکڑوں گاڑیاں، کچن کے نام پر ماہانہ کروڑوں کے اخراجات، بیرونِ ملک درجنوں افراد ساتھ لے کر سیر سپاٹے، درجنوں افراد کو ساتھ لے جا کر سرکاری حج وہ بھاری پتھر ہیں جو معیشت کی ناتواں کشتی پر پہاڑ بن کر لدے ہوئے ہیں۔ اس پہاڑ کے مقابلے میں سرکاری پنشنرز کی حیثیت محض اس شاپر جیسی ہے جس میں ہوا بھری ہوئی ہو۔ اس شاپر کا حجم جناب وزیرِ خزانہ کو نظر آ گیا ہے مگر اس کے وزن کا انہیں بالکل بھی اندازہ نہیں۔
کرنے کا کام یہ نہیں کہ قلیل تنخواہ کے بدلے ساری زندگی حکومت کو دینے والے ملازمین کو بڑھاپے میں بے یار و مدد گار چھوڑ دیا جائے۔ انہیں صرف سات یا پانچ فیصد اضافے پر ٹرخا دیا جائے اور ان کی بیوگان کو دس سال بعد انتہائی ضعیف العمری میں بھیک مانگنے کے لیے بے یار و مددگار چھوڑ دیا جائے۔ بلکہ اصل کام ان جونکوں سے جان چھڑانا ہے جو ملکی خزانے کو دن رات چوس رہی ہیں۔ آپ پی سی بی کو دیکھ لیں۔ لاکھوں روپے ماہانہ معاوضے پر فارغ رہنے کے لیے لوگوں کو کنٹریکٹ دئیے گئے ہیں۔ یہ سیاسی رشوت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ پی سی بی کے ہوش ربا اخراجات دیکھیں اور ناقص کارکردگی دیکھیں۔ سوئی ناردرن اور سدرن گیس کے سربراہان، چیئرمین واپڈا اور اس جیسے دیگر کئی محکموں کے سربراہان ماہانہ ایک کروڑ روپے فی کس سے زیادہ میں پڑ رہے ہیں۔ مگر حکومت چند ہزار روپے فی کس ساری زندگی کی خدمات کا صلہ پانے والوں کو بوجھ سمجھتی ہے۔
آپ وفاقی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے۔ وزیر مشیر، سٹینڈنگ کمیٹیوں کے چیئرمین۔ ہر ایک کا دفتر، پروٹوکول، گاڑیوں اور دیگر سہولیات پر ماہانہ خرچہ ایک کروڑ سے بھی زیادہ۔ ہمارے ہاں تو بے محکمہ وزیر بنائے جانے کا بھی رواج ہے۔ ملکی خزانے کو امانت سمجھ کر نہیں لوٹ کا مال سمجھ کر مراعات یافتہ طبقے پر لٹایا جاتا ہے مگر بوجھ معمولی پنشن لینے والوں کو سمجھا جا رہا ہے۔ ہر ماہ لاکھوں لٹر تیل حکومتی خزانے پر جانے کیوں بوجھ نہیں لگتا۔ مالِ مفت کو بے رحمی سے لوٹا جا رہا ہے مگر اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاتی۔
یاد رکھئے! پنشن صرف چند ہزار روپے نہیں ہوتے۔ یہ پنشنر کی عزتِ نفس کو محفوظ رکھنے کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں۔ ساٹھ سال سے اسی سال کی عمر تک کے یہ بزرگ عمر کے اس حصے میں کوئی بھی کام کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ عمرِ عزیز کا سنہرا دَور یہ حکومت کی نذر کر چکے ہوتے ہیں۔ بال بچوں کی شادیاں ہو چکی ہوتی ہیں۔ نواسے نواسیاں اور پوتے پوتیاں جب اپنے والدین کے ساتھ ان کے پاس رہنے کے لیے آتے ہیں تو اخراجات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ بیٹیوں کو خالی ہاتھ رخصت بھی نہیں کیا جاتا۔ یہ لوگ برادری کے سربراہ بن چکے ہوتے ہیں۔ رشتے داروں کا آنا جانا لگا رہتا ہے جو اخراجات کا متقاضی ہے۔ برادری میں بیاہ شادی، خوشی و غمی کے موقع پر بھی انہیں جانا پڑتا ہے جو اضافی اخراجات کا موجب ہے۔ بڑھاپا بذاتِ خود ایک مرض ہے اور اپنے ساتھ کئی بیماریاں لے کر آتا ہے۔ ادویات کی قیمتیں آسمانوں پر
اور ڈاکٹروں کی فیسیں آسمانوں سے بھی اوپر جا چکی ہیں۔ پنشنرز کو بوجھ نہ کہیں۔ ان کے حالات کو سمجھیں۔ ملکی معیشت پر پنشنرز بوجھ نہیں ہیں۔ قابض اشرافیہ معیشت کے لیے بھاری بوجھ بنی ہوئی ہے۔ اصل بوجھ معیشت کی کشتی میں پڑا ہوا بھاری پتھر ہے۔ آپ معمولی سے شاپر کو بوجھ سمجھ رہے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button