سزائے موت کے خاتمے کا امکان

سزائے موت کے خاتمے کا امکان
تحریر : امتیاز عاصی
اس وقت پاکستان میں سزائے موت کی سزا پر عمل درآمد رکا ہوا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور یورپی یونین کا پاکستان پر ہمیشہ دبائو رہا ہے کسی طرح موت کی سزا کو ختم کیا جائے۔ اسلامی مملکت ہونے کے ناطے مملکت میں موت کی سزائوں پر عمل درآمد جاری تھا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اسمبلی کے فلور پر یہ اعلان کیا حکومت موت کی سزا کو عمر قید میں بدل دے گی۔ پیپلز پارٹی کے پاس ایوان میں موت کی سزا کو ختم کرنے کے لئے ارکان کی مطلوبہ تعداد نہ ہونے کی وجہ سے موت کی سزا پر عمل درآمد رکا رہا لیکن سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد جنرل پرویز مشرف نے سزائے موت پر عمل درآمد کا حکم دے دیا۔ جس کے بعد پاکستان کی تاریخ میں اتنی بڑی تعداد میں مجرموں کی سزائے موت پر عمل درآمد نہیں ہوا جیتنا مشرف دور ہوا تھا۔ اب گزشتہ کئی سالوں سے موت کی سزا پر عمل درآمد رکا ہوا ہے پیپلز پارٹی موت کی سزا کو ختم کرنے کی ہمیشہ حامی رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی موت کی سزا کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن مذہبی جماعتوں کے دبائو اور ایوان میں سزائے موت کے قانون کو بدلنے کے لئے ارکان کی مطلوبہ تعداد نہ ہونے کی وجہ سے بھٹو سزائے موت کو ختم نہیں کر سکے تھے۔ موجودہ حکومت جو پیپلز پارٹی کی حمایت سے وجود میں آئی تھی اب پیپلز پارٹی کے بعض حلقوں کی طرف سے موت کی سزا کو ختم کرنے کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ شنید ہے حکومت آئین میں ترمیم کے لئے 27 ویں آئینی ترمیم لا رہی ہے۔ جس طرح 26 ویں آئینی ترمیم لا کر عدلیہ کے پر کاٹے گئے ہیں بالکل اسی طرح حکومت آئینی ترمیم لا کر سزائے موت کو بھی ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ حال ہی میں قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کی بندر بانٹ کے بعد اس بات کا قومی امکان ہے حکومت آئین میں ترمیم کرکے موت کی سزا کو عمر قید میں بدل دے گی۔ سینیٹ میں حکومت اپنے ارکان کی اکثریت کے لئے کے پی کے سے من پسند سینیٹرز کا انتخاب کرکے اپر ہائوس میں بھی آئین میں تبدیلی کے لئے ارکان کی مطلوبہ تعداد با آسانی پورا کر لے گی جس کے بعد اپر ہائوس میں بھی حکومت کو آئین میں ترامیم لانے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ عجیب تماشا ہے 2024ء فروری میں الیکشن ہوئے اس کے باوجود ابھی تک کے پی کے سے سینیٹرز کا انتخاب مکمل نہیں ہو سکا البتہ اب حکومت کے لئے من پسند سینیٹرز منتخب کرنے کی راہ کافی حد تک ہموار ہو چکی ہے۔ ہم موت کی سزا کو ختم کرنے پر معترض نہیں ہیں سوال ہے ملک میں دہشت گردی پھیلانے والے ایسے مجرم جو ساہی وال کی ہائی سکیورٹی جیل میں بند ہیں اگر آئین میں ترمیم لا کر موت کی سزا کو ختم کر دیا گیا تو اس کا مطلب دہشت گرد بھی موت کی سزائوں سے بچ جائیں گے۔ پاکستان کی جیلوں میں دہشت گردی میں سزائے موت پانے والے مجرموں کے علاوہ بھی ان قیدیوں کی خاصی تعداد موجود ہے جن میں وہ قیدی بھی شامل ہیں جن سے قتل خطاء ہوا اور عدالت نے انہیں موت کی سزا دے دی۔ جہاں تک قتل عمد کی بات ہے بعض اوقات لوگ جائیدادوں اور دیگر خانگی تنازعوں کے باعث قتل جیسے سنگین جرم کے مرتکب ہوتے ہیں جو قانون کی روشنی میں موت کی سزا کے مستحق نہیں ہوتے۔ حکومت نے اگر موت کی سزا ختم کرنا ہے تو ان دہشت گردوں کو ایسے مجرموں کی کیٹیگری سے باہر رکھنا ہوگا جن سے خطاء میں قتل جیسا مجرم سرزد ہوا تھا۔ جہاں تک سزائے موت پانے والے مجرموں کی اپیلوں کی سماعت کا تعلق ہے سپریم کورٹ میں بہت کم تعداد ایسے مجرموں کی ہے جن کی اپیلیں زیر التوا ہیں۔ انگریز نے ماتحت عدالتوں سے موت کی سزا پانے والے مجرموں کی سزائوں پر عمل درآمد سے قبل اپیلوں کی گنجائش اس لئے رکھی تھی تاکہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہونے پائے۔ جن ملزمان کو ماتحت عدالتوں سے موت کی سزا سنائی جاتی ہے ہائیکورٹس میں ان کی اپیلوں کی سماعت کے لئے دو ججوں کو مقرر کیا جاتا ہے تاکہ کسی سطح پر مجرموں سے کسی قسم کی زیادتی نہ ہونے پائے۔ جن مجرموں کی موت کی سزائوں کو ہائیکورٹس برقرار رکھتی ہے ان کی اپیلوں کی سماعت تین ایسے جج کرتے ہیں جن میں زیادہ تر ایسے جج شامل ہوتے ہیں جو چاروں صوبوں کی ہائیکورٹس کے چیف جسٹس رہ چکے ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں سزائے موت کے مجرموں کی اپیلوں کی سماعت کے وقت مقدمہ کی شہادتوں کا بڑی باریک بنی سے جائز ہ لیا جاتا ہے تاکہ کسی مجرم کے ساتھ زیادتی نہ ہونے پائے۔ انگریز دور کی بنائی ہوئی جیلوں میں موت کی سزا پانے والے مجرموں کو انفرادی طور پر ایک سیل میں رکھا جاتا تھا۔ ظاہر سی بات ہے اس دور میں موت کی سزا کے مجرموں کی تعداد حالیہ وقتوں میں سزائے موت پانے والے مجرموں کی تعداد سے بہت کم ہوتی تھی۔ سابق چیف آصف سعید خان کھوسہ نے اپنے دور میں سزائے موت کی ریکارڈ اپیلوں کا فیصلہ کیا جس سے جیلوں میں موت کی سزا پانے والے قیدیوں کی تعداد بہت کم رہ گئی تھی۔ ہمارے مشاہدے کے مطابق آج کل پنجاب کی جیلوں میں موت کی سزا پانے والے قیدیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جب کہ اس کے برعکس ہائیکورٹس میں ان کی اپیلوں کے فیصلے بہت کم ہونے سے قیدیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ میں سزائے موت کے قیدیوں کی اپیلوں کو جلد از جلد نپٹایا جائے۔ اس کے ساتھ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں ریاست میں دہشتگردی کے مرتکب دہشت گردوں کو بلاتاخیر موت کی سزا دینی چاہیے۔ تعجب ہے صدر مملکت سے ساٹھ دہشتگردوں کی رحم کی اپیلیں خارج ہونے کے باوجود انہیں موت کی سزا نہ دینا آئین اور قانون سے مذاق ہے۔





