قدرتی اثاثوں جنگل اور جنگلی حیات کا تحفظ ضروری

قدرتی اثاثوں جنگل اور جنگلی حیات کا تحفظ ضروری
تحریر : مرزا محمد رمضان
پاکستان میںممالیہ کی 195انواع ،پرندوں کی668اور خزندوں کی177انواع پائی جاتی ہیں اسی طرح یہاںپودوں کی بھی چھ ہزار سے زائد انواع موجود ہیں یہ سب اس کے انتہائی شاندار اور متنوع محل وقوع کی بدولت ہے جہاں ہمالیہ ،قراقرم ،ہندوکش ،کوہ سلیمان ،کوہ نمک اور کیر تھر جیسے پہاڑی سلاسل ،چھانگامانگافاریسٹ ،لکھی جنگل ،مری ہلز فاریسٹ ،پنڈوری فاریسٹ ،پبی رینج فاریسٹ ،زیارت جونی پور فاریسٹ ،دیر فاریسٹ ،سون ویلی فاریسٹ ،مکش پوری فاریسٹ ،کالام فاریسٹ ،چترال فاریسٹ اور سوات ویلی جیسے متنوع اور وسیع وعریض جنگل اور بل کھاتے ملک کے طول وعرض میں طویل دریاستلج ،راوی، چناب جہلم ،سندھ اور دریائے کابل، اس کے طول وعرض میں پھیلے صحرا چولستان و تھر ،تھل اور خاران ،اسکی عالمی معیار کی 19آبگا ہیں جنہیں رام سر سائٹس کا درجہ حاصل ہے جن میں اسٹولہ ،دیہہ اکڑو ،جیوانی کوسٹل ،میانی ہور ،اوکاڑہ ٹرٹل بیچ ،انڈس ڈیلٹا ،رن آف کیجھ،ڈرگ لیک ،ہالیجی لیک ،انڈس ڈولفن ریزرو ،جبو لگون ،نٹر ی لگون ،کیجز جھیل ،اُچھالی کمپلیکس ،تھانیدار والا ،حب ڈیم ،چشمہ بیراج ،تونسہ بیراج اور ٹانڈہ ڈیم شامل موجود ہیں جو یہاں کے موسموں کو انتہائی خوشگوار ،معتدل اور حسین وجمیل بناتے ہیں ۔یہ دلکش ودلفریب مناظر اور لطافت بھری آب وہوا جہاں اِدھر بسنے والے انسانوں کیلئے سود مند اور موافق ہے وہیں یہاں پائے جانیوالی دیگر مخلوق جسمیں جنگلی جانور ،پرندے اور خزندے شامل ہیں کیلئے بھی موزوں اور قابل مسکن ہے نیز ان کی خوراک اور افزائش کیلئے بھی پُر کشش ہے اور انہی عوامل کی بناء پر ہی ہر سال یہاں لاکھوں صحرائی وآبی پرندے موسم سرما میں شمال مشرقی وسط ایشیائی ریاستوں اور سائبیریا وغیرہ سے ہزاروں میل کی پُر خطر ،کٹھن اور طویل مسافت کی بعد کھینچے چلے آتے ہیں اور چند ماہ قیام کے بعد موسم گرما میں واپس اپنے بریڈ نگ گرائونڈز چلے جاتے ہیں جو یہاں قیام کے دوران ہمارے ماحولیاتی نظام کو متنوع بنانے میںبڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ پاکستان کے تمام قدرتی وسائل ہمارے لئے عطیہ خداوندی ہیں اس لئے ان کا تحفظ وفروغ نہ صرف ہمارا مذہبی فریضہ ہے بلکہ ایک مہذب شہری کی حیثیت سے ہم پر لازم بھی ہے کہ اس کے وسائل کا دانشمندانہ استعمال کریں اور ہر اُس عمل اور کام سے گریز کریں جسکی وجہ سے اِس قدرتی دولت کا ضیاع ہورہا ہے آج دنیا بھر میں موسمی تغیر وتبدل ،زرعی وصنعتی پھیلائو ،جنگلات کی بے دریغ کٹائی ،جنگلی حیا ت کے غیر قانونی شکار ،تجارت اور اسمگلنگ جیسے درپیش عوامل قدرتی وسائل کی کمی کا سبب بن رہے ہیں جس سے جنگلات اور جنگلی حیات کی بعض اہم انواع تیزی سے ناپید ہوتی جارہی ہیں اور یوں اِس ماحولیاتی بگا ڑ کی روک تھام کیلئے ضروری ہے کہ اجتماعی سطح پر درپیش ان چیلنجز سے فوری نمٹاجائے ۔
