Column

احتجاج کا غلغلہ

احتجاج کا غلغلہ
تحریر : امتیاز عاصی
عجیب تماشا ہے اپوزیشن جماعتیں انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے وجود میں آنے والی حکومت پر تنقید کے نشتر چلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ماسوائے بانی پی ٹی آئی کے دھاندلی کے خلاف تحریک چلانے سے گریزاں ہیں۔ تعجب ہے جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کا دبے لفظوں میں شورو غوغا کرتے ہیں مگر پی ٹی آئی سے مل کر احتجاج کرنے کے لئے تیار نہیں ۔یہ علیحدہ بات ہے پی ٹی آئی کے بانی کا مولانا بارے ٹریک ریکارڈ تسلی بخش نہیں ہے وہ اقتدار میں تھے تو جے یو آئی کے امیر کے خلاف جن الفاظ کا چنائو کرتے تھے قابل افسوس ہے۔ عمران خان اور جے یو آئی کے امیر کا سیاست میں موازنہ کیا جائے تو عمران خان طفل مکتب ہیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے ملک میں جب کبھی حکومت کے خلاف تحریک چلائی گئی اسے طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مذہبی جماعتوں نے تحریک کا آغاز کیا تو بھی انہیں طاقتور حلقوں کی آشیر باد حاصل تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو اور پی این اے کی مذاکراتی ٹیم کے درمیان بات چیت مکمل ہو گئی تھی ابھی ڈرافٹ پر فریقین کے دستخط ہونا تھے کہ پانچ جولائی کی رات ملک میں مارشل لاء لگ گیا۔ بھٹو سمیت کابینہ کے تمام ارکان کو گرفتار کرکے سرکاری ریسٹ ہاوسز میں بھیج دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کرکے مری کے گورنر ہائوس بھیج دیا گیا۔ دوسری طرف پی این اے کے رہنمائوں میں مفتی محمود، نواب زادہ نصر اللہ خان، شیر باز مزاری، بیگم نسیم ولی خان، ائر مارشل محمد اصغر خان، اور پیر پگاڑا کو بھی حفاظتی طور پر رکھا گیا۔ ہم پہلے کئی بار کالموں میں یہ بات کہہ چکے ہیں بانی پی ٹی آئی جذباتی ہونے کے ساتھ مردم شناس نہیں ہیں۔ وہ مردم شناس ہوتے تو ان کی جماعت پھوٹ کا شکار نہیں ہوتی۔ ایک وقفے کے بعد بانی پی ٹی آئی ایک مرتبہ پھر عوام کو احتجاج کے لئے سڑکوں پر لانے کے خواہاں ہیں۔ گو پی ٹی آئی کو عوام کی حمایت ضرور ہے تاہم عوام شدید گرمی اور سانحہ ڈی چوک سے پی ٹی آئی ورکر دل برداشتہ ہیں اور قیادت کے فقدان سے عمران خان کی جماعت کسی قسم کے احتجاج کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ عمران خان کی ہمشیرگان اپنے طور پر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے جدوجہد میں ہیں جس کا حکومت پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑ رہا ہے۔ عمران خان کے خلاف مقدمات کی تعداد کو مد نظر رکھا جائے تو عدالتیں چاہیں بھی تو بانی پی ٹی آئی کو کم وقت میں رہائی نہیں دلا سکتیں۔ جب تک عمران خان جیل سے باہر رہا عوام کا سمندر اس کی کال پر امڈ آتا تھا۔ پی ٹی آئی رہنمائوں کی اکثریت مفاد پرستوں کے ٹولے پر مشتمل ہے وہ نہ سڑکوں پر آکر احتجاج نہ ہی جیل جانے کو تیار ہیں۔ یہ بات طے ہے بانی پی ٹی آئی سے طاقتور حلقے کسی صورت براہ راست بات چیت کرنے کو تیار نہیں نہ ہی اسے جیل سے رہائی کے لئے رضامند ہیں۔ موجودہ صورتحال کی روشنی میں عمران خان کو اپنے خلاف مقدمات کی جلد سماعت کرا کر جیل سے رہائی کے لئے قانونی جدوجہد کرنی چاہیے۔ پی ٹی آئی کے احتجاج سے عمران خان کی رہائی ممکن نہیں نہ ہی ان کے خلاف مقدمات واپس ہو سکتے ہیں لہذا پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور وکلاء کو اپنا فوکس مقدمات کی جلد سماعت پر رکھنا چاہیے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو پی ٹی آئی رہنمائوں میں مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ دلیری سے جدوجہد کر رہی ہیں خصوصا باجی علیمہ خان اپنے بھائی کی رہائی کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔ ملک میں پی ٹی آئی واحد جماعت ہے ماسوائے چند ایک علاقائی جماعتوں کے کوئی بڑی سیاسی جماعت پی ٹی آئی سے مل کر حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے کو تیار نہیں۔ ملک میں جب کوئی تحریک چلی قیادت کے بغیر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئی اس سلسلے میں پی ٹی آئی میں قیادت کا بھی فقدان ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما جیلوں میں ہیں۔ گو حال ہی میں پی ٹی آئی نے سندھ میں ایک بڑا جلوس نکالا جس میں عوام کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی تاہم عمران خان چاہیں ان کی جماعت ملک گیر احتجاج کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت کا رخ کرے ممکن نہیں البتہ ضلعی سطح پر اگر احتجاج کرے تو عوام ضرور شرکت کریں گے۔ پی ٹی آئی کے وہ لوگ جو ایوان میں بیٹھے ہیں وہ عوام کو سڑکوں پر لانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، ہاں پنجاب میں گرفتار پی ٹی آئی رہنمائوں میں ڈاکٹر یاسمین راشد، شاہ محمود قریشی، اعجاز چودھری جو ضمانت پر ہیں اس طرح کے رہنمائوں کے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی ورکر سڑکوں پر آسکتے ہیں۔ پی ٹی آئی چاہے تو ضلعی سطح پر عوام کو احتجاج کے لئے جمع کر سکتی ہے یا کے پی کے کے عوام احتجاج کر سکتے ہیں۔ ہمارے خیال پی ٹی آئی رہنمائوں کو افواج پاکستان اور سپہ سالار پر تنقید سے گریز کرنا چاہیے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران جس طرح پی ٹی آئی نے رویہ اختیار کئے رکھا ایسے ہی رویئے کو مستقبل قریب میں جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ یوں بھی ہمارا ملک ایک طرح سے ہنگامی حالات سے گزر رہا ہے بھارت جیسی ازلی دشمن سے کسی اچھے کی توقع عبث ہے لہذا اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کا ملکی دفاع کے لئے یکجا ہونا ضروری ہے۔ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی بات بھول جائیں آئندہ انتخابات تین سال بعد ہوں گے جس کے لئے سیاسی جماعتوں کو اپنے ووٹ بنک کو مضبوط بنانے کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ ہمارے خیال میں عمران خان کو احتجاج کا خیال ترک کر دینا چاہیے ورکرز کو جیلوں میں بھیجنے کی بجائے انہیں تعمیری کاموں پر لگایا جائے اور جو رہنما اور ورکرز جیلوں میں ان کی رہائی کے لئے قانونی راستہ اختیار کیا جائے۔ عمران خان جیل میں ہیں تو اس میں ان کی اپنی کوتاہیاں بھی شامل ہیں۔ جہاں تک ہماری معلومات ہیں جیل میں انہیں مروجہ تمام سہولتیں میسر ہیں۔ وہ باقاعدگی سے اڑھائی گھنٹے ورزش اور آٹھ گھنے نیند کرتے ہیں، البتہ نماز پانجگانہ میں تساہل کا شکار ہیں۔

جواب دیں

Back to top button