معاف کرو اور آگے بڑھو

معاف کرو اور آگے بڑھو
تحریر : امتیاز احمد شاد
انسان کی زندگی آزمائشوں اور خطائوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہر انسان غلطیوں کا پتلا ہے، کبھی جان بوجھ کر تو کبھی نادانستہ طور پر، وہ دوسروں کے حق میں زیادتی کر بیٹھتا ہے۔ اسی لیے اسلام نے ہمیں سب سے خوبصورت سبق دیا کہ دوسروں کی خطائوں کو معاف کر دو اور آگے بڑھ جائو۔
سورۃ الشوری میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ اور جو معاف کر دے اور اصلاح کرے، تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے‘‘۔
یہ صرف ایک اخلاقی نصیحت نہیں بلکہ ایک ایسا اصول ہے جو فرد، معاشرہ اور پوری قوم کو امن و سکون عطا کر سکتا ہے۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ نے معاف کرنے کی جو عملی مثالیں پیش کیں وہ رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ مکہ کے وہی لوگ جنہوں نے آپؐ کو پتھروں سے زخمی کیا، آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھائے، آپؐ کو قتل کرنے کے منصوبے بنائے، جب وہ آپؐ کے رحم و کرم پر آئے تو آپؐ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم نے میرے ساتھ کیا کیا، بلکہ فرمایا ’’ آج تم پر کوئی گرفت نہیں، جائو تم سب آزاد ہو‘‘۔
یہ معافی اور درگزر کی روش ہی تھی جس نے آپؐ کے دشمنوں کو بھی دوست بنا دیا، دشمنی کو محبت میں بدل دیا اور بکھرے ہوئے قبیلوں کو ایک امت بنا دیا۔ اگر ہم اپنے معاشرے، اپنے ملک پاکستان پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ ہم اس سنہری اصول کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ ہمارے دل بغض، حسد، کینہ، انتقام اور نفرت سے بھر چکے ہیں۔ سیاسی میدان ہو، معیشت کا شعبہ ہو یا معاشرتی زندگی ہم ہر جگہ ایک دوسرے کے لیے مشکلات پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ سیاست میں ہمارے لیڈر اور ان کے پیروکار ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سیاست دشمنی بن چکی ہے، ہر فریق دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے۔ ملک کی پارلیمنٹ سے لے کر گلی محلوں تک مخالفین پر ذاتی حملے، بد زبانی اور نفرت آمیز بیانیے عام ہیں۔ جب ملک کی قیادت کا یہ حال ہو تو عوام میں برداشت کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟۔
معاشی حالات بھی اسی روش کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کاروباری تنازعات کو ذاتی دشمنیوں میں بدل دیا جاتا ہے، ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم ایک غیر یقینی معاشی صورت حال میں پھنس گئے ہیں، سرمایہ کار ملک چھوڑ رہے ہیں، نوجوان بے روزگار ہیں اور مہنگائی عوام کی کمر توڑ رہی ہے۔ اور اخلاقی حالات؟ ان پر تو جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ ہم نے ایک دوسرے کی عزت کرنا چھوڑ دی، معاف کرنا کمزوری سمجھ لیا، زبان کو زہر سے بھر لیا۔ والدین سے لے کر استاد تک، سیاستدان سے لے کر عوام تک، ہم سب ہی نفرت اور انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ معاف کرنا کمزوری نہیں بلکہ عظمت کی نشانی ہے۔
اللہ تعالیٰ سورۃ آل عمران میں فرماتے ہیں: ’’ جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں، اللہ ان سے محبت کرتا ہے‘‘۔
معاف کرنا دراصل دل کے بوجھ کو اتار پھینکنے کا نام ہے۔ یہ وہ خوبی ہے جو انسان کو اندر سے مضبوط کرتی ہے، اسے اللہ کے قریب لے جاتی ہے اور معاشرے کو جنت کا نمونہ بنا دیتی ہے۔ انتقام اور نفرت انسان کو تباہ کر دیتے ہیں، لیکن معافی اور درگزر انسان کو اونچا کر دیتے ہیں۔ اگر ہم اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ ہم اپنی انا کے اسیر ہو چکے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے جھگڑوں پر رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، کاروباری شراکتیں ختم ہو جاتی ہیں، ہم اپنے گھر والوں تک کو معاف نہیں کرتے۔ کیا ہمیں یاد نہیں کہ نبیؐ نے طائف کے لوگوں کو کیسے معاف کر دیا تھا؟، کیا ہمیں یاد نہیں کہ حضرت یوسفٌ نے اپنے بھائیوں کو معاف کر کے فرمایا: ’’ آج تم پر کوئی الزام نہیں۔ اللہ تمہیں معاف کرے، اور وہ سب رحم کرنے والوں سی بڑھ کر رحم کرنے والا ہے‘‘۔
پاکستان کو اس وقت جن بحرانوں نے گھیر رکھا ہے، ان کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے معاف کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم سب نے اپنی انا کو اتنا بڑا کر لیا ہے کہ اس کے سامنے دوسروں کو معاف کرنا محال ہو گیا۔ یہی انا سیاست میں بھی ہے، معیشت میں بھی اور ہمارے اخلاق میں بھی۔ اگر ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر دوسروں کو معاف کرنا سیکھ لیں تو بہت سی رنجشیں ختم ہو سکتی ہیں۔ سیاست میں اگر فریقین ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھ جائیں، مفاہمت کی میز پر بیٹھ جائیں تو شاید ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائیں۔ معاشی میدان میں اگر کاروباری طبقہ اور حکمران طبقات ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کریں، بداعتمادی کو ختم کریں تو معیشت میں بھی بہتری آ سکتی ہے۔ اور اگر ہم اپنے گھروں میں، اپنے محلوں میں دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کرنا سیکھ لیں تو معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ یہ صرف حکمرانوں یا بڑے لوگوں کی ذمہ داری نہیں، بلکہ ہم سب کو اپنے حصے کا چراغ جلانا ہوگا۔ ہمیں اپنے دل سے نفرت نکالنی ہوگی، دوسروں کے لیے اچھا سوچنا ہوگا، چھوٹے چھوٹے معاملات کو انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے معاف کر دینا ہوگا۔ ہمیں اپنے رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس سنتِ نبویؐ کو اپنائیں کہ معاف کرو اور آگے بڑھو، تو یہ صرف ہماری ذاتی زندگیوں کو بہتر نہیں کرے گا بلکہ پورے معاشرے کو روشنی دے گا۔ معاف کرنا دراصل ہمارے دلوں کو سکون دیتا ہے، ہماری دعائوں کی قبولیت کا ذریعہ بنتا ہے، اور اللہ کی رحمت کو ہمارے قریب کر دیتا ہے۔
آئیے! ہم سب آج یہ عہد کریں کہ اپنی ذات کی چھوٹی چھوٹی انا کو قربان کریں گے، دوسروں کی غلطیوں کو درگزر کریں گے، اور اپنی زبان اور عمل سے نفرت نہیں بلکہ محبت اور بھائی چارہ پھیلائیں گے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے ہم نہ صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں بلکہ پاکستان کو بھی ایک مضبوط، خوشحال اور پرامن ملک بنا سکتے ہیں۔
یاد رکھئے! معاف کر دینا کمزوری نہیں بلکہ بڑی ہمت کا کام ہے۔ اگر ہم واقعی ایک عظیم قوم بننا چاہتے ہیں تو ہمیں معاف کرنے اور آگے بڑھنے کا ہنر سیکھنا ہوگا۔ وگرنہ داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔







