مہنگائی کے اسباب

مہنگائی کے اسباب
تحریر : رفیع صحرائی
آج کل لاکھوں روپے کمانے والا پریشان ہے تو پچیس تیس ہزار روپے ماہانہ آمدنی والا بھلا کیسے خوش ہو سکتا ہے۔ ہر طرف مہنگائی کا رونا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ مہنگائی پچھلے کچھ عرصے میں بے تحاشہ بڑھی ہے جس نے عام آدمی کی قوتِ خرید میں نمایاں کمی کر دی ہے۔ مہنگائی کا جن عفریت بن کر کم آمدنی والے طبقے کو نگلتا جا رہا ہے۔
اگر مہنگائی کے اسباب پر غور کیا جائے تو کافی حد تک اس کی ذمہ داری ہم عوام پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ہم نے اپنا طرزِ زندگی بدل کرخود مہنگائی کو دعوت دی ہے۔ سادگی کو چھوڑ کر سہولیات کے پیچھے بھاگنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اب بات صرف سہولیات تک محدود نہیں رہی۔ بات سہولیات سے آگے بڑھ کر تعیشات تک پہنچ گئی ہے اور ہم نے تعیشات کو ضروریات بنا لیا ہے۔
موبائل فون کی آمد سے پہلے زندگی بہت سہل ہوا کرتی تھی۔ اب موبائل فون صرف کال سننے کے کام نہیں آتا۔ اس نے چھوٹی چھوٹی بہت سی مشینوں کو نگل لیا ہے۔ خط لکھنے کی خوب صورت روایت اختتام پذیر ہوئی۔ فوٹو گرافر اور ویڈیو والے سے نجات ملی۔ ہاتھ پر گھڑی باندھنے کی ضرورت نہ رہی۔ ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر، وی سی آر اور سینما کی چھٹی ہو گئی۔ اخبارات کی حاجت نہ رہی۔ کسی سے راستہ پوچھنے کے تکلف سے جان چھوٹی کہ موبائل میں مطلوبہ مقام کی لوکیشن موجود ہوتی ہے۔ بلڈپریشر اور شوگر چیک کرنے کی ایپس موبائل میں موجود ہیں۔ آن لائن شاپنگ نے بازار جانے کی زحمت سے چھٹکارا دلا دیا ہے۔ غرض صرف ایک موبائل فون نے دنیا سمیٹ کر آپ کے ہاتھ میں پکڑا دی ہے لیکن کیا کبھی غور کیا ہے کہ اس موبائل فون نے ہماری زندگی سے سکون چھین لیا ہے۔ مہنگے موبائل، بیلنس کا خرچہ، مہنگے پیکیجز نے اخراجات میں اضافہ کر دیا ہے۔ جذبہ مسابقت اور بلاضرورت چیزوں کی آن لائن خریداری کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ کھانے کو روٹی ملے نہ ملے موبائل میں بیلنس ہونا ضروری ہے۔ پہلے دنیا جہان کے کام کرنے کے باوجود لوگ ایک دوسرے سے ملنے یا خوشی و غمی میں شامل ہونے کے لیے وقت نکال لیا کرتے تھے۔ اب موبائل کی وجہ سے گھنٹوں کا کام منٹوں میں کرنے کے باوجود ہمارے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت نہیں ہے۔ موبائل فون نے ہمارا سارا وقت چھین لیا ہے۔
اب گلی گلی میں بیوٹی پارلر کھل گئے ہیں۔ ولیمے، مہندی، بارات، سال گرہ اور دیگر رسومات کے موقع پر الگ الگ مہنگے لباسوں اور میک اپ نے اخراجات میں اضافہ کر دیا ہے جبکہ کاسمیٹکس میں موجود کیمیکلز کی وجہ سے جِلدی بیماریاں عام ہونے کی وجہ سے الرجی کے ڈاکٹروں کی الگ سے چاندی ہو گئی ہے۔ ایک مرتبہ جس عورت یا لڑکی نے کریمیں اور کاسمیٹکس استعمال کر لیے تو پھر اس کی ان سے جان نہیں چھوٹ سکتی کہ یہ رنگت اور جلد کو جلا دیتی ہیں۔ ان کے استعمال کے بغیر خاتون خود کو بھی بری لگنے لگتی ہے۔ مصنوعی خوبصورتی کے شوق میں حقیقی حسن سے بھی خواتین ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ کاسمیٹکس کا استعمال کبھی عیاشی تصور ہوتا تھا اب اسے ضرورت بنا لیا گیا ہے۔
سادہ اور صحت بخش کھانوں کی جگہ اب برگر، شوارما، پیزا اور جانے کون کون سی الا بلا چیزیں ہماری زندگی میں سرایت کر گئی ہیں جو شوگر، بلڈ پریشر، جلد، معدے اور دل کی بیماریوں کو تیزی سے پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں مگر ہم نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی پہلے فیشن کے طور پر اس رجحان کو اپنایا اور اب اسے ضرورت بنا لیا ہے۔
پہلے پیدل چلنے کا رواج عام تھا۔ لوگ ایک گائوں سے دوسرے گاں پیدل پہنچ جایا کرتے تھے۔ زیادہ دور جانا ہوتا تو بائیسکل پر چلے جاتے۔ گائوں کے لوگ شہر سے سودا سلف سائیکل پر لاتے تھے۔ پھر ہم ایسے ماڈرن ہوئے کہ پیدل چلنا چھوڑ دیا اور سائیکل کو بھی بھولی بسری یاد بنا دیا۔ اب چند گز کے فاصلے پر جانا ہو تو موٹر سائیکل استعمال کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں ہم صحت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ چند قدم چلنے کے بعد ہانپنے لگتے ہیں۔ برائلر گوشت کھا کھا کر برائلر جیسے ہو گئے ہیں۔ سستی اور کاہلی ہمارے وجود کا حصہ بن گئی ہے۔
حکومت پنجاب نے گزشتہ سال بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑیوں اور موٹر سائیکل چلانے والوں کے خلاف کریک ڈائون شروع کیا تھا۔ کم عمر نوجوانوں کے موٹر سائیکل چلانے پر پابندی لگا دی تھی۔ جو ایک اچھا قدم تھا مگر اب پھر نرمی کر دی گئی ہے۔ اس پابندی سے سب سے زیادہ طلبہ متاثر ہوئے تھے اور زیادہ واویلا بھی انہی کی جانب سے کیا جا رہا تھا لیکن دیکھا جائے تو آئی جی پنجاب نے یہ جرات مندانہ قدم اٹھا کر بہت سے ممکنہ حادثات کا سدِباب کیا تھا۔ نوجوان لاپروائی کے ساتھ اور جوانی کے جوش میں تمام خطرات کو بالائے طاق رکھ کر رف ڈرائیونگ کے علاوہ ون ویلنگ جیسا جان لیوا کھیل ایڈونچر کے شوق میں کھیل کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا زندگی بھر کے لیے معذور ہو جاتے ہیں۔ اٹھارہ سال سے کم عمر نوجوانوں کو موٹر سائیکل چلانے کی کسی صورت اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ رہ گیا سکول جانے کا مسئلہ تو اس کا سادہ سا حل یہ ہے کہ موٹر سائیکل بیچ کر طلبہ کو سائیکل لے کر دئیے جائیں۔ ان کی صحت بنے گی۔ حادثات سے بچیں گے۔ پٹرول کی بچت ہو گی اور اخراجات میں بھی نمایاں کمی آئے گی۔
سو باتوں کی ایک بات ہے کہ اگر مہنگائی سے جان چھڑانی ہے تو تعیشات کو ضروریات کی فہرست سے نکال دیجیے۔ بچت بھی ہو گی اور زندگی بھی آسان ہو جائے گی۔