اگرچہ دیگر دنیا کی طرح پاکستا ن میں بھی جنگلات اور جنگلی حیات بچانے کیلئے حکومتیں اور ادارے کام کررہے ہیں تاہم یہ کوششیں تبھی بارآور ثابت ہوں گی جب پاکستان کے عوام بھی حکومتوں اور اداروں کے شانہ بشانہ ان قدرتی اثاثوں کو بچانے کیلئے میدان عمل میں آئیں گے اور یہاں یہ امر بھی پیش نظر ہے کہ پاکستان کے ان قیمتی اثاثوں کو تحفظ دینے کیلئے صوبہ پنجاب آج ہراول دستے کاکام کررہا ہے جس کے تمام کل پرز ے صوبہ میں جنگلی فانا وفلورا کے تحفظ کیلئے سرگرم عمل ہوچکے ہیں جو موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف اور سینئر وزیر محترمہ مریم اورنگ زیب کے ماحول دوست ویژن کا بھر پور عکاس ہے کہ وہ صوبہ میں جنگلات اور جنگلی حیات کے فروغ میں کس قدر دلچسپی لے رہی ہیں اور اُن کے گزشتہ ایک سال میں اس ضمن میں کئے جانیوالے اقدامات، اِن شعبوں کی ترقی وترویج کے متعدد منصوبو ں کی منظوری اور پھر اُن پر برق رفتاری سے کام کا آغاز اور نگرانی کیلئے بہترین مینجمنٹ کا انتخاب خصوصاً مدثر ریاض ملک جیسے انتہائی زیرک ،انتھک اور قابل بیوروکریٹ کی ایک سال قبل ڈی جی وائلڈ لائف کی حیثیت سے تقرری اور اب بطور سیکرٹری جنگلات ،جنگلی حیات وماہی پروری پنجاب کی اہم ذمہ داری اور عین اسیطرح قبل ازیں ڈی جی وائلڈ لائف کی حیثیت سے گرانقد ر خدمات سرانجام دینے والے انتہائی متحرک اور محنتی بیوروکریٹ مبین الٰہی کی دوبارہ ڈی جی وائلڈ لائف کی حیثیت سے تقرری اور تواتر سے اِ ن شعبوں کی موثر مانیٹرنگ کا عمل اِس امر کا غماز ہے کہ وہ کس قدر اِن شعبوں میں ترقی کی خواہاں ہیں ۔ صوبہ میں جنگلات اور جنگلی حیات کے قدرتی اثاثوں کی جدید تھرمل ڈرون ٹیکنالوجی سے لیس کیمروں سے نقشہ شازی ،جدید ایکوپمنٹ کے ذریعے فا نا وفلورا کا سروے ،جنگلات کی آگ پر فوری قابو پانے ،جنگلات کی چوری کی روک تھام اور جنگلی حیات کے غیر قانونی شکار اورکاروبا رکی بیخ کنی کیلئے جدید ذرائع کا استعمال اور ان گنت کئی دیگر پائیدار اقدامات ہیں جو بہت جلد ان شعبوں کی ترقی وترویج کا موجب بنیں گے ۔محکمہ جنگلی حیات میں وائلڈ لائف فورس کی تشکیل ،فیلڈ فورس کی مستقل بھرتی جس میں کہ ساڑھے پانچ سوکے لگ بھگ مردوخواتین کی عین میرٹ پر تعیناتی ، وائلڈ لائف ریسکیو فورس کا قیام اور پنجاب میں راولپنڈ ی ،خانیوال اور لاہور میں وائلڈ لائف ریسکیو سنٹر ز کی تعمیر کامنصوبہ ، فورس کیلئے جدید ایکوپمنٹ ،ایمو نیشن اور لاجسٹک ،وائلڈ لائف فورس کیلئے 62نئی گاڑیاں اور 430کے لگ بھگ موٹر سائیکلز اور انفار میشن ٹیکنالوجی سسٹم سے مزین آلات وایکوپمنٹ کی خریداری جیسے متعدد اقدامات موجودہ حکومت کی اِس ضمن میں نمایاں تر جیحات کا تعین کررہے ہیں مزید برآں جنگلی فانا وفلورا بچانے کیلئے جدید ذرائع سے لیس چیک پوسٹوںکا قیام ،عوام کیلئے ای لائسنسنگ کی سہولیات ۔ جنگلی فانا وفلورا بچانے کیلئے صوبہ میں پہلی مرتبہ ہیلپ لائنز برائے جنگلات 1084اور برائے جنگلی حیات 1107آپریشنل کر دی گئی ہیں۔ محکمہ کی استعداد کا ر بڑھانے کیلئے مختلف تربیتی پروگرام شروع کردیئے گئے ہیں ۔ ترقیاتی کا موں او ر سروس ڈلیوری کو از حد تیز کر دیا گیا ہے ۔ سالوں کے کام مہینوں ، مہینوں کے ہفتوں، ہفتوں کے دنوں اور دنوں کے گھنٹوں میں کئے جارہے ہیں جس سے یقیناً جنگلات اورجنگلی حیات کے شعبوں میں انقلاب آئیگا اور بلاشبہ یہ کریڈ ٹ موجودہ ماحول دوست وزیر اعلیٰ، سینئر وزیر اور اُن کی ٹیم کو جاتا ہے جو شبانہ روز جنگلی فانا وفلورا کے تحفظ کیلئے سرگرم عمل ہیں ۔





