کرپٹو کرنسی، پاکستان بھارت سے آگے

کرپٹو کرنسی، پاکستان بھارت سے آگے
تحریر : سی ایم رضون
حکومت پاکستان کی جانب سے حال ہی میں تعینات کردہ کرپٹو کونسل کے سربراہ بلال بن ثاقب نے کہا ہے کہ پاکستان نے کرپٹو کو قانونی کرنسی نہ بنانے کا اپنا سابقہ مقف تبدیل کر لیا ہے اور امریکا کی پیروی کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے بِٹ کوائن اسٹریٹیجک ریزرو قائم کر دیا ہے۔ امریکی شہر لاس ویگاس میں بِٹ کوائن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کرپٹو کونسل کے سربراہ بلال بن ثاقب نے کہا کہ پاکستان نے موجودہ سال فروری میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے اور کرپٹو کرنسیوں کے لئے نیشنل کرپٹو کونسل قائم کی تھی جس کے تحت اب پاکستان کرپٹو ریگولیٹری پالیسیوں کو اپنا رہا ہے اور جامع ریگولیٹری فریم ورک کی ترقی کے لئے ہی نیشنل کرپٹو کونسل قائم کی گئی ہے۔ سربراہ کرپٹو کونسل کا کہنا تھا کہ پاکستان نے کرپٹو کو قانونی کرنسی بناتے ہوئے بِٹ کوائن اسٹریٹیجک ریزرو کے قیام میں امریکا کی پیروی کی ہے اور وہ اسٹریٹیجک بِٹ کوائن ریزرو قائم کرنے کے لئے آگے بڑھ رہا ہے۔ بلال بن ثاقب نے مزید کہا کہ مئی میں بِٹ کوائن کان کنی اور اعلیٰ کارکردگی والے کمپیوٹنگ ڈیٹا سینٹرز کے لئے 2 ہزار میگا واٹ اضافی توانائی مختص کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ کرپٹو کرنسی پاکستان میں ایک نسبتاً نیا مگر تیزی سے سامنے آنے والا موضوع ہے۔ عام پاکستانی شہری اس کی تفصیلات سے یا تو ناآشنا ہیں یا پھر متعدد شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں۔ تاہم دنیا بھر میں کرپٹو کرنسی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت خاص طور پر امریکہ، یورپ اور مشرقی ایشیا میں اس کے استعمال اور بلاک چین ٹیکنالوجی کی افادیت کو دیکھتے ہوئے پاکستان نے بھی اس میدان میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اسی سلسلے میں پاکستان کرپٹو کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا جس نے دعویٰ کیا ہے کہ صرف 50دن کی ورکنگ نے پاکستان کو کرپٹو سفارت کاری، ضابطہ سازی اور عالمی روابط کے میدان میں صفِ اول میں لا کھڑا کیا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کرپٹو کونسل 14مارچ 2025ء کو حکومتی تعاون سے قائم کی گئی جس کے ابتدائی اقدامات میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان اب محض کرپٹو کرنسی پر بات کرنے والا ملک نہیں رہا بلکہ اس نے عملی طور پر ایسے اقدامات کئے ہیں جن کی مثال خطے میں کہیں اور نہیں ملتی جبکہ اس سے قبل پاکستان میں کرپٹو کرنسی ایک عرصے تک افواہوں، خدشات اور حکومتی خاموشی کے سائے میں پروان چڑھتی رہی۔ کہیں سٹیٹ بینک کی جانب سے پابندیاں، تو کہیں قوانین کی عدم موجودگی نے پاکستان کے لوگوں کو اس سے دور ہی رکھا تاہم علمی سطح پر پاکستان کرپٹو کونسل نے اپنا تعارف ایک ایسے وقت میں کرایا ہے جب دنیا کرپٹو کو زیادہ سنجیدگی سے لینے لگی ہے اور اس متعدد تحفظات اور خدشات نے خود ہی دم توڑ دیا ہے۔ کونسل کی اولین اور نمایاں سرگرمی دنیا کی سب سے بڑی کرپٹو تبادلہ گاہ ’’ بائنانس‘‘ کے بانی چانگ پینگ عا کو بطور عالمی مشیر نامزد کرنا تھی۔ ’’ چانگ پینگ‘‘ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے کرپٹو کرنسی کو دنیا کے عام شہری تک پہنچایا مگر ان کی کمپنی ’’ بائنانس‘‘ کو امریکہ سمیت کئی ممالک میں قانونی پیچیدگیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ گو کہ اس وقت پاکستان کرپٹو کونسل میں ان کی شمولیت ایک علامتی پیش رفت ہے مگر یہ آنے والے وقت میں ایک امتحان بھی بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کونسل نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے منسلک بلاک چین منصوبے ’’ ورلڈ لبرٹی فائنانشل‘‘ کے ساتھ بھی شراکت داری کی ہے۔ اس منصوبے کے وفد نے گزشتہ روز اسلام آباد کا دورہ کیا جس کی قیادت سٹیو وٹکوف کے صاحبزادے زیکری وٹکوف نے کی۔ معاہدے میں بلاک چین پر مبنی مالیاتی نظام، غیر مرکزی مالیات اور مستحکم کرنسیوں کے استعمال کو فروغ دینا شامل ہے۔ یہ تمام سرگرمیاں اس بات کی عکاس ہیں کہ پاکستان کرپٹو کے ذریعے عالمی مالیاتی صف میں اپنی جگہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ 2024ء میں انڈیا نے کرپٹو منافع پر 30فیصد ٹیکس عائد کر کے وہاں کی ڈیجیٹل مارکیٹ کو شدید متاثر کیا۔ جس کی وجہ سے ہزاروں کرپٹو سرمایہ کار دبئی، سنگاپور اور دیگر کرپٹو دوست ممالک منتقل ہو چکے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں کرپٹو کونسل نے ایک نسبتاً کھلا اور ترقی پسند ماڈل اختیار کیا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا اور اکنامک ٹائمز جیسے بڑے انڈین میڈیا ادارے بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ پاکستان کرپٹو پالیسی میں سفارتی و اقتصادی برتری حاصل کر رہا ہے۔ یہ پیش رفت پاکستانی ڈیجیٹل معیشت کو خطے میں قیادت کا موقع فراہم کر سکتی ہے بشرطیکہ یہ صرف عالمی تصویروں اور اعلانات تک محدود نہ رہے۔
یہ تمام مقابلہ جاتی اور سفارتی کامیابیاں اپنی جگہ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ آیا عام پاکستانی شہری جو مہنگائی، بیروزگاری اور روپے کی بے قدری کی بنا پر بھوک اور افلاس سے دوچار ہے کرپٹو کرنسی نامی اس ڈیجیٹل انقلاب سے حقیقی فائدہ اٹھا سکے گا؟ اس حوالے سے پاکستان کرپٹو کونسل کے چیئرمین بلال بن ثاقب کے مطابق ان کی تمام تر کوششیں صرف اعلیٰ سطح کی سفارت کاری کے لئے نہیں بلکہ نچلی سطح پر اثر ڈالنے کے لئے بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کرپٹو اور بلاک چین کی طاقت صرف چند بڑے شہروں یا سرمایہ کاروں تک ہی محدود نہ رہے بلکہ دیہی علاقوں تک بھی پہنچے۔ اگر زمین، اجناس اور ترسیلات زر کے معاملات بلاک چین پر منتقل کیے جائیں تو بھی عام پاکستانی سب سے زیادہ مستفید ہو گا۔ کونسل کے مطابق زمین کی ملکیت بلاک چین پر محفوظ کر کے جعلی کاغذات کے مسئلے پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے، زرعی اجناس کی خرید و فروخت کو شفاف بنایا جا سکتا ہے، یہاں تک کہ اوورسیز پاکستانیوں کے لئے کرپٹو ترسیلات کو فوری، سستا اور محفوظ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں کرپٹو کرنسی کی سب سے بڑی پیچیدگی اس کا ڈی سینٹرلائیزڈ ہونا ہے۔ یعنی یہ کسی بینک، حکومت یا مرکزی ادارے کے ماتحت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں اس کے لئے ضابطے بنانا مشکل رہا ہے اور پاکستان بھی اسی الجھن سے دوچار رہا ہے۔
لیکن پاکستان کرپٹو کونسل کا کہنا ہے کہ وہ اب ایک ایسا جامع ضابطہ جاتی فریم ورک ترتیب دے رہی ہے جو فیٹف جیسے عالمی اداروں کے تقاضوں پر بھی پورا اترے اور شفاف عملیت کے مقاصد بھی پورے کرے تاکہ کرپٹو کو قانونی، محفوظ اور شفاف بنایا جا سکے۔ کونسل کے مطابق یہ ضابطہ جات بین الاقوامی ماہرین کی مدد سے تیار کیے جا رہے ہیں اور پاکستان جلد ہی گلوبل ساتھ میں کرپٹو ضوابط کے اعتبار سے دیگر ممالک سے آگے نکل جائے گا۔ پاکستان میں کرپٹو کرنسی پر وضاحت کے ساتھ بات کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس پر ٹھوس اور جامع قانون سازی کرے تو یہ نہ صرف ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لا سکتا ہے بلکہ ترسیلات زر کو بھی بہتر، شفاف اور فوری بنا سکتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی ایک عرصے تک افواہوں اور خدشات کے سائے میں پروان چڑھتی رہی ہے مگر اب حکومتی سرپرستی نے وہ تمام خدشات اور تحفظات دور کر دیئے ہیں جن کی بنا پر عام کاروباری خوفزدہ یا گریزاں تھا۔ اب صرف کونسل یا پرائیویٹ سیکٹر پر انحصار سے کام نہیں چلے گا۔ سٹیٹ بینک جیسے ادارے کو بھی قیادت سنبھالنا ہو گی ورنہ ماضی کی طرح بیورو کریسی اور ادارہ جاتی رکاوٹیں اس کی ترقی کو روکتی رہیں گی۔ اس سلسلے میں حوصلہ افزا امر یہ ہے کہ پاکستانی نوجوان پہلے ہی ویب تھری، ڈیجیٹل معیشت اور فری لانسنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں لہٰذا اگر کرپٹو کو ایک باقاعدہ، محفوظ اور قانونی ذریعہ بنایا جائے تو یہ نوجوان نہ صرف ملک کی معیشت کو سہارا دے سکتے ہیں بلکہ عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی ساکھ بھی بہتر ہو سکتی ہے۔ ان حالات میں یہ کہنا ہر گز بیجا نہ ہو گا کہ کرپٹو کرنسی بلاشبہ پاکستان کے لئے اقتصادی شفافیت، ڈیجیٹل روزگار اور عالمی سرمایہ کاری کے دروازے کھولنے کا ذریعہ اور ایک سنہری موقع بن ہے مگر یہ موقع صرف اسی وقت حقیقت کا روپ دھارے گا جب بلند بانگ دعوے عملی اقدامات، قانون سازی، ادارہ جاتی ہم آہنگی اور عوامی شعور سے جڑیں گے۔ بصورت دیگر یہ بھی ایک اور گزر جانے اور ضائع ہو جانے والا موقع ہو گا جیسا کہ ماضی میں کئی انقلابی منصوبوں کا انجام ہوا۔ جس سے نہ صرف وقت ضائع ہوا بلکہ عوامی اعتماد کو بھی دھچکا لگا۔ تاہم اس وقت کرپٹو کرنسی کے حوالے سے پاکستان کا بھارت سے آگے نکل جانا خوش کن امر ہے جس پر بھارت کے میڈیا میں چیخ و پکار جاری ہے۔





